وائرس یا وائرلیس‎

پیر 21 دسمبر 2020

Hassaan Ali

حسان علی

بچپن میں جب کمپیوٹر چلاتے تھے تو اکثر کمپیوٹر میں وائرس آ جاتا تھا، جس کو ختم کرنے کے لئے ماسک نہیں اینٹی وائرس کا استعمال کیا جاتا تھا،
کمپیوٹر وائرس بھی انسان کا بنایا ہوا ہے، اور اینٹی وائرس بھی اُسی انسان نے بنایا ہے، دونوں کو بنانے کے پیچھے مختلف وجوہات ہیں، ہم عام لوگ اِس کمپیوٹر کی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا کی طرف آتے ہیں، جو آج کل خود ایک وائرس کا شکار ہے، بجائے اینٹی وائرس استعمال کرنے کے ہم ماسک اور صابن کا استعمال کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کمپیوٹر پلازے بند ہیں نہیں تو آب تک کوئی نہ کوئی اینٹی وائرس کی سی ڈی مارکیٹ میں ہی آ جانی تھی.
"گھر پر رہیں محفوظ رہیں" یہ بات ہمارے ساقی صاحب کی سمجھ میں نہیں آتی وہ کہتے ہیں پہلے محفوظ رہنے کے لئے شادی شدہ لوگوں کو گھر سے باہر رہنے کا مشورہ دیا جاتا تھا، اور آب گھروں میں رہنے کا مشورہ دے کر یہ اشرافیہ ہمیں وائرس سے نہیں وائرلیس بیوی سے مروا دے گی، لیکن مجال ہے جو کوئی شادی شدہ طبقے کی سنے، ساقی صاحب کہتے ہیں لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ ہم شادی شدہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، ایک تو روز صبح، دوپہر شام بیوی کا رُخِ انور دیکھنا پڑتا ہے، جو خود کسی وائرس سے کم نہیں، دوسرا بچوں کے ساتھ سارا دن گزارنا، پاکستان کا وزیر اطلاعات بننے سے زیادہ مشکل کام ہے، ساقی صاحب کا ماننا ہے کہ اگر یہ قدرتی وبا ہے، تو اِسے موسمی وبا ہونا چاہئے تھا اور موسم کے حساب سے تبدیل ہونا چاہئے تھا، یا ختم ہونے کی طرف جانا چاہئے تھا، ساقی صاحب کہتے ہیں کہ یہ "ورلڈ ہیلتھ احتیاطی مرکز" نے کہا تھا کہ گرمیوں میں یہ وائرس ختم ہو جائے گا، آب بھلا یہ سردی تو نہیں ہے جو گرمیوں میں ختم ہو جائے گی، وبا کو عام روزمرہ کی بیماری بنانے کا کھیل شروع کیا جا رہا ہے، "ورلڈ ہیلتھ احتیاطی مرکز" نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں اِس وبا کو "سر درد، بخار، اور بیوی" کی طرح زندگی کا حصہ بنا لینا چاہئے، کیونکہ یہ ختم نہیں ہو گی، وبا عام بیماری  نہیں بن سکتی، یہ وبا کی تعریف کے خلاف ہے، دوسری بات جو ساقی صاحب کو سب سے زیادہ پریشان کر رہی ہے کہ یہ کون سی اتنی بڑی بیماری آ گئی ہے، جس پر ہر دوسرے روز بل گیٹس وزیراعظم عمران خان کو فون کرتے ہیں، اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں، کہ جو تعداد مرنے والوں کی ہم سوچ کر بیٹھے تھے، پاکستان میں ابھی اٌتنے لوگ نہیں مرے، مجھے لگتا ہے کہ کہیں یہ بل گیٹ ہمارے گورکن مافیا کا سرغنہ تو نہیں ہے، جو لوگوں کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے، اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں اموات فلحال دو ہزار ہیں اور امریکہ میں لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، بجائے بل گیٹس صدر ڈونل ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی بنائے، وہ ہمارے وزیراعظم کو فون کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ اِس وبا کا بہترین علاج لاک ڈاؤن ہے، آگے سے شکر ہے وزیر اعظم نے یہ نہیں کہا کہ مافیا نے لاک ڈاؤن لگایا ہوا ہے، ورنہ میں تو غریب ڈاؤن کی پالیسی پر عمل کرنے والا تھا، جس سے اِس ملک سے غریب ختم کرنا پلین تھا، اِس سے غربت خود بخود ختم ہو جاتی اور پاکستان غربت کے ساتھ ساتھ غریب ختم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن جاتا اور امداد کی ایک قسط انعام میں مل جاتی، جس سے پچھلے انعامات کا سود ادا کیا جاتا.
ساقی صاحب کی گفتگو کو لاک لگا کر میں نے سوال ڈاؤن کر دیا کہ یہ عمران خان کہیں یہودی یا امریکی سازش کا حصہ تو نہیں، ساقی صاحب نے سوال سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے کہا کہ صرف عمران خان نہیں پوری دنیا بِک چکی ہے، یہ اپنے لڈن جعفری کو ہی دیکھ لو وہ تو بہت پہلے ہی کہ چکا تھا کہ "یہ تو ہو گا"، یہاں "ہو" کے آگے پراپگنڈہ نے ماسک لگایا ہوا تھا، اِس لئے پوشیدہ امراض کی طرح نظر نہیں آ رہا، میں نے ہوش کے ناخن صابن سے بیس سیکنڈ تک دھونے کے بعد منہ میں ڈالے، پھر ایک اور سوال پوچھا کہ یہ کہیں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے چھ فٹ دور کرنا اُن کے ناپاک عزائم میں شامل تو نہیں ہے، ساقی صاحب نے جواب میں کچھ دیر خاموشی اختیار کی اور کہا کہ یہی تو المیہ ہے، ہمیں ایک دوسرے سے دور کر کے یہ لوگ کورونا وائرس کی ویکسین بنانا چاہتے ہیں، انہیں شک ہے کہ اگر ہم مسلمان ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو آگ بھڑک اٹھے گی، اور کہیں اُس آگ میں ویکسین کا حال "کرنل کی بیوی" جیسا نہ ہو جائے، ویسے بھی ویکسین میں وہ چپاتیاں ڈال رہے ہیں جس سے انسان کا معدہ کنٹرول ہو گا، آج ایک آدمی کسی "بار بار (چینی، آٹا) چور" (BBC) چینل پر انگریزی میں بتا رہا تھا کہ عوام  "سرف، ادھار اور پنشن"(sop) کو ہوا میں اُڑا رہی ہے،
میں نے سوال پوچھا آپ ابھی بیوی کے ساتھ کہیں باہر گئے تھے یہ منہ پر زخم کیسا ہے، کہنے لگے راستے میں پولیس والے نے روکا اور کہا کہ سماجی فاصلہ کیوں نہیں رکھا ہوا، تو میں نے آگے سے کہ دیا کے صرف "دلاں دے فاصلے" کافی نئ ؟، پھر کیا ساقی کی بیوی کو لگ سمجھ گئی اور اُس نے مجھ نائب صوبیدار سمجھ کر وہیں "وبا کے دنوں میں گھسُن" مارا کہ ناک کا کورونا ٹیڑھا ہو گیا، میں نے موضوع کو جراثیم سے پاک کرنے کے لئے ٹیٹول سے دھو کر خشک سوال کیا کہ ساقی صاحب یہ کروشیا ملک کہیں کورونا کی بیوی تو نہیں ہے، ساقی صاحب بولے بیوی ہوتی تو کورونا کا وائرس یعنی کہ ناک میری طرح سلامت نہ ہوتا، اُس کے معدے میں آب تک دس ویکسین لگ چکی ہوتیں، کیونکہ کروشیا کی ٹانگیں بہت لمبی ہیں وہ سیدھا اُس کے معدے میں لگنی تھیں، یہ اُس کی چچیری بہن ہے، جو رومانیہ کی بیٹی ہے، میں نے موقع غنیمت جان کر سوال کیا کہ کورونا کے ماں اور باپ کون تھے، ساقی نے بتایا کہ کورونا کا والد مرونا تھا، کورونا کی ماں کا نام کرمانیہ تھا، کورونا کے ماں باپ اُس کی شادی کروشیا سے کرنا چاہتے تھے لیکن کورونا نے ماں باپ کی بات نہیں مانی، میں نے پوچھا یہ کورونا شادی کیوں نہیں کرنا چاہتا؟، کہیں یہ کورونا واقعی کمزوری کا شکار تو نہیں ہے، کیونکہ صابن کے استعمال سے یہ ختم ہو جاتا ہے، تو ساقی صاحب نے کہا یہ تو ریحام خان کی کتاب سے پتا چلے گا، ویسے کورونا شادی اِس لئے نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ اگر اُس نے بھی شادی کر لی تو اُسے بھی اپنے وائرس ہونے کا پتہ اپنی بیوی سے چلے گا، کورونا کا شجرہ نصب سننے کے بعد میں نے کہا یہ کورونا ختم کیسے ہو گا، تو کہنے لگے اِس کی شادی ریحام خان سے کروا دو خود بخود ختم ہو جائے گا، یا پھر لال حویلی کی چھت پر اِس کا علاج کیا جائے، اگر پھر بھی ختم نہ ہو تو چاند دیکھنے والی رویت ہلال کمیٹی کی دوربین سے وائرس کو پہلے اچھی طرح دیکھا جائے پھر رویت ہلال کمیٹی جو فیصلہ کرے اُس پر عمل کیا جائے، وائرس کیا وہ تو اینٹی وائرس بھی آپ کو بنا کر دے دیں گے، میں نے کہا ساقی صاحب آپ علماء کرام کی توہین کر رہے ہیں، تو ساقی صاحب بولے توہین تو آپ کر رہے ہیں، جب علماء کہ رہے ہیں کہ زمین ساکن ہوتی ہے تو اُن سے زیادہ سائنس کوئی جانتا ہے؟، میں نے کہا نہیں ایسا تو نہیں ہو سکتا، تو ساقی صاحب بولے کہ پھر اُن سے کام لیا جائے، وہ ویکسین بنانے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں،
ملاقات کا وقت ختم ہوا، تو میں الٹے قدم واپس گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں "نیا اضافہ " جو ہمارے محلے کے تحصیل ناظم ہیں، وہ سینیٹائزر کی مخصوص بوتل سے اپنے دروازے کو تیل دے رہے تھے، میں نے پوچھا تحصیل ناظم صاحب یہ بوتل ہاتھوں کو وائرس سے صاف کرنے کے لئے ہے نہ کے تیل ڈالنے کے لئے دروازے میں، کہنے لگے اِس کے اندر جو پانی والا صابن ہوتا ہے وہ ختم ہو گیا تھا میں نے سوچا بوتل ضائع نہ ہو، ویسے بھی دروازہ کافی دنوں سے چوں چاں کر رہا تھا میں نے سوچا کہ چلو اسے  تیل دے کر تھوڑا سا چپ کرا دوں،
اگر ایسے حالات رہے تو وائرس نہیں ہم ختم ہو جائیں گی، یہ الفاظ میرے نہیں تحصیل ناظم کے تھے جو سینیٹائزر کی بوتل میں تیل ڈال کر دروازے کی چوں چاں ختم کر رہے تھے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :