توجہ طلب اثاثہ‎

ہفتہ 26 دسمبر 2020

Hassaan Ali

حسان علی

آج کل ہر طرف اثاثوں کی بات چل ہی نکلی ہے تو میں بھی اپنے ایک اثاثے کے بارے میں قلم آزمائی کرنا چاہتا ہوں، یہ وہ اثاثہ ہے جسے میں نے کبھی ظاہر نہیں کیا، ہمیشہ دنیا سے چھپا کر رکھا کہ کہیں کسی کو معلوم نہ ہو جائے کہ میں کتنا امیر ہوں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ میری آمدن کم اور اوپر سے یہ اثاثہ آمدنی سے تجاوز کر رہا ہوں، کہیں میرے اوپر کی کیس نہ بن جائے، اثاثہ تو میرا اپنا ہے لیکن استعمال کوئی اور کر رہا ہے، بجائے سارا منافع میں خود کماؤں، کوئی اور مجھ سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے،
ایسا صرف میرے اِس اثاثے کے ساتھ نہیں ہو رہا، جس کی میں بات کرنے والا ہوں، ایسا تو میرے ہر اثاثے کے ساتھ ہو رہا ہے، میری زمین اور میری ملکیت میں ہونے کے باوجود وہ میرے اپنے استعمال نہیں، ٹھیکے دار کوئی پرایا مالک ہے، یہ سب کچھ میں جان بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں، گونگی، بہری قوم کی طرح چپ چاپ بیٹھا دیکھ رہا ہوں، میں کچھ نہیں کر سکتا، جن کو میرے بورڈ آف گورنس(لوگوں ) نے اختیار دیئے ہیں، وہی اِن قیمتی اثاثوں کو نقصان پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں، یہاں میں کیا کر سکتا ہوں؟ ، میری حیثیت تو ایک آنکھوں والے بےجان انسان کی سی ہے، جو سب کچھ دیکھ تو رہا، اندر ہی اندر آگ بگولہ ہو رہا ہے، لیکن کچھ کر نہیں سکتا، میرا یہ اثاثہ "کھیوڑہ نمک کی کان" ہے.
یہ روداد ہے میرے ملک "پاکستان" کی ہے جس کی سنتا ہی کون ہے، پچھلے سال مجھے کھیوڑہ نمک کی کان جانے کا اتفاق ہوا، ہمارا اثاثہ ہونے کے باوجود ہم سے بھاری فیس لی گئی، حالانکہ یہ کام بیس سے تیس روپے میں بھی مکمل ہو سکتا ہے، خیر " اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندراعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کےگھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے، ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا، یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی، اس کےبعد یہ کان یہاں کے مقامی راجا نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی"۔

(جاری ہے)

کان کے اندر مسافر طرز کی نسبتاً ایک چھوٹی ٹرین سے داخل ہوئے، اندر کم اجرت اور جان پر کھیل کر مزدوروں نے ایک نئی دنیا آباد کی ہوئی تھی،
یہ کان زیر زمین 110 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے، اس میں 19 منزلیں بنائی گئی ہیں، جن میں سے 11منزلیں زیر زمین ہیں، نمک نکالتے وقت صرف 50 فیصد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ باقی 50 فی صد بطور
ستون اور دیوار کان میں باقی رکھا جاتا ہے، کان دھانے سے 750 میٹر دور تک پہاڑ میں چلی گئی ہےاور اس کے تمام حصوں کی مجموعی لمبائی 40
کیلومیٹر ہے، اس کان میں سے سالانہ 325000 ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے
اِس دنیا میں مختلف عمارتیں بنائی گئی تھی، جس کو لوگ بڑے تجسس بھرے انداز میں دیکھ رہے تھے، میری نظر کام کرنے والے مزدوروں پر بھی پڑی، اُن کی حالت زار سے تو یہی لگ رہا تھا کہ ہم ابھی بھی شاید انہیں مہینے کی کم سے کم آمدن گیارہ ہزار ہی دیتے ہیں، اور جو پیسے ہم سے فیس کے طور پر لئے گئے تھے شاید ہو کہیں اور ہی جا رہے ہیں۔


پی ایم ڈی سی (پا کستان منرل ڈیویلمنٹ کارپوریشن) کے مطابق کان کا بھارت کو نمک کی سپلائی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے، بھارت کو پاکستانی نمک پرائیویٹ سیکٹر فراہم کرتا ہے، ہم نہیں بھارت پرائیویٹ سیکٹر سے 4.80ps فی کلو لے کر 80روپے فی کلو فروخت کرتا ہے اور بیرون ملک پاکستانی نمک اپنا لیبل لگا کر ڈالروں کی صورت میں زرمبادلہ کماتا ہے، مصدقہ ذرائع کے مطابق بھارت پنجاب امرت سر میں پاکستانی نمک کی بہت بڑی منڈی جس میں ہزراوں دکانیں ہیں جو کے درجنوں یورپ ممالک کو پاکستانی نمک پر اپنا لیبل لگا کر پوری دنیا میں بھاری داموں فروخت کر رہے ہیں۔


دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، کہ اتنا باکمال کرشمہ ہونے کے باوجود ہم اِس ملکی اثاثے کو استعمال نہیں کر رہے، کوڑیوں کے بھاؤ بھارت ہم سے ڈالرز کا نمک لے کر دنیا میں فروخت کر رہا ہے اور ہم لوگوں کو ملک کے اثاثے بتا بتا فخر کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، جو اثاثے ہمارے استعمال میں نہیں اُن پر فخر کس بات کا، جو اثاثے ملک کو مالی فائدہ دینے کی بجائے قرضے بڑھا رہے ہوں، ایسے اثاثے کی تعریفیں کون کرے گا، یہ تحقیق اور نمبرز PMDC کے ہیں، میرے خیال میں تو ہم اپنے ہی اثاثے سے نقصان اٹھا رہے ہیں، بھارت ہمارا نمک اپنے لیبل سے دنیا کی منڈی میں فروخت کر رہا ہے، اور ہم تقریباً چار روپے فی کلو کے حساب سے انڈیا کو فروخت کر رہے ہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم نمک کو را میٹیریل کے طور فروخت کرنے کی بجائے، اُس کو برینڈ بنا کر دنیا میں کھیوڑہ کی پہچان کرائیں۔


یہ اثاثہ اور ایسے بہت سے اثاثے حکومت بالا کی توجہ کے منتظر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :