
اللہ ! میں صبر کروں گی
اتوار 28 اگست 2016

حافظ ذوہیب طیب
عثمان تھیلسیمیا کا مریض ہے جو پل پل جی رہا ہے ۔اس کے والد کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس روٹی کے لئے آٹا نہیں ہوتا تو بیٹے کا علاج کیسے کرائیں ، اسی صدمے نے ان کی جان لے لی اور اب عثمان کی ماں ہے جو اسے دیکھ کر جیتی اور تکلیف میں دیکھ کر پل پل مرتی ہے ۔
(جاری ہے)
روز بروز موت کی جانب بڑھتے ہوئے ہوئے معصوم بچے کو لاحق بیماری کے علاج کی وجہ سے گھر کا تما م سامان بھی بک چکا ہے لیکن اس بیماری سے لڑنے کے لئے جن ادویات کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت مہنگی ہیں اور جس کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بیت المال سے امداد اور زکوٰة بھی ان لوگوں کو ملتی ہے جس کا کوئی تگڑا سفارشی ہو تا ہے۔بچہ ہے جو ماں سے یہ سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب میرے نصیب میں آخر کیوں؟مجھے فلاں چیز لے کر دو، کھلونے، جوتے، کپڑے، یہ سب میرا نصیب کیوں نہیں؟ میں کیوں اچھا کھاپی نہیں سکتا؟ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں؟ آنکھوں میں آنسوؤں کے علاوہ عثمان کی ماں کے پاس اور کوئی جواب نہیں ہوتا۔
عثمان اور اس کی ماں۔۔۔ آزمائش یا مصیبت یا پھر معاشرے کا قرض۔۔۔وہ دیہاتی عورت جو اسے خدا کی طرف سے آزمائس سمجھ کر مشکلات کا سامنا کر رہی ہے ۔ ایک بے سہارا عورت کس کے آگے ہاتھ پھیلائے اور کس سے مدد مانگے؟ وہ تو بس یہ دعا کرتی ہے کہ اے اللہ ! میرے اور میرے بچوں کے لئے اگلے جہان میں آسانی پیدا کرنا اور مجھے صرف تیرا سہارا درکار ہے ۔ایک ماں اور ایک معصوم، ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب کون دے؟ میں ۔۔۔آپ ۔۔۔معاشرہ؟ یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وہ حکمران جو اپنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کے لئے بھی یورپی ممالک کی جانب کوچ کر جاتے ہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنا ذاتی علاج کرانے؟؟؟
قارئین !معروف سماجی کارکن اور بالخصوص تھیلیسمیا کے مرض میں مبتلا ، مرجھاتے ہوئے پھولوں کی طرح معصوم بچوں کو امید اوران کی سانسوں کو مزید کچھ مہلت دینے کی کوشش کرنے والے اظہر محمود شیخ کی کتاب ”اللہ! میں صبر کروں گی“ تھیلیسمیا میں مبتلا بچوں اور ان کے والدین کی آپ بیتی پر مشتمل ہے جس کا ہر لفظ، صفحہ اور کہانی پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ کیسے یہ بچے اور ان کے والدین کرب کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ ساری آپ بیتیاں پڑھ کر اپنے اور اپنے معاشرے کی بے حسی پر بھی رونا آتا ہے کہ ہم لوگ کتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے پیٹ سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ بڑے بڑے محلات اور بلڈنگیں تعمیر کر کے جو استعمال میں بھی نہیں ہوتیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ۔
قارئین کرام !100لفظوں کی کہانی کے موجد جناب مبشر علی زیدی کی ایک کہانی ”زندگی“ آپ کے ساتھ بھی شئیر کر رہاہوں ۔ہسپتال کے انتظار گاہ میں کئی بچے والدین کے ساتھ موجود تھے ۔ میں نے اپنا تھیلا تھپتھپایا، ایک بچے کو ٹا فیوں کا پیکٹ دیا ، اس نے خوشی خوشی لے لیا ، ایک لڑ کے کو کہانیوں کی کتاب دی ، اس نے خوشی خوشی لے لی ، ایک بچی کو کھلونا پیش کیا ، اس نے انکار میں سر ہلا دیا ، میں نے کہانیوں کی کتاب پیش کی ، اس نے انکار میں سر ہلا دیا ، میں نے ٹافیوں کا پیکٹ پیش کیا ، اس نے انکار میں سر ہلا دیا ، ”بیٹی!“ آپ کو کیا چاہئے؟ میں نے اسے چمکارا، تھیلسیمیا کی مریض وہ بچی بولی: ”خون کی بوتل“۔
ایسے ہزاروں بچوں کو صرف ایک خون کی بوتل زندگی بخش سکتی ہے ۔ آئیے !اظہر محمود شیخ اور ان کی ٹیم کی طرح اپنے آس پاس، گلی ، محلے اور شہر میں ایسے بچوں کو تلاش کریں اور مہینے میں صرف دو دفعہ خون کی بوتلیں دے کر یا انتظام کر کے تیزی سے موت کی جانب سفر کرتے ہوئے ان معصوم بچوں کو زندگی کی چند سانسیں دینے میں اپنا کردار ادا ء کریں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.