زندگی کو آہستہ گزارنے کا فن

اتوار 6 دسمبر 2020

Javed Iqbal

جاوید اقبال

 ایک مصنف نے ایک واقعے کے حوالے سے بتایا کہ اس کا  کروڑپتی  دوست اسے ملنے آیا۔ جب  وہ جانے لگا، میں نے اس سے نئے سال کے ارادوں کے بارے میں پوچھا۔ جس پر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ آنے والا سال آہستہ گزرے۔
 اس کے جواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ جس وقت وہ چلا گیا، میں نے سوچنا شروع کیا اور محسوس کیا کہ واقعی زندگی تو برق رفتاری سے گزر رہی ہے۔


 ایک پروفیسر نے  اپنی کلاس سے ایک سرگرمی کرنے کو کہاکہ آج گھر جاؤ، اپنا ہوم ورک،اپنا معمول سب بھول جاؤ، اور سوچو زندگی کی سب سے زیادہ قیمتی چیز کون سی ہے اورآپ اس کے ساتھ کیسے سلوک کرو گے؟  زندگی میں آپ کیا چاہتے ہیں اور وہاں کیسے پہنچوگے؟۔اگلے دن بہت سارے جوابات تھے۔  تعلیم مکمل کرنیکے بعد ہر ایک اچھی نوکری حاصل کرنا چاہتاتھا یا کاروبار کرکے پیسے کمانا چاہتا تھا۔

(جاری ہے)

  مقصد خوش ہونا تھا۔پروفیسر نے کہا  نوجوانو!  ایک دن آپ بوڑھے آدمی کی طرح بیدار ہو گے، یہ سوچ کر کہ یہ حیرت انگیز زندگی پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہوگئی ہے تم پریشان ہو جاو گے۔ پھر اس نے پوچھا ''زندگی کے اس  تیزی سے بجھتے ہوے قمقمے کی رفتار کوکیا کسی طرح آہستہ کیا جاسکتاہے؟۔ لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا۔ تاہم، اس نے متقبل بنانے کی بجائے اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ جینے، کھیلنے، سیکھنے، سکھانے، محبت کرنے، تخلیق کرنے کا مشورہ دیا اور آہ بھرتے ہوے کہا کہ ایک دن یہ سب کھیل ختم ہوجائے گا اور ہم ہاتھ ملتے اور ایڑیاں رگڑتے ہوے اس دنیا کو خیر باد کہہ دیں گے۔

البتہ ایک  دفعہ انہوں نے کہا تھا کہ خوشی اس شفا بخش درد کے دوسری طرف چھپی ہوئی ہے۔ کوئی بھی وہاں دیکھنے کا نہیں سوچتا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ خوشی کا درد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگرچہ وہ براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔
میں کچھ عرصہ سے اس  کے سوال پر غور کر رہا ہوں  میں نے بہت سارے لوگوں سے گفتگو کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میکسیکو میں زندگی کی رفتار آہستہ ہے کیونکہ بنیادی اصول خاندان ہے۔

لیکن امریکہ میں یہ اصول چونکہ پیسہ ہے  لہٰذہ زندگی بہت تیز ہے۔ اس طرح ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے کے مقابلے میں آپ کسی بڑے شہر میں رہتے ہیں وہاں زندگی  تیز محسوس ہوتی ہے۔گھڑی کی رفتار میں تو کویئ فرق نہی البتہ لگتا ہے وقت کی رفتار میں بڑا فرق ہے۔وقت کا جتنا تعلق جسم سے ہے اس سے کہیں زیادہ روح سے بھی ہے۔یہ سارا کیفیات اور احساسات کا کھیل ہے۔


مفکرین سے بات کرنے کے بعد مجھے لگا کہ دراصل زندگی کے ابتدائی برسوں میں ہر کسی کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ترقی کے پہاڑ پر چڑھ رہا ہو۔ وہ توانائی، جوش، جزبے، امیدوں، منصوبوں اور بہت سے مقاصد سے بھرا ہوا  ہوتا ہے۔جب وہ 40 سال کا ہوجاتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ وہ زندگی کی ڈھلوان پر نیچے کی طرف لڑھکنے لگا ہے۔ اس میں مثبتیت اور عزائم کا فقدان ہونے لگتا ہے۔

اس کی شادی ہوچکی  ہوتی ہے، وہ اچھی نوکری کررہا ہے یا کاروبار کرکے پیسہ کما رہا ہے، بچوں کی پرورش اب اس کی ذمہ داری ہے۔ پھر وہ معمول کا شکار ہوجاتا ہے جو وقت کے ساتھ  ساتھ  خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی بور ہونا  شروع ہو جاتی ہے اور  اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے دوست  اسے تیزی سے چھوڑ رہے  ہیں  یعنی مر رہے ہیں۔ نئے لوگ اپنے پیاروں کی جگہ لے لیتے ہیں لیکن ان سے قربت کا فقدان ہے۔

اب عمر کے اس حصے میں اسے لگتا ہے کہ وہ اتنٰی تیزی سے تنہا ہو رہاہے۔
جب  یہی سوال میں نے ڈاکٹر ناصر جاوید سے پوچھا توانہوں نے کہا کہ جس دن  آپ دو سال کے ہو  گیئ تھے، 1 سال آپ کی زندگی کے نصف حصے کے برابرتھا۔اس طرح آپ کو بچپن میں سال لمبے لگتے تھے۔ اب، جب کہ آپ کی عمر 30 سال ہے تو یہ آپ کی زندگی کا صرف 30 واں حصہ ہے۔ سال یقیناً  آپ کو چھوٹا لگے گا۔

اس طرح، آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ا ب  ایک سال اتنا لمبا نہیں ہوتا جتنا کی آپ کونوجوانی میں لگتا تھا۔ سابق وأیس چانسلر ڈاکٹر روف اعظم نے کہا کہ جب آپ زندگی میں مقاصدحاصل کرنے میں ناکام ہوں تو وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ آپ قناعت کریں اور عبادت میں مصروف رہیں تو آپ کا وقت آہستہ گزرے گا۔
جب یہی سوال میں نے اپنے استاد سر یعقوب  سے پوچھا انہوں نے کہا کہ ''میں اب 70 کی دہائی میں ہوں اور بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہر ایک کو محسوس ہوتا ہے کہ ہر گزرنے والا سال آپ کی کل زندگی کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔

جیل میں ایک سال کی قید یونیورسٹی کے چار سالوں پہ بھاری ہوتی ہے۔وجہ بیان کرتے ہوے کہا''موبائل فون، کمپیوٹرز، اور ٹیلی ویژن جیسی ٹکنالوجی کا استعمال وقت کو بہت تیزی سے گزارتا ہے۔ اگر آپ وقت کی رفتارکو کم کرنا چاہتے ہیں توٹکنالوجی کے استعمال سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں. اپنے  اور اپنوں کے بارے میں سوچیں، خود سے سوال کریں اور اس پر غور کریں۔

اکیسویں صدی میں ہماری زندگی انتہائی تیز ہے۔ ہم زندگی سے لطف اندوز ہونا بھول کر صرف مادی فوائدکے لئے دوڑ رہے ہیں۔انہوں نے اس سوال کے جواب کے لیے ایک عظیم فلسفیانہ کتاب ''وقت کا فن'' پڑھنے کی بھی سفارش کی۔انہوں نے کہاچونکہ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے، لہذا اس میں زندگی بسر کرنا ایک عمدہ ہنر ہے۔ اس کے بارے میں اچھا محسوس کریں، وقت آپ پر قابو نہ پائے، اس کا غلام نہ بنیں، اس سے لطف اٹھائیں۔

لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ اس اہم مسئلے کے بارے میں ہمیں سکولوں میں سکھایا ہی نہیں جاتا۔
پروفیسر ابصار نے تو یہ کہہ کر حد ہی کر دی کہ جب آپ کی عمر 60 سے اوپر ہوجاتی ہے تو وقت اور عمر کے مابین لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ وقت آپ کو مارنا چاہتا ہے جبکہ آپ اسے مارنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکن نیلسن کمپنی رپورٹیں  جاری کرتی ہے  کہ  امریکی اپنی اسکرینوں کو دیکھنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔

اگر دن میں اوسطا 10 گھنٹے ہیں تو زیادہ تر لوگوں کے جاگنے والے وقت میں سے 66٪ اسکرینوں کو دیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔اگر آپ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ اسکرین پر صرف کرتے ہیں تو اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ ماضی کے لوگوں کے مقابلے میں آج  وقت 3 گنا زیادہ تیزی سے گزرتاہے۔لہٰذہ  مجھے لگتا ہے کہ اسکرین کا کم وقت کرنے، زیادہ مراقبہ اور اپنی سوچ پر فوکس کرنے سے زندگی کو سست کیا جا سکتا ہے۔

اور اگر آپ ہر وقت یہ  سوچتے ہیں کہ  میرے پاس کچھ لمحے باقی ہیں اور مجھے بہت کچھ کرنا ہے تو آپ کو زندگی تیز لگے گی۔اگرچہ اس احساس کو ٹھیک طرح سے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، ہمیں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے وقت ایک اتھاہ کنواں ہے جو ہماری مرضی کے مطابق پانی پیدا کرتا ہے۔ کسی کو یہ خالی لگتا ہے اور کسی کو پانی سے بھرا ہوا.
اس موضوع پر کتب پڑھنے کے بعد میں نے اس بارے میں ایک عجیب بات سیکھی ہمارے دماغ کے بارے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ آسانی سے (خود) دھوکہ دہی کا شکار ہوجاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو یہ سوچ کر خود کو دھوکہ دے سکتے ہیں کہ آپ خود اعتماد ہیں، پریشانی کی حالت میں  قہقہے لگا کر آپ خوش ہو سکتے ہیں۔

اس طرح  ہم وقت کی رفتار کو کم کرنے کے بارے میں بھی اپنے دماغ کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔ ''میں جوان ہوں اور کئی دہائیوں تک ایسا ہی رہوں گا'' جیسے بیانات نتیجہ خیز ہوں  گے۔اگر آپ کا بنیادی اصول پیار ہے، دوسروں کی مدد کرنا، تقدیر پسندی، یا دوسرے روحانی مقاصد - زندگی کی رفتار کم  محسوس ہوگی۔ اگر آپ کا اصل ہدف سامان، روپیہ پیسہ، ایک بڑا دفتر یا دیگر سرمایہ دارانہ مقاصد ہیں تو زندگی چوہے کی دوڑ کی طرح تیز ہوجاے گی۔

 
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے بہت تھوڑا وقت ہے،  جیسا کہ یونانی مفکر سینیکا نے کہا،ہم میں سے  زیادہ تر لوگ ا سے  ضائع کرتے ہیں۔ زندگی کافی لمبی ہے، اور ہمیں اعلی کامیابیوں کے لیے وقت کی کافی  رقم دی گئی ہے ضرورت اچھی طرح سے سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن ہمارا وقت کسی اچھی سرگرمی میں خرچ نہیں ہوتا ہے،  ہمیں آخر کار موت کی گھنٹی یہ احساس دلاتی ہے کہ وقت گزر چکا ہے۔

زندگی گزارنے میں سب سے بڑی رکاوٹ  بہت زیادہ  توقعات ہیں جوہمیں فرضی کل پر لے جاتی ہیں اور اصلی آج نظر انداز ہو جاتی ہے۔
  دلائی لامہ نے کہا تھا کہ انسان پیسہ کمانے کے لئے اپنی صحت کی قربانی دیتا ہے۔پھر وہ اپنی صحت کی بحالی کے لئے رقم کی قربانی دیتا ہے۔اور پھر وہ مستقبل کے بارے میں اس قدر فکر مند رہتا ہے کہ وہ حال سے لطف اندوز نہیں ہوتا ہے۔


روحانی رہنما صادق علی نے کہا کہ انسان کا وجود گوشت کے ٹکڑے کے لئے لڑنے والے کتوں کے ایک جتھے کی طرح ہے۔ خود غرض انسان خوش بختی و خوشحالی کے لئے ایک دوسرے کا راستہ  روکنے کے لئے ہما وقت تیار رہتے ہیں۔ ہمارے نازک ذہنوں نے حقائق کی طرف مائل نہ ہونے کے لئے ایک وہم پیدا کیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ  دوسری طرف گھاس سبز ہے۔ اور یہ کہ دوسروں کی زندگی زیادہ خوبصورت ہے۔

ساری خوشحالی اُدھر ہی تو ہے۔اس ساری کشمکش میں ہم اپنی زندگی جینا بھول جاتے ہیں۔زندگی بامقصد ہو نی چاہیے تو اس میں ٹھہراو آے گا۔  لاکھوں کی تعداد میں ذبح ہونے کے باوجود بھیڑ بکریوں کے ریوڑہوتے ہیں جبکہ کتے بلیاں اکا دکا نظر آتے ہیں، اسے برکت کہتے ہیں اور یہی معاملہ وقت کا  بھی ہے۔آرام  پسندی اور وقت کا ضیاں خوابوں کی تعبیر کی موت  او ر بدترین نشہ ہیں جس کے ہم عادی  بن چکے ہیں۔

اس بیماری کا علاج صرف روحانیت میں مضمر ہے۔
رالف سایمن نے کہا تھاکہ  اگر آپ اپنی زندگی کوبہتر گزارنا چاہتے ہیں توآہستہ چلیں،ڈایئری لکھیں اور ہفتہ وار منصوبہ بندی ضرور کریں۔
  (In Praise of Slowness)  کے مصنف کارل ہنور نے لکھا کہ جلدبازی کی مخالفت کریں اور زندگی کے حیران کن نتائج دیکھیں۔
  (Walden) ہنری ڈیوڈ تھورو  اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ فطرت کے ساتھ ایک ہو جاؤ، یہی زندگی ہے۔

یہی اس کی طوالت کا راز ہے۔
 موضوع کو سمیٹتے ہوے مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا طرز زندگی ماہرین نفسیات کی آرا کے بالکل برعکس ہے۔ہم فطرت سے کوسوں دور ادنی دنیا میں سکون کے متلاشی ہیں اور تصنع اور بناوٹ میں طوالت زیست ڈھوندتے ہیں۔ وقت کی رفتار کو کم کرنے کا واحد حل جیسا کہ  ماہرین نے بتایا وہ صرف موجودہ لمحے میں زندہ رہنا ہے، ایک متوازن اور بامقصد زندگی ہی وقت کی تیز دھار تلوار کو کند کر سکتی ہے۔

یہی بات میں نے کتب کے مطالعہ سے سیکھی ہے۔ صرف آج کے اس لمحے کا بہت لطف اٹھائیں اور اسے محسوس کریں۔ ماضی کو اتنا دیکھیں جتنا ڈرائیور عقبی شیشے  میں دیکھتا ہے یا صرف  اتنا کہ آپ کتنی دور آ چکے ہیں۔اچھا آج ہی اچھے کل کی ضمانت ہے۔ بس ڈرائیو کرتے جاؤ، یہ آپ کو خود بخود منزل تک لے جائے گا۔آپ کی منزل یقینا ایک لمبی خوبصورت زندگی ہی تو ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :