راوی اداسی بہا رہا ہے ۔ قسط نمبر 2

جمعہ 1 جنوری 2021

Hassaan Ali

حسان علی

"گزشتہ سے پیوستہ " اقبال پر پچھلی تحریر کو ختم کیا تھ اور آج یہ اُسی سلسلے کی دوسری کڑی کو میں اقبال سے شروع کرتا ہوں، اقبال کے مزار پر حاضری کا شرف نصیب ہوا، دیکھنے میں وہ وقت کا غوث تھا، اسلام اقبال کی شاعری کا موضوع تھا، اور مسلمان اُس میں قافیہ اور ردیف کی حیثیت سے اپنا مقام رکھتے تھے، اقبال ایک عہد کا نام ہے، اور آج کل کے لوگ مزار کے اندر تصاویر بنا رہے ہیں، سنجیدگی اِس قوم کی ڈکشنری میں ہی موجود نہیں ہے، اور ہم سیکھنے چلے خودی اور فلسفے کو، قلندرِ لاہوری کے مزار پر بھی لوگوں کی تعداد اُس محفل جتنی تھی جہاں پر لنگر نہیں ملتا، ہم نے درباروں سے صرف لنگر کھانا ہی تو سیکھا ہے، اِس لئے اقبال کا مزار سنسان پڑا شاہین کی الٹی پرواز کو دیکھ رہا ہے، آگے بڑھنے کی بجائے ہم واپسی کا سفر طے کر رہے ہیں، اقبال کی روح شاہین میں ہے لیکن شاہین کی روح آج صنفِ نازک میں پرواز کرتی ہے.
اندرونِ لاہور ہی اصل لاہور کی خوبصورتی ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں کافی حسین چہرے بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، جو کہ خالص لاہوری ہوتے ہیں، آب میں آہستہ آہستہ شاہین عروح کی پرواز کر رہا ہوں، یہی خوبصورتی دیکھتے دیکھتے میں نے پچھلے کالم میں اندرونِ لاہور کی گلیوں سے تاڑر صاحب کو گزار دیا، حالانکہ اندرونِ لاہور کی گلیوں کے بارے میں جو جملے میں نے لکھے تھے، وہ تاڑر صاحب کے بلکل بھی نہیں تھے، وہ جملے تو مشتاق احمد یوسفی کے شرارتی قلم سے نکلے ہوئے تھے، اور ویسے بھی تاڑر صاحب سیاح ہیں، گلیوں میں آوارہ گردی تو یوسفی صاحب کا کام ہے، اصلاح کے لئے خالد فاروق کا شکریہ جن کا دماغ یوسفی صاحب کی یاد میں ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، یوسفی صاحب کی یہ گلیاں تو اپنی جگہ  قائم ہیں لیکن مغلوں کی بنائی گئی فصیل انگریز نے توڑ دی تھی، اور شہر میں نئی آباد کاریاں شروع کر دیں تھیں، اُس کے بعد کا لاہور کیسا تھا، نیا جغرافیہ پطرس بخاری  نے کچھ یوں کھینچا ہے،
" کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبہ کی سہولت کے لئے میونسپلٹی نے اُس کو منسوخ کر دیا، آب لاہور کے چارو طرف بھی لاہور واقع ہے، اور روزبروز واقع تر ہو رہا ہے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہو گا، جس کا دارالخلافہ پنجاب ہو گا، یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم (سوجن کی بیماری) نمودار ہو رہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہوا ہے، گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے، جو اِس کے جسم کو لاحق ہے، "
پطرس بخاری نے بڑی خوبصورتی سے مجھے اپنے کمزور الفاظ کو استعمال کرنے سے دور رکھا تاکہ کم از کم قارئین کو کچھ تو سکون ملے، میری اگلی منزل شالیمار باغ تھی، جسے ملکہ نور جہاں نے بنوایا تھا، اتنا بڑا باغ کہ ہم سوچ نہیں سکتے، اِس قدر نفاست سے پھول، درخت اور فوارے لگائے گئے تھے، کہ مجھے لگا کہ باغبانی کے طالب علموں کو ایک دفعہ یہاں ضرور لانا چاہیے، تاکہ وہ زاتی مشاغل کے باغات کو عبرت کی نظر دیکھ سکیں، مجھے تو اپنے سرگودھے کا کمپنی باغ یاد آ گیا، جہاں آوارہ کتوں نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی ہے، اور کریڈٹ بھی نہیں لیتے، میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہزاروں سال پہلے کس طرح نرم و نازک ملکہ نور جہاں شاہی محل سے شاہی سواری پر یہاں صرف تفریح کے لئے آتی ہوں گی، آب تو تفریح کے لئے ہیرا منڈی جیسی مشہور جگہیں لاہور شہر میں موجود ہیں، خیر شاہی سواری پر وہ سارا باغ گھومتی ہوں گی، اور جب فوارے چلتے ہوں گے تو ایک سما سا بن جاتا ہو گا، اور ساتھ ذوق کے مطابق قوال بھی ہوتے ہوں گے، جو اُس پرستان کے دیس میں ملکہ کے لئے سُروں کی دھنیں بکھیرتے ہوں گے، بہرحال جو بھی تھا وہ ہمارے لئے ایک تاریخی ورثہ بوجھ کی شکل میں چھوڑ گئیں.
آپ کہیں گے ہیرا منڈی پر اتنی خاموشی جتنی مہنگائی پر حکومت کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، ہیرا منڈی کے بارے مشہور ہے کہ یہ سکھ دورِ  حکومت کے ہندو وزیر اعظم ڈوگرہ دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی تھی، اِس کے نام کی نسبت سے یہ حصہ ہیرا منڈی کہلاتا ہے، انگریز نے اپنے فوجیوں کی تفریح کے لئے پرانی انارکلی میں کوٹہے تعمیر کروائے، جو بعد میں لاہوری دروازے پر منتقل ہوئے، اِس کے بعد ٹکسالی دروازے پر انہیں منتقل کیا گیا اور آخر یہ کوٹہے موجودہ ہیرا منڈی منتقل کر دیئے گئے اِس لئے آپ کہ سکتے ہیں کہ بہت ساری فضولیات کے ساتھ ساتھ یہ بےغیرتی بھی انگریزوں کی دی ہوئی ہے.
اِس کے بعد  میں قبضہ مافیا کے ٹاؤن کی طرف چل پڑا، جن کے کیس سپریم کورٹ میں پڑے ہیں، اور وہ عربوں کے جرمانے دے رہے ہیں، یہ عرب پیسے والی اصطلاح ہے کہیں آپ سعود والے عرب نہ سمجھ لیجیے گا، ٹاؤن کی گرینڈ جامع مسجد موجودہ دور کی عظیم فن تعمیر ہے، جو کسی عجوبے سے کم نہیں، اتفاق سے مجھے وہاں ظہر کی نماز ادا کرنے کا موقع ملا، یقیناً یہ مسجد بھی اپنی مثال آپ ہے، ٹاؤن کامیابی کی بلندیوں کو چھو کر اوپر جا رہا تھا، باقی آپ سب بخوبی اِس بات سے واقف ہیں کہ لاہور کا قبضہ گروپ کون ہے اور وہ کس طرح کام کرتا ہے.
"لہور لہور ہے" یہ کہاوت جو واقعی کسی حد تک سچ بھی ہے کہ لاہور آب اتنا پھیل چکا ہے، کہ اِسے مکمل گھومنے اور دیکھنے کے لئے مجھے کافی وقت اور سرمایہ کی ضرورت تھی، جن کی ملک میں ویسے بھی بہت کمی ہے، اِس لئے میں اپنے آخری مقام کی طرف چل پڑا بلکہ ٹھہریں آپ کو لاہور کا ائفل ٹاور بھی دکھاتا چلوں، ہم نقل میں ماہر ہیں، اور خوش قسمتی سے اچھی نقل کر لیتے ہیں، پیرس دیکھنے کے لئے مستنصر حسین تارڑ صاحب نے کوسوں میل کا سفر کیا، اور " پیار کا پہلا شہر" میں ائفل ٹاور کے نیچے پاسکل سے ملاقات کرنے کافی دیر سے پہنچے اور وہ شاید اُس وقت تک جا چکی تھی، مجھے لگتا کہ ستر کی دہائی میں تاڑر صاحب نے وہاں جا کر اپنا وقت ضائع کیا، آج وہی ائفل ٹاور لاہور میں موجود ہے.
راوی کی طرف میں گامزن تھا، یہ دریا کبھی شہر کے درمیان میں بہتا تھا، شاہی قلعہ اِس کے کنارے موجود تھا، یہ شہر آباد ہی اِس راوی کے کنارے ہوا تھا، لیکن اچانک راوی لاہور سے ناراض ہوا اور اپنا رُخ موڑ لیا، شہر کو تو  جیسے اُداسی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو، میں دل ہی دل میں دریائے سین کے خواب سجائے، آَس کی تصویری جھلکیاں ذہن میں چلائے راوی کی طرف جا رہا تھا.
جس کا نقشہ تاڑر صاحب نے پیرس کی سیر کے دوران "پیار کا پہلے شہر" میں کھینچا تھا، پیرس کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا یہ  دریائے سین خوشیاں بہا رہا تھا، اُس کے پانی میں خوشبو بہتی تھی، کنارے پر لوگ بلکہ لوگ نہیں جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ لئے افسانوی باتیں کرتے تھے جو نہ ختم ہونے والی ہوتی ہیں، اور دریا پوری آب و تاب سے بہ رہا تھا، میرے ذہن میں تاڑر صاحب کی کہانیاں تھیں اور میں یہ کہانیاں سچ کرنے راوی میں وہی سب دیکھنے جا رہا تھا.
راوی کنارے پہنچا تو حیران و پریشان کچھ دیر کے لئے تو خود کو ملامت کرتا رہا کہ یہ راوی نہیں ہو سکتا، یہ تو ویسا بھی نہیں ہے جیسا کہ دریا ہوتے ہیں، ویران بے یارو مددگار پانی دو بوند کے برابر بھی نہیں تھا، کہیں نہ کہیں نالیوں کی صورت میں پانی کھڑا تھا، خانہ بدوش دریا کے اندرونی حصے میں ڈیرے لگائے بیٹھے تھے، میری ذہنی ملامت نے پطرس بخاری سے پوچھا کہ یہ واقعی راوی ہے؟، پطرس نے کہا کہ یہ راوی ضعیف ہے،اور دریا کو ملنے کا پتا کچھ یوں بتایا، کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہوئے ہیں، اِن کے نیچے دریا ریت میں لیٹا رہتا ہے، بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اِس لئے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے بائیں کنارے پر واقع ہے یا دائیں کنارے پر، ذہنی ملامت نے حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا، خیر پطرس صاحب کچھ زیادہ ہی ناراض لگتے ہیں، بلکہ آب تو میں بھی ناراض ہوں، خاص طور پر راوی کی حالتِ زار دیکھ کر تو دل کرتا ہے، کہ سندھ طاس معاہدے کرنے والوں کو بھی الٹا لٹکایا جائے اِنہیں دو پلوں کے نیچے جن میں سے ایک پر  میں کھڑا دریا میں بنے سوکھی ریت کے ٹیلے دیکھ رہا تھا، اور دوسرا پل بلکل میری آنکھوں کے سامنے تھا.
سوچ رہا تھا یہ دریا بھی تو کسی زمانے میں بہتا ہو گا، اور پانی کناروں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتا ہو گا، کشتی رانی بھی ہوتی تھی، آب تو خانہ بدوش بچے کاغذ کی کشتیاں بنا کر دریا میں بنی نالیوں میں چھوڑ کر یقیناً بچپن کو انجوائے کرتے ہوں گے، راوی کئی تاریخی جنگوں کا عینی شاہد بھی رہا ہے، اِس نے خون کے چھینٹے اپنے اندر ضم کئے ہیں، یہ لاہور کی بنیاد کی وجہ ہے، راوی لاہور ہے اور لاہور راوی، یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، یہ الگ نہیں ہو سکتے، لیکن زمینی حقائق اور ماضی کے معاہدے تو الگ کر چکے ہیں، اِس لئے تو آج راوی پانی کی بجائے اداسی بہا رہا ہے، لاہور بھی تو اداسی میں ڈوبا ہوا ہے، چہرے سے معلوم نہیں پڑتا کہ وہ پریشان کیوں ہے، شہر میں گہماگہمی، شور، کچرا، نئی آبادیاں یہ سب کچھ خوبصورت تاریخ کو منجمد کرنے پر تلے ہیں، ایک طرف راوی ہے اور دوسری طرف لاہور دونوں ایک ہی جیسے معلوم ہوتے ہیں، نہ آب لاہور میں وہ زندہ دلی رہی اور نہ ہی راوی میں بہتا ہوا پانی رہا، پطرس بخاری کے نزدیک یہ نئی آبادیوں کا بننا، لاہور کے ارد گرد بھی لاہور بنا دینا یہ بیماری ہے، جو جسم کو کھا جائے گی، بلکہ کھا چکی ہے، اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے توجہ نہ دی تو لاہور ختم ہو جائے گا اور راوی اِسی طرح اداسی بہاتا رہے گا، تھوڑی بہت امید جو رہ گئ ہے وہ بھی اقبال کی دی ہوئی ہے.
پیوستہ رہ، شجر سے امیدِ بہار رکھ�

(جاری ہے)

۔...

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :