" اردو وہ زباں ہے کہ جو نافذ نہیں ہوتی"

منگل 8 ستمبر 2020

 Inam Ur Rehman

انعام الرحمن

ا  سے انار،  ب  سے بکری ۔۔۔
ساڑھے تین سال کا یہ بچہ اپنی لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے اردو کی کتاب میں سے بلند آواز سے دہرائے جا رہا تھا ہم اپنے کام میں مصروف اسکی آواز کو سن رہے تھے کہ اچانک ایک لفظ پہ آ کر چونک پڑے۔
 بیٹا یہ کیا پڑھا آپ نے ذرا دوبارہ پڑھیے گا ۔۔۔
ڈ سے ڈالفن ۔۔۔ بچے نے بلند آواز کہا ، اور ہم اس سوچ میں مبتلا ہو گئے کہ لکھنے والوں کے ہاں اردو کی اتنی بھی وسعت نہیں کہ ڈ سے اردو کا لفظ نا مل سکے ۔


کسی بھی قوم کیلئے قومی زبان اور ثقافت ان کی پہچان ہوا کرتی ہے، اور ہماری زبان ہماری ثقافتوں اور علاقائی زبانوں کے موتیوں کو ایک رسی میں پرو کر یکجا کرنے والی زبان ہے۔ پاکستان کے دیہاتی اور شہری  لوگوں میں رابطے، مراسلے اور مکالمے کی زبان اردو ہے۔

(جاری ہے)

آج سے سو سال پہلے جب انگریز ہم پر حکمرانی کیا کرتے تھے تو ترقیِ  اردو کہ اشتہارات آویزاں ملتے تھے اور آج جب ہم ایک آزاد مملکت میں رہتے ہیں تو بقائے اردو کے اشتہارات آویزاں ملتے ہیں۔

سو سال کا یہ تنزلی کے مدارج تہہ کرتا سفر بڑا کٹھن گزرا۔ ہم نے اپنی پہچان کی خاطر انگریز سے آزادی لی اور آج انگریز کی زبان کو سینے سے لگائے ہوئے  اپنی قومی پہچان سے کنارہ کشی کر رہے ہیں ۔ اس بات میں کوئی ممانعت نہیں کہ انگریزی کے ساتھ ساتھ دیگر غیر ملکی زبانوں سے آشنا ہوا جائے، اس امر سے انکار بھی ممکن نہیں۔ کہ انگریزی زبان اور بیرونی دنیا سے رابطے کی دیگر اہم زبانوں کی  اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم ہے۔

اور قائم رہنی چاہئے تاکہ! بین الاقوامی معاملات اور علوم و فنون پر دسترس حاصل کرنے میں ہم کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ لیکن! ہماری قومی زبان اردو کی اپنی جگہ اہمیت اور افادیت ہے۔ جیسا کہ! دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی زبان کو ہمیشہ ہر معاملے میں فوقیت دیتے ہیں۔ ۔ لیکن اپنی زبان کی نا قدری جس نے ہمیں بے جا احساس کمتری میں مبتلا کر دیا، ہمارے ہاں بنیادی درجہ سے انگریزی بول لینے کو ذہانت اور فطانت کا معیار سمجھا جاتا ہے ۔

جو اہمیت قومیں اپنی زبان کو دیتے ہیں وہ ہم غیر کی زبان کو دیے بیٹھے ہیں ۔ اپنی قومی  زبان  کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ کم عقلی کی دلیل ہے ۔
جن قوموں نے اپنی زبانوں پر تکیہ کیا آج وہ ہر شعبہ ذندگی میں کامیابیوں کی منزلیں طہ کر رہی ہیں ۔  انسان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں دنیا کی کوئی ایک قوم ایسی بھی نہیں جس نے کسی اور کی زبان میں علم حاصل کیا اور ترقی بھی کی ہو۔


اس امر میں اردو کی فوقیت کے لئے کیا ہو سکتا ہے کہ خود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نےمارچ  1948ء میں ڈھاکہ کے جلسہ عام میں فرمایا کہ!
’’میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہی ہوگی۔ جو شخص آپ کو اس سلسلے میں غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کرے۔ وہ پاکستان کا پکا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد رہ سکتی ہے۔

اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے۔
اس فرمان کی ضمن کے باوجود بھی آج تک قومی زبان کو سرکاری درجہ نا دیا گیا۔ 1973 کے آئین کی 251 شق میں موجود ہے کہ تمام سرکاری معاملات کو 15 سال کے اندر اردو میں منتقل کیا جائے گا لیکن 47 سال گزرنے کے باوجود دستور شکنی تسلط برقرار ہے ۔
6 جولائی 2015 کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف صاحب نے ایک بل کی منظوری پر دستخط کئے جس میں کہا گیا کہ تمام وفاقی ادارے اپنے تمام معاملات کو تین ماہ کے اندر اردو میں منتقل کریں اور اور وفاقی سطح پر اردو کا نفاذ عمل میں لایا جائے، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا  بھی مستقل طور پر رائج عمل میں نہیں آیا ۔


8 ستمبر 2015 کو وہ تاریخی دن تھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے آئین کی شق 251 کو رائج کرنے کا حکم دیا جس کے مطابق وفاقی اور صوبائی سطح پر تمام سرکاری معاملات صرف اور صرف اردو میں کرنے کا حکم دیا لیکن آج ہم اس قانون شکنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہے جس پر قانون کا کوئی علمبردار آواز نہیں اٹھاتا ۔۔۔
میرے پاکستانیوں!  یاد رکھو، قومی زبان ماں کی حیثیت رکھتی ہے ، خدارا ماں کا مذاق نا اڑاؤ ۔

انگریزی بول لینا لیاقت نہیں ہے اردو ہمارے لئے باعث افتخار ہے  اور اردو کے نفاذ کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
بیوروکریسی، غلامانہ ذہنیت زدہ حکمران اور نجی مفاد پرست طبقے کی اجارہ داری کی خاطر 22 کروڑ پاکستانیوں پر انگریزی کا تسلط ختم کیا جائے جو کہ نوجوان نسل کے قابلیت میں رکاوٹ کا سبب ہے ۔ اس زبان کی اس سے بڑھ کر تذلیل کیا ہو سکتی کہ اردو کے رائج کرنے کی شق انگریزی میں پیش کی جاتی ۔

ایسی کیا وجہ ہے ہمارا انگریزی نظام تعلیم ١١٠٠ میں ١٠٩٢ نمبر لینے کے باوجود کوئی سائنس دان نہیں بلکہ رٹو طوطے پیدا کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ یکساں نظام تعلیم کے اعلامیہ میں انگلش ایجوکیشن کی تاریخ بتائی گئی کہ 80 کی دہائی میں نظام تعلیم اردو میں منتقل کیا گیا تو competitive exam میں انگلش میڈیم والوں کو فائدہ پُہنچتا رہا جس کے بعد نظام کو دوبارہ انگریزی میں منتقل کیا جا رہا اس سے بڑھ کر مزاحقہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔

۔۔۔
حکومتی اور قانونی علمبرداروں سے گزارش ہے کہ' ڈ ' سے ڈھنڈورا پیٹنا چھوڑ دیں کہ جو ترقی ہم 73 سالوں سے حاصل نہیں کر سکے وہ اس فرسودہ نظام میں مستقبل میں بھی حاصل ہو سکے گی ۔
کسی شاعر نے داغ کے مصرعے کو کیا خوب استعمال کیا کہ :  
قومی زبان ہوکے بھی نافذ نہ ہوسکی
’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :