قائد اعظم سے باتیں ۔ اک مکالمہ

جمعہ 25 دسمبر 2020

 Inam Ur Rehman

انعام الرحمن

قائد :  جینٹل مین !
کیا ہوا آج خاموش لگ رہے ہو، آج میرا خاص دن ہے دیکھو ہزاروں میرے پرستار مجھے  خراج پیش کر رہے ہیں۔ تم آئے،  سلام کیا،  دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اب ایک کونے میں بیٹھ گئے ہو، کیا بات ہے پیارے ؟
میرے قائد !
ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کے اور آپ کے پرستاروں کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہ رہا تھا۔
قائد : جب سے پنجاب سے لوٹے ہو تین چار مرتبہ تو قریب سے گزر گئے باہر سے سلام کیا اور آگے چل دیے۔

پہلے پہل تو باتیں ہوا کرتی تھی اب تو باہر سے ہی  سلام کر کے نکل جاتے ہو۔ میرے ملک میں ایسی کیا تبدیلی آگئی کہ تم، ہم ہی سے بدل گئے ۔
میرے قائد!
بے اثر ہو گئے سب حرف نوا تیرے بعد
کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
ہمیشہ آپ سے بات ہوتی ہے مگر آج دیکھیں کہ آپ کے پرستاروں میں آدھوں نے تو دعا بھی نہیں کی اور باقیوں نے دعا مانگی تو بھی تصویر بنانے کی غرض سے، جس قوم کو خودی کا طالب ہونا تھا وہ تو سیلفی کے ہو کے رہ گئے۔

(جاری ہے)

یہ محض تصویریں بنانے والے آپ کے افکار سے کتنے واقف ہیں؟ یہ آپ کے سر  کے عین دائیں جانب باجے بجانے والے اوباش لڑکوں اور سامنے باغیچے میں ٹک ٹاک بنانے والوں کے شور میں، میں آپ سے کیا بات کروں ؟
قائد: جینٹل مین !
میں نے تو تم لوگوں کے لئے اپنا حق ادا کر دیا، جتنا کر سکتا تھا کیا، اب تو تم لوگوں کو اپنے لئے ہی کچھ سوچنا ہوگا ۔
میرے قائد پاکستان بناتے وقت آپ کو اندازہ تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟
قائد: میرے بچے !
ہم نے منقسم قوم کو ایک نظریہ پر اکٹھا کر لیا تھا، ایک آزاد مملکت کے لیے ہم نے ہر طرح کی قربانی دینے کا عزم کیا اور وقت آنے پر ہر کسی نے ملک کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔

تم نے مواخات مدینہ صرف  کتابوں میں پڑھا ہوگا ہم نے ایثار و قربانی کی کئی مثالیں آنکھوں سے دیکھیں۔ تم بتاؤ ایسے حالات میں، میں  بہترین مستقبل کا یقین کیوں نہ رکھتا۔
میرے قائد !
یہ باتیں بجا مگر کچھ ایسے نقائص  ضرور تھے جس بنا پر آپ دوبارہ انگلستان چلے گئے تھے،  آپ  ضرور اس سے واقف ہوں گے؟
قائد:  میرے بچے! تم ہر بار یہ سوال کرتے ہو چلو آج اس کا جواب یوں ہی سہی کہ مجھے معلوم تھا میرے دور کا اقبال لیڈر کی کمی سے واقف ہو گا اور وہ پوری قوم بن کر مجھے واپس لے آئے گا۔

تم اپنے دور کا ایک اقبال ڈھونڈو قائد تمہیں  مل جائے گا.
میرے قائد !
مجھے تو قوم ہی نہیں ملتی،  جہاں جائیں تقسیم در تقسیم،  جس دور میں ایک طبقے کا مفاد دوسرے کا نقصان میں ہو وہاں اقبال اور آپ آ بھی جائیں تو کیا حاصل۔ بس اتنا ہے کہ
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی کوچے کی فضا تیرے بعد
قائد : میرے بچے ! انقلاب کا نقطہ آغاز خودی سے ہوتا ہے۔

اسے بیرونی اسباب میں تلاش کرنا چھوڑ دو۔ اقبال کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں اس کے  فکر کو سمجھو۔ جس نظام سے آزاد کروانا ہمارا خواب تھا اسے سینے سے لگائے بیٹھے، منتظر فردا ہو ۔۔۔
میرے قائد! آپ بھی تو جمہوری نظام کے قائل تھے، آزاد ریاست،  اظہار رائے،  مذہبی رسومات میں آزادی امن و استحکام سب تو  حاصل کر لیا ۔۔۔
قائد: میرے بچے!  بارہا کہتا ہوں " ایمان، اتحاد، تنظیم " ان تین لفظوں پر غور کرو اور خود کو آئینے میں دیکھ کے بتاؤ، اگر ایسا نہ ہو ،تو اس نظام کا خواب ہم نے نہیں دیکھا تھا۔

جس نظام میں بقول اقبال "ہوتی نہیں میری ضرورت تہِ افلاک " اس نظام سے انقلاب کی امید رکھنا بےوقوفی ہے۔
اپنے ماضی کی بات کرتے ہو کچھ حال کے متعلق بیان کرو پچھلے سال تک تو بہت پر امید تھے ، تبدیلی کے آثار کچھ نمایاں ہوئے ؟
میرے قائد! جس نظام میں موجود خرابیوں کو ٹھیک ہونا تھا وہاں تو تبدیلی اب اک  خواب ہی لگتا ہے۔ بہرحال وزیراعظم صاحب روز اک  بات کرتے ہیں دوسرے روز اسی بات سے بدل جاتے ہیں۔

قائد آپ نے تو کہا تھا"  فیصلہ لینے سے پہلے سو بار اس کے متعلق سوچو لیکن ایک بار فیصلہ لے لو تو اس پر ڈٹ جاؤ " آج کے لیڈر یو ٹرن لینے کو بہترین لیڈر کی صفت گردانتے ہیں۔
قائد یہاں  حکومتیں بدلتی ہیں،  سربراہان مملکت بدلتے ہیں،  صدارتیں  بدلتی ہیں،  وزارتیں  بدلتی ہیں اداروں کے سربراہان بدلتے ہیں،  پر تبدیلی کے آثار کہیں نظر نہیں آتے اور میں من حیث القوم باعث ندامت اپ سے افتخار عارف کے دو شعر میں کہتا ہوں:
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد
تیرے قدموں کو جو منزل کر نشانہ جانتے تھے
بھول بیٹھے تھے تیری نقش کف پا تیرے بعد ۔

۔۔
قائد: " نقش کف پا سے یاد آیا" رات عالم بالا میں احباب نے ایک تقریب کا اہتمام کیا، علامہ اقبال بھی تشریف لائے،وہ بھی اب ملکی حالات پر زیادہ بات نہیں کرتے،  میں نے کہا"  اقبال!  قوم کو اقبال کی ضرورت ہے"  تو افسردہ ہو گئے اور  کہنے لگے " مجھے لگا تھا اب میں مر بھی گیا تو مروں گا نہیں " پھر اپنا اک شعر پڑھا اور بیٹھ گئے ۔
کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ ۔

۔۔
بچے اقبال نے تو نوجوانوں میں سیاسی بیداری لائی تھی۔ طلباء کی سیاسی محنت تحریک میں شامل حال رہی۔  
میرے قائد! آپ نے پوری تحریک میں نوجوانوں کے کردار کو سراہا اور آپ نے کہا میرے دل میں نوجوانوں کی بڑی قدر و منزلت ہے۔  لیکن ڈھاکہ میں آپ نے ایسا کیوں کہا کہ " اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہو گی"
قائد: میرے بچے میں اس کے محرکات سے بخوبی واقف تھا، میں نے اکثر اس بات پر زور دیا کہ دشمن آپ سے آئے روز ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔

آپ کا اولین فرض علم کا اصول ہے جو آپ کی ذات،  والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ کو اپنی توجہ صرف تعلیم پر مرکوز رکھنا ہو گی ۔ اگر آپ نے  اپنا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔
میرے نوجوان دوستو!  اب میں،  آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔


اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کر سکتے ہیں۔
میرے قائد! آج کے نوجوان کا کیا حال سناؤں، آج کل تو " اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا" تعلیم پر آپ سے ضرور بات ہوگی مگر اب مجھے اجازت دیں ۔
قائد: چلتے ہو! اچھا یہ تو بتاؤ تم دعا میں کیا کہتے ہو ؟
میرے محبوب قائد ! یہ بھی آپ کو اگلی ملاقات میں بتاؤں گا ۔
قائد: ٹھیک ہے، جاؤ
 بس اس ملک کو اپنا ملک سمجھو اور اتنا جان لو کہ یہ کس مشقت کے ساتھ تمہیں ملا۔
 خدا تمہارا حامی و ناصر ہو ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :