قیامت ہے کہ انساں، نوع انساں کا شکاری ہے

اتوار 18 اکتوبر 2020

 Inam Ur Rehman

انعام الرحمن

کوئی بھی معاشرہ عدم برداشت کے ساتھ کسی صورت پروان نہیں چڑھ سکتا۔معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم ذاتی اغراض  پر وضع کیے گئے ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف اپنی ذات  فرقے یا خاندان سے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تہتر( 73) سال گزرنے کے باوجود ہم آج بھی فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس ملک کی آزادی سے لے کر آج تک نفرت، مذہبی اور تہذیبی روایات میں اختلاف رائے کے پیش نظر بے بہا خون بہا۔


قانونی اصلاحات موجود تو ہیں لیکن اس کے باوجود آئے روز فرقہ وارانہ فسادات میں اختلافات پر شدت  بھرا  ردعمل اور کافر کافر کی صدائیں معاشرے کو کمزور کرتی نظر آتی ہیں۔
مذہبی منافرت کے اسباب میں عُرف عام میں تصور پایا جاتا ہے کہ غیر ملکی اثرات مذہبی حلقوں میں تحریک پیدا کر کے لوگوں کو آپس میں لڑوا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں یہ بات کرنا مناسب ہوگی کہ "مجھ کو تو گلہ تجھ سے غیروں سے نہیں ہے" ۔

(جاری ہے)

کسی بھی معاشرے میں محبت پسند عناصر کی کمی سے نفرت انگیز عناصر جنم لینا غیر معمولی بات ہے۔
 اسلام کا تو مطلب ہی امن اور سلامتی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے فرمایا کہ "آپ جانتے ہیں کہ روزہ نماز اور صدقہ سے بہتر کیا ہے؟ لوگوں کے درمیان امن اور اچھے تعلقات قائم رکھنا " اسلام تو " اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی"  کا مصداق ہے، جب اسلام امن اور برداشت کا درس دیتا ہے تو مسلمانوں کا عمل اس سے مختلف کیوں ہے ۔


کیا امن اور محبت کی اس سے بہتر مثال ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا اور خون کا ایک قطرہ نا بہا۔ ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تبلیغ چھوڑ دی اور فرقوں کی تبلیغ شروع کر دی، اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ فرقوں کی ریل پیل نے ایک دوسرے کا خون بہانے، دوسروں کو نیچا دکھانے اور کفر کے فتوے فتوؤں کے ذریعے امن کی صورتحال کو نقصان پہنچایا۔


 ہیومن رائٹس واچ(Human rights watch ) کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق 1987 سے 2007 تک چار ہزار (جن کی تفصیل کم از کم ایک تحریر میں بیان کرنا ممکن نہیں ) سے زائد لوگ فرقہ وارانہ حملوں کی صورت میں ہلاک ہوئے۔
ایک آن لائن ڈیٹا بیس (South Asian Terrorism Portal ) کے تحت 2007 سے 2011 تک 1649 لوگ فرقہ وارانہ فسادات ( جن میں صرف 2010 میں 57 واقعات میں 507 لوگ 2011 میں 30 واقعات میں 203 لوگ اور 2012 میں 51 واقعات میں 127 لوگ )میں  جاں بحق ہوئے۔


2005 سے 2010 تک صوفیا  کے مزارات  پر 70 خودکش حملے ہوئے جن میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔
ستمبر 2009 میں پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی بھی شہید ہوئے ۔
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2013 کے آغاز تک متعدد واقعات میں سات سو لوگ جاں بحق ہوئے ۔2014 میں تافتان میں ایک ہوٹل میں حملے کی صورت میں 23 لوگ 2015 میں شکارپور میں ساٹھ (60 ) لوگ  اور 13مئی 2015 کو کراچی میں اسماعیلی شیعہ کمیونٹی کی ایک بس میں 45 لوگوں کو شہید کیا گیا ۔


2016 میں بلوچستان شاہ نورانی کے مزار پر ایک خودکش حملے میں پچاس لوگ جاں بحق ہوئے اور سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے ۔شاید یہ زمین بھی رو رو کر دھائی دیتی ہوں گے کہ مجھے پاک کہنے والوں نے مجھ پر خون کی ندیاں بہائیں ہیں۔
علامہ اقبال نے  اپنے خطبہ الہ آباد میں فرمایا  "ایسا طبقہ جس کے دوسرے طبقے کے خلاف نفرت برے الفاظ سے جذبات بڑھکتے ہوں  وہ پست قامت اور کم ظرف طبقہ  ہے۔

میں دوسروں کی روایات ،قوانین، مذہبی اور معاشرتی اداروں کا بہت احترام کرتا ہوں نہ صرف یہ بلکہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق ضرورت پڑنے پر ان کی عبادت گاہوں کا دفاع کرنا بھی میرا فرض ہے"  ۔   
اقبال اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اس وقت دُنیا میں طاعون کی طرح پھیلی مختلف تقسیمیں، پریشانیاں اور ظلم و استبداد کا واحد حل قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہے جس کا پہلا اور بنیادی درس محبت اور امن کا ہے- اسلام کے معانی ہی امن اور سلامتی کے ہیں- رحم دِلی، خدا ترسی، ایثار و قربانی، فراخ دِلی، صبر و برداشت، تنوع کو برداشت کرنا، انسانی وقار اور سب کے مسائل کی فکر اسلام کے بنیادی اصول ہیں -
مارٹن لوتھر کنگ کہتا ہے کہ نفرت انگیز زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے، محبت اسے جاری کرتی ہے ۔

نفرت نے زندگی کو الجھا دیا ،محبت اسے ہم آہنگ کرتی ہے ۔نفرت نے زندگی کو تاریک کر دیا ہے ، محبت اس کو روشن کرتی ہے ۔
اگر آج مسلمان محبت سے تعمیر جہاں کرے تو فرقہ واریت اور فروعی اختلافات کا خاتمہ کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :