آغوش نبوت کے درخشندہ پھول حسین

ہفتہ 21 اگست 2021

 Inam Ur Rehman

انعام الرحمن

حضرت علی اور جگر گوشہ رسول سیدہ  فاطمہ بتول کے گھر بچے کی پیدائش ہوئی۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور آپ کا نام حسین والد کا نام علی دادا کا نام ابو طالب تھا آپ  رسول اللہ کے پھول تھےاور آپ کے ہم شکل، پیدائش کے وقت آپ کے کان  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اذان کہی تھی ، اہل جنت کے جوانوں کے سردار،  رسول اللہ کی چادر میں آنے والے پانچویں،  عورتوں کے سردار کے بیٹے، نبوت کی ہتھیلیوں نے آپ کو غذا دی اور اسلام کی گود میں آپ نے پرورش پائی،  ایمان کے دودھ سے سیراب ہوئے، رنگ صورت  سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ تھی اور نے آپ صلی اللّه علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ  کا نام حسین رکھا تھا ۔


سرکارے دو عالم کے کندھوں پر سیر کرنے والے جنت کے شہزادے حسین کے نام حضور نے اپنی  مبارک زبان سے فرمایا " اے اللّه! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما " ۔

(جاری ہے)


جن کے بارے حضور نے صحابہ کی ایک دعوت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا اور رخسار حسین پر بوسہ دے کر فرمایا "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں،  اللّه تعالی اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے" ۔


ایک دفعہ حضور نے زبان رسالت سے ارشاد فرمایا" جس شخص کو پسند ہو کہ وہ اہل جنت میں سے ایک آدمی کو دیکھے، تو وہ حسین بن علی کو دیکھے"۔
صحابہ کرام سیدنا حسین کو کس قدر احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان سے کس قدر محبت،  مودّت الفت، مقام و مرتبت  بلکہ عقیدت رکھتے تھے کہ ایک بار سیدنا عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ  نے آپ کو دیکھا تو فرمانے لگے "اس وقت آسمان والوں کے ہاں یہ سب اہل زمین سے زیادہ محبوب ہیں "۔


 سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے آغوش سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں  تقریبا سات سال گزارے اور جیسے آپ کی صورت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مشابہ تھی ایسے ہی آپ کی سیرت بھی حضور کے مشابہ تھی۔
اس جنت کے شہزادے جن سے حضور بے حد محبت کیا کرتے تھے ایک بار حضور کو جبرائیل نے ایک خبر دی تو حضور شدت غم اور تاسف کی بنا پر زاروقطار رو پڑے۔

حضرت علی سے روایت ہے کہ " اللّه کے رسول کسی نے آپ کو غصہ دلایا ، رو رو کر آپ کی آنکھوں کی کیا حالت ہو چکی ہے؟ آپ فرمانے لگے:  کیوں نہیں! ابھی جبرائیل میرے پاس آیا تھا اور انہوں نے خبر دی کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کر لیا جائے گا۔ اور کہا:  اگر آپ چاہیں تو میں وہاں کی مٹی آپ کو سونگھا دوں،  میں نے کہا: ہاں ! بس جبرئیل نے  اپنا ہاتھ بڑھایا اور ایک مٹھی مٹی پکڑی اور مجھے پکڑا دی ، پس میری آنکھیں قابو میں نہیں رہی حتی کہ آنسو بہہ نکلے "۔


صبر و استقلال کی بے پایاں مثال حسین رضی اللہ تعالی عنہ دس محرم الحرام61 ہجری کو   بہادری کے ساتھ سچ اور حق کے ساتھ اس سفاکیت کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہوگئے اور لعنتی اپنی سفاکیت میں لوٹ گئے۔
شہیدان حق کی دنیا میں امام حسین کا مقام ایک اعتبار سے بہت بہت ابھرا  ہوا ہے کسی نے حق کی خاطر خود زہر کا پیالہ پی لیا ، کوئی قید  کی سختیاں زندگی بھر جلتا رہا، کوئی تنہا پھانسی پر لٹکا دیا گیا مگر حسین کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے،  اس نے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوا دیا اس نے اپنے بچّوں کے لاشے کو خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھے۔

اس کی پیاسی اور بلکتی ہوئی بچیوں کی آوازیں اس کے سامعہ  سے ٹکرا رہی تھی مگر وہ صبر وانضباط   کا پیکر ، وہ استقلال کا ہیمالیہ،  وہ عزت اور ناموس کا سراپا،دشمن کے سامنے گردن جھکانے پر آمادہ نہ ہوا ، وہ دشمنوں کے  جم غفیر میں تنہا رہ گیا مگر اس کے صبر و وقار کا دامن یکسر بے داغ رہا۔ وہ دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑا اور بے جگری سے لڑتا ہوا شہید ہوا۔

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔
حافظ ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں "بلاشبہ امام حسین کا قصد اعلائے کلمۃ اللہ ہی تھا اور اسی بنا پر اس بیعت سے انکار کیا جو ایک فاسق اور مجاہر  پر تھی جن سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی راہیں مسدود ہوگی"
کربلا کے میدان میں شہادت کے بعد ہر آنکھ مغموم تھی ازواج مطہرات میں ام المومنین سیدہ ام سلمہ زندہ تھی شھر بن حوشب بیان کرتے ہیں جب حضرت حسین کی شہادت کی خبر سیدہ تک  پہنچی تو فرمایا " کیا انہوں نے ایسا کیا ہے؟  اللہ تعالی ان کے گھروں اور قبروں کو ان پر آگ سے بھرے ! یہ کہہ کر وہ بے ہوش ہو گئی۔


امام ابن کثیر حضرت حسین کو خراج پیش کرتے ہیں فرماتے ہیں " زمین کربلا پر شہید ہونے والا نواسہ رسول پھول ،  پھول نما  بیٹی فاطمہ کا بیٹا اور آپ کا دنیا میں ایسا بڑا سردار کی زمین کی پشت پر ان دنوں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس کا مقابلہ یہ اس کی برابری کر سکتا "
حضرت حسین نے اپنی آل اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ۔ اللہ تعالی ہمیں اہل بیت سے محبت اور ان کے نقش قدم پر چلائے ، وہ محبت جس کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :