پاکستان کو درپیش ماحولیاتی مسائل

بدھ 2 جون 2021

Hassan Raza

حسن رضا

ماحولیاتی مسائل نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس کی وجہ ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ دور حاضر میں ماحولیاتی مسائل کے بارے میں آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ ماحولیاتی مسائل میں زمینی آلودگی فضائی آلودگی، آبی آلودگی، شور کی آلودگی، گلوبل وارمنگ، قدرتی آفات، گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ شامل ہیں۔

پاکستان اس وقت شدید ماحولیاتی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے دن بہ دن گرمی کی شدت میں اضافہ اور اس جیسی مزید خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ کچھ خرابیاں معمولی نوعیت کی ہیں تو کچھ نظام میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ ماحولیاتی مسائل میں ماحولیاتی آلودگی نمایاں مسئلہ ہے۔ اگر آلودگی کو اس وقت روک بھی لیا جائے تو ہوا، پانی اور مٹی میں موجود آلودگی کو ختم کرنے میں سینکڑوں سال لگیں گے۔

(جاری ہے)

آلودگی کی وجہ سے جانداروں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں اور انکی مختلف انواع کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے انسان ، حیوانات، پرندے ، کیڑے مکوڑے ،سمندری جاندار اور درختوں سمیت کائنات کے ہر جاندار کو خطرہ لاحق ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کسی بھی قسم کی ہو انسانی و حیوانی زندگی پر اسکے مضر اثرات ہیں۔ ماحول کو سب سے بڑا خطرہ انسانوں سے ہی ہے۔

ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس کو خراب کرنے کے زمہ دار بھی خود ہیں۔
 آبادی میں اضافہ کی وجہ سے زرعی زمین میں کمی واقع ہورہی ہے جسکی وجہ سے جنگلات کی کٹائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہرسال اٹھارہ ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔ جنگلات میں کٹائی اور درختوں میں کمی ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔

درختوں کا اہم کام کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرنا ہے۔ جنگلات کے کٹاؤ کے سبب زمین کے گرد موجود حفاظتی تہہ (اوزون) میں شگاف پڑ گیا ہے۔ اگر جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ کو نہ روکا گیا تو دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی. عالمی تحقیقاتی اداروں کے مطابق کسی بھی خطے کے کل رقبے کے پچیس فیصد رقبے پر جنگلات مشتمل ہونا لازم ہیں۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 3.3 فیصد رقبے پر جنگلات تھے جو کم ہوکر 1.8 فیصد رہ گئے ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود جنگلات کی اتنی کم شرح ہمارے لیے باعث تعجب ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ تعداد دن بہ دن کم ہورہی ہے۔
آبادی میں اضافہ بھی بہت سے ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق دنیا کی آبادی ساڑے سات ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

جس سے قدرتی وسائل میں کمی واقع ہورہی ہے آبادی میں اضافے کی وجہ سے جہاں روز بروز جنگلات میں کمی واقع ہورہی وہی شہری آبادکاریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سڑکوں پے موجود گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جو کہ شور کی آلودگی اور فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ آبادی میں اضافہ کی وجہ سے کم سے کم رقبے سے زیادہ سے زیادہ پیداوار درکار ہے۔

اس امر کیلئے زرعی ادویات کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے جوکہ انتہائی مضر صحت اور آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔
صنعتی انقلاب بھی ماحولیاتی مسائل کا بڑا سبب ہے۔ فیکٹریوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ فیکٹریوں میں قوانین پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ پلاسٹک، استعمال شدہ اشیا، ہسپتالوں کا فضلہ و دیگر مضر صحت اشیاء جلائی جارہی ہیں اور مضر صحت دھواں ہوا میں چھوڑا جارہا جسکی وجہ سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔

کسان دھان اور گندم کی فصل کی باقیات کو جلا دیتے ہیں جو کہ سموگ کا سبب بن رہے ہیں جس سے سانس، آنکھ اور گلے کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ فیکٹریوں کا گندا پانی کھلے میدانوں اور پانی کے ذخیروں میں شامل کردیا جاتا جس سے نا صرف آبی حیات کو خطرہ لاحق ہے بلکہ زمین پر اسکے مضر اثرات ہیں اور مضر اثرات زیر زمیں پانی کے ذخائر میں شامل ہورہے ہیں۔


ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ یہ گرین ہاؤس گیسیز کا نتیجہ ہے۔ گلوبل وارمنگ فصلوں کی روانی کو متاثر کررہے ہیں۔ گلیشیرز پگھل رہے ہیں جس سے سطح سمندر میں اضافہ واقع ہورہا ہے ۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی، خشک سالی، زراعت میں کمی، جنگلات میں آگ اور سیلاب کا سبب بن رہا۔
ماحولیاتی تبدیلی جسے کلائمنٹ چینج کہتے ہیں بھی ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے۔

اس کی وجہ گلوبل وارمنگ، فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں و دیگر عوامل ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے کافی ممالک کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔
قدرتی وسائل کی کمی واقع ہورہی ہے اور یہ ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ ہے ۔ کوئلے اور تیل کا استعمال گرین ہاؤس گیسز کےاخراج کا سبب بن رہا ہے،جو کہ ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہومو سیپین(حضرت انسان) ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں زمہ دار شہری بننا ہے۔ اپنے اردگرد ماحول کو ذاتی طور پر صاف ستھرا رکھنا ہے۔ ذاتی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنا چاھیے۔ فیکٹری مالکان کو چاھیے کہ انھیں قوانین پر عمل درآمد کرنا چاھیے۔ دھواں کیلئے چمنیاں لگانی چاھیے۔ زرعی ادویات کو کم سے کم استعمال کرنا چاھیے اور فصلوں کیلئے جنسی پھندے استعمال کرنے چاھیے۔

اس وقت ہمیں گھروں، دفتروں،سکولوں کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاھیے۔ نہروں اور سڑکوں کے بچھے جال کے اردگرد درخت لگانے چاھئیں۔ ملک میں شجر کاری کی مہم تو چل رہی ہیں لیکن درختوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ ہمیں عملی طور پر میدان میں آنا چاھیے۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاھیے۔ درختوں سے ہوا میں نمی کا تناسب برقرار رہتا ہے اور بارش کا سبب بھی بنتے ہیں۔


آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شجر کاری کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے ”اگر قیامت قائم ہو جائے ،اور تم میں سے کسی شخص کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو ،اور اسے قیامت قائم ہونے سے پہلے پودا لگانے کی مہلت مل جائے تو وہ اس پودے کولگا دے".
اگر کوئی شخص ایک پودا لگائے تو اسکو قیامت تک اسکا اجر ملتا رہے گا۔ ہر سال 5 جون کو ماحول کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس میں عالمی سطح پر ماحولیاتی مسائل پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔ اگر ہر پاکستانی زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے درختوں کی تعداد بڑھانے میں تگ و دو کرے تو چند سالوں تک سرسبز پاکستان کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ ہمیں آنے والی نسلوں کیلئے ماحول کو بہتر بنانا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :