راوی اداسی بہا رہا ہے ۔ قسط نمبر 1

بدھ 30 دسمبر 2020

Hassaan Ali

حسان علی

لاہور کے لئے گاڑی پر بیٹھیں تو سب سے پہلے ذہن میں داتا گنج بخش کا خیال آتا ہے اور ساتھ ہی تاریخ کا لفظ ذہن میں گونجنے لگتا ہے، ہم اپنی پنجابی زبان میں تو لاہور کو "لہور" کہتے ہیں کیونکہ ہمیشہ کی طرح ہم نام. بگاڑنے میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں، اور اکثر تو لاری اڈے پر گاڑیوں والے درمیان والی ہ بھی کھا جاتے ہیں، وہ لہور کو لور بنا دیتے ہیں تاکہ کم وقت میں زیادہ لوگوں کو گاڑی میں بھرا جا سکے.


موٹر وے کی تعریف کرنا یہاں ہرگز موضوع سے مطابقت نہیں رکھتا اِس لئے  لاہور شہر میں داخل ہوتے ہیں، جیسے یہاں پر بیرونی حملہ آور داخل ہوتے رہے ہیں، میرا ہرگز مقصد سلطنت عثمانیہ کو سمیٹنا نہیں ہے، میں تو خود کو تاریخ یاد کروا رہا ہوں کہ کس طرح لاہور چوتھی صدی سے حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے، بس سٹینڈ پر سورج غروب ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا، رات کا پہر سردی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، خاموشی آہستہ آہستہ لاہور پر چھا رہی تھی، اور میں اپنی رہائش گاہ کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا، لاہور پنجاب کا شہر ہونے کے باوجود اجنبی لگتا ہے، زندہ دل تو لاہور والے 1965 میں تھے، آب تو اُن کی تیسری نسل لاہور میں بس رہی ہے، جو شاید آب زندہ دل نہ رہے ہوں، بلکہ میرے خیال سے باہر سے جانے والے زیادہ زندہ دل ہوتے ہیں.


بقول ہمارے ایک پروفیسر صاحب کے برصغیر پر باہر سے حملہ کرنے والے سارے ڈاکو، لٹیرے تھے، وہ لاہور کو لوٹنے آتے اور پھر چلے جاتے تھے، لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا ہم خیال ضرور ہوں لیکن اُسے تاریخ کا ایک رُخ سمجھتا ہوں، ڈاکو اور لٹیرے کا لفظ غیر پارلیمانی ہے، اِس لئے تو وہاں سب صادق اور امین بیٹھے ہیں، اِس لئے یہ الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے، لاہور میں خاص طور پر شیر شاہ سوری نے جی ٹی روڈ تعمیر کروائی، اِسی طرح مغلوں نے بہت سی تاریخی عمارتیں، مساجد اور باغ تعمیر کروائے، سکھ دور میں لاہور میں مغلوں کی فن تعمیر کو نقصان ضرور پہنچا لیکن انہوں نے اپنی الگ سے کافی تعمیرات کیں، جو آج بھی موجود ہیں، یہ شہر کافی اہمیت کا حامل رہا ہے اور آج بھی تختِ لاہور کے نام سے کافی اہمیت رکھتا ہے، اِس لئے حملہ آوروں کی زد میں رہا اور آج جمہوری نمائندوں کی زد میں ہے.


اگلے روز سورج کی بلند ہوتی کِرنوں میں 'میں' نے مغلیہ دور میں قدم رکھا، جہاں پر بادشاہی مسجد جسے 1673 میں مغل اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کروایا، مسجد کم اور تفریح گاہ زیادہ محسوس ہو رہی تھی، لوگ فن تعمیر اور اُس وقت کے تراشے ہوئے غیر معمولی پتھر دیکھنے کی بجائے اندر خانے اور کاموں میں مصروف تھے، کسی کو تعریف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی، کہ اتنا بڑا شہکار وہ بھی سترویں صدی میں بنایا گیا جب آج کی مشینری موجود نہیں تھی، بادشاہی مسجد کے بلکل سامنے شاہی قلعہ ہے، جو لاہور کی تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتا آ رہا ہے، مختلف ادوار میں توسیع کا کام جاری رہا، آج کا موجودہ شاہی قلعہ جس میں 'میں' داخل ہو رہا ہوں اِسے اکبر بادشاہ نے ازسرنو تعمیر کروایا، اندر داخل ہوتے ہی سامنے آسمانوں تک بلند اینٹوں کی دیوار آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے، فن تعمیر میں مغلوں کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا، حالانکہ یہ قلعہ زمانہ قدیم میں بھی موجود تھا، لیکن زیادہ تر تعمیرات اکبر کے دور میں ہوئیں، شاہی حمام جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اُس وقت کس قدر نزاکت سے بنایا اور سنوارا گیا ہو گا، آخر بادشاہ کا حمام تھا، پھر دیوان عام جس میں عام لوگ رعایا بن کر بادشاہ سلامت کے احکامات سنا کرتی تھی، آج تو ٹیلی ویژن کے ذریعے قوم سے خطاب کر دیا جاتا ہے،اور  قلعے میں عام آدمی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی.


میرے خیال سے شاہی قلعہ فن تعمیر، محنت خلوص کا دوسرا نام ہے، آنکھ منظر دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ سب کس طرح بن گیا، اور  اِتنے سال گزرنے کے باوجود اُسی طرح قائم ہے، شاہی قلعے کے نیچے بھی بہت کچھ خفیہ بنایا گیا تھا، لیکن آج وہ سیاحوں کے لئے بند ہے.
شاہی قلعے سے باہر نکلیں تو واپسی کے راستے پر سکھوں کا گردوارہ ہے، اندر جانے دیتے ہیں یا نہیں اِسی کشمش میں 'میں' نے باہر سے دیکھنے کی زحمت گوارا کی اور گریٹر اقبال پارک کی جانب چل پڑا، سفر تاویل کا شکار اِس لئے بھی ہو رہا ہے کہ کچھ پرانی یادیں بھی تازہ کرنے کی کوشش میں ہوں، جو پہلے بیان نہیں کر سکا، جیسا کہ اقبال پارک میں 'میں' نے حفیظ جالندھری کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور مجھے احساس ہوا کہ کم از کم یہ ہمارے اپنے ہیں اور یہاں صحرا جیسی ویرانی ہے، دور دور تک کوئی انسان موجود نہیں ہے، مجھے تھوڑی دیر کے لئے لگا کہ اگر میں یہاں حفیظ جالندھری کی قبر کے سامنے بھی کسی سے قبر کا پوچھا گا تو وہ جواب دے گا کون حفیظ جالندھری؟ رنجیت سنگھ کے مجسمے لگا کر اور شانِ پنجاب کا لقب دے کر ہم اُسے تو اپنا بنا رہے ہیں، اور اپنوں کو ہم نے دور ویرانوں میں رکھا ہوا ہے، خیر یہ کہانیاں بہت درد ناک ہیں۔

(جاری ہے)


مینار پاکستان کی طرف نظر دوڑائی جس کو دیکھنے سب جاتے ہیں، دکھنے میں ایک سادہ سا مینار جس کی تاریخ سے شاید دیکھنے والے واقف نہ ہوں، جس پارک میں لوگ الٹے سیدھے لیٹے ہوئے ہیں وہ اُس پارک کی اہمیت سے بھی شاید ناواقف ہوں، یہ جگہ تاریخ سے زیادہ تفریح کا ایک ذریعہ بن گئی ہے، آب جو کچھ بھی وہاں ہو رہا ہے، تاریخ اُس پر روتی ہو گی، جو ویسے بھی رو رہی ہے، میں نے مینار کی آنکھوں میں دیکھا وہ ہماری موجودہ بےبسی کو دیکھ رہا تھا، وہ "ایمان ، اتحاد اور تنظیم" تین لفظوں کے ساتھ ہمارے سلوک پر آنسو بہا رہا تھا، دل ہی دل میں وہ کہ رہا آب "یادگار" کہنا شروع کر دیں کیونکہ زندہ و جاوید والی حقیقت آب سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، ہماری کمزوریوں کی جانچ پڑتال میں مصروف تھا ، طاقت کہاں چلی گئی یا شروع سے تھی ہی نہیں؟، سوال آج بھی سب کے ذہنوں میں 23 مارچ کو بھی اٹھتا ہے اور 14 اگست کو بھی کہ آخر ہم بنے کیوں؟ مقصد کیا تھا، ہم کون سی ریاست ہیں، اور کونسی بنانا چاہتے تھے، دو قومی نظریہ تو دو ٹوک انداز میں ہم نے پیش کیا، یہی اِسی جگہ پر جہاں میں کھڑا ہوں، لیکن اپنی قوم کی سمجھ ابھی تک نہیں آئی، کہ ہم کیا ہیں؟
سوال زبان پر آتے آتے رہ گئے کہ پوچھو کس سے سب اپنے اپنے نظریات کے غلام ہیں، مینار پاکستان کے بلکل سامنے علی بن عثمان ہجویری کا مزار ہے،
غروب ہوتے سورج کی کرنیں مینار پاکستان پر پڑ رہی تھی، سورج کے سائے میں مینار اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا، داتا گنج بخش نے بھی اِس دھرتی میں دینِ اسلام کا سورج طلوع کیا، لاکھوں لوگوں نے اسلام کا زیور پہنا، اُن کے جانے کے بعد ہم نے اُن کے بتائے ہوئے راستے سے کنارہ کشی اختیار کر کے اُن کے مزار کے پر متنازعہ کام شروع کر دیئے، لوگوں کو اُن کی تعلیمات کا علم کم اور لنگر کس وقت ملتا ہے اِس بات کا علم زیادہ ہے.


جہاں میں اِس وقت کھڑا ہوں، اِسے اندرونِ لاہور کہا جاتا ہے، جس کی تنگ گلیوں کے بارے میں تاڑر صاحب نے کہا تھا کہ اگر ایک ہی وقت میں مرد اور عورت گزر رہے ہوں تو درمیان میں سے نکلنے کے لئے "نکاح" کے علاوہ اور کوئی گنجائش نہیں رہتی، اندرونِ لاہور اصل لاہور ہے، جو مغلوں کے دور تک قائم رہا، مغلوں نے شہر کے ارد گرد ایک فصیل بنوائی، اُس کے تیرہ دروازے تھے، جن میں سے پیشتر تو آب موجود نہیں ہیں اور جو چند ایک بچ گئے ہیں وہ تجاوزات کی زد میں آ کر لوگوں کی توجہ سے دور ہیں، یہ دروازے شام کے بعد بند کر دیئے جاتے تھے، اور شام ہو چکی تھی، دروازوں کے بند ہونے کا وقت ہو چکا تھا، سفر جو ابھی ختم نہیں ہوا، بلکہ سفر بھی کبھی ختم ہوا ہے، مسافر کی عارضی منزل آ جاتی ہے، اصل سفر تو جاری رہتا ہے، وہ جس دن ختم ہو گا، ایک اور نیا سفر شروع ہو جائے گا، انسان تو ہمیشہ سے مسافر ہی ہے، اور آگے بھی مسافر رہے گا، رات کی روشنی میں اندرون لاہور کے خوبصورت مناظر کو میں آنکھ بھر کے دیکھتا رہا، سردی کی شدت زیادہ ہو رہی تھی، اور میں واپس رہائش گاہ چل پڑا.


ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻧﮯ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﻮ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺁﻡ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ۔ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﻧﮯ ﺷﮑﺮﯾﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﻟﮑﮫ ﺑﮭﯿﺠﺎ
ﺍﺛﺮ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﻣﺴﯿﺤﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﮐﺒﺮؔ
ﺍﻟﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﭼﻼ ﻻﮨﻮﺭ ﺗﮏ ﺁﯾﺎ..
ویسے آموں کا یہ موسم تو نہیں لیکن میں بھی آم سے کم نہیں جو سرگودھا سے چلا اور لاہور تک آ گیا، لیکن یہ واضح رہے کہ آم کے نام سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے. (جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :