”ٹھرکی کرو“ ''Tharky Crow''

پیر 8 فروری 2021

Javed Iqbal

جاوید اقبال

کبھی تو وہ دورکہیں ویلے میں ونجلی بجاتا تھاپھراس نے رنگ برنگی کیاریوں کے اردگرد منڈلانا شروع کر دیا۔
ہم جماعت جنہیں شامی کلاسوں میں ہی داخلہ مل سکا تھا کیوں کہ میرٹ نے انہیں صبح، دوپہر کہیں کا نہ چھوڑا تھا، اس کی موجودگی سے بہت کڑھتے رہتے ۔
 کچھ ہی د ن بعد ہم جماعتوں کو معلوم ہوا کہ اس نے کنٹین کا طواف بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔

جہاں اس کے ارد گرد بہت ساری’ تتلیاں‘ چہچہاتی ہیں اور تو اور وہ کوئلوں کا پیچھا بھی کرنے لگا ہے ، ایک تتلی تو خود اسے پھول بھی سمجھ بیٹھی ہے۔ تھوڑی پُن چھان کرنے پر پتہ چلا کہ چونکہ ہم جماعتوں نے اپنی تجوریوں کے تسمے کس کر بند کر رکھے ہیں اس لیے اس گھس بیٹھئے کو پنپنے کا خوب موقع مل گیا ہے ۔
اب یا توصبرکیا جا سکتا تھا یا حسد۔

(جاری ہے)

ادھر ہم جماعت بھی کانچ کی گولیاں کھیلنے نہیں بیٹھے تھے لہذہ ا نہوں نے بھی خصوصی طور پر سر جوڑے ۔

بیٹھک میں خاصی گرما گرمی ہوئی۔ایک نے تو یہ کہہ کر ہماری غیرت کو للکارا کہ انہیں اب چوڑیاں پہن لینی چاہیئں کہ انکی ہم جماعتی کوئی اور لے اڑے۔
 وہ بڑی گاڑی میں گھومنے پھرنے اور’ پڑھنے ‘آتا ، پیسے لٹاتا، موج میلا کرتا اور سب کا سودا کر سکتا تھا، کوئی بھی اس کو روکنے ٹوکنے کے لیے تیا ر نہ تھا۔آخر یہ فیصلہ ہوا کہ اس شکاری کو ’نیک نامی‘ کی سلامی دی جائے تاکہ وہ شکارگاہ سے خود ہی جال اٹھائے بھاگ جائے ۔

ایک سیانے نے یہ تجویز دی کہ اس کا نام ’ ٹھرکی کرو‘ Tharky Crow یعنی ’ ٹھرکی کوا‘ رکھ دیا جائے اور جب کبھی وہ کسی تتلی کے ساتھ پھرتا یا کسی کوئل کے پیچھے بھاگتا ہوا دکھائی دے ، اسے ٹھرکی کرو کہا جائے۔ سب نے اس تجویزباتدبیر کا خیرمقدم کیا ، تالیاں بجیں، قہقہے لگے اور اس پہ عمل درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا ۔
 جب بھی وہ شکاری کسی تتلی کے ساتھ کہیں دکھائی دیتا تو یہ سب کنگلے رقیب ٹھرکی کرو، ٹھرکی کرو کی آوازیں کسنے لگتے۔


کچھ عرصہ تو یہ سلسلہ چلتا رہا اور شکاری اسے کن انکھیوں سے دیکھتا رہاکہ یہ چنگاری سلگے بغیر ہی بجھ جائے گی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اس کے پیچھے کتنے بڑوں کی کتنی بڑی عقل کا ہاتھ ہے۔ جب یہ معاملہ بہت بڑھ گیا تو اس نے بھی کائیں کائیں کر کے ’ صبح کے ٹھرکی کووں‘ کو بلایا اور ہم جماعتوں کوللکارنے لگا ۔اگر کوئی تتلی’ کالے تنوں‘ پر نہیں بیٹھتی تو یہ ’شام کے الو ‘ اس کے پھولوں پہ بیٹھنے پہ نالاں کیوں ہیں؟ اتنی بھی سمجھ نہیں کہ تتلیاں گڑ پر نہیں ’ شہد کے لیے پھولوں‘ پر مرتی ہیں۔

جن کے تلوں میں تیل وہی تگڑا۔ ان ناسمجھ ’رات کے الوؤں‘کو کون سمجھائے۔
 ہم خیالوں کو ٹوہ لگی کہ ٹھرکی کوے دم آخرتک لڑیں گے۔
 جب ’ٹھرکی کرو، ٹھرکی کرو‘ کی آوازیں دور دور تک گونجنے لگیں تو اس شکاری کوے نے اس مہم کی شکایت صدر مدرس سے کر دی۔
 سب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑی جامعہ کے ایک ایسے انسٹیوٹ میں داخل دفتر تھے جہاں تربیت کے علاوہ سب کچھ ہوتا تھا ۔

درمیان میں ایک بہت بڑی کینٹین تھی جس میں خوش گپیاں ہوتیں، سالگرہ کے کیک کاٹے جاتے اور مباحثے اور چائے پہ بیٹھکیں ہوتیں، دوستیاں بنتیں ، نبھائی جاتیں اور ان پر جی کھول کے روکڑے لٹائے جاتے تھے۔
ہم جماعت زیادہ تر خود ساختہ تھے لہذا انہیں اپنی تعلیم سے زیادہ اپنی تجوریوں کا خیال ہوتا۔انہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دوستی کے لیے دل کا دھڑکنا ہی کافی نہیں ہوتا ، جیب کٹوانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پیار کی دنیا سے تقریبا کٹ کے رہ گئے انہیں بزدل الو سمجھ کر کوئی دانہ نہ ڈالتا جبکہ کہیں کے کوے معصوم کوئلوں پر جھپٹتے، پلٹتے اور پھر جھپٹتے ۔ ادھر کوئی ’الو‘ ایک ہاتھ میں اپنا دل لیے جب کہ دوسرے کو کس کر جیب پر رکھے کسی کو پیش کرنے کے لئے دوڑتا لیکن ہانپنے کے سوا کچھ نہ پاتا۔
ایک دن’ ٹھرکی کرو‘ والے معاملے کا نوٹس لے کر صدر شعبہ کلاس میںآ ٹپکے۔

پہلے تو پیش لب قہقہائے پھر زیرلب مسکرائے۔ وہ بھی کمال کے آدمی تھے، با ذوق تو تھے ہی، طنز و مزاح کی بھی ایک بہت بڑی مل کے مالک تھے ۔ خلاف معمول ان کا اپنی کلاس میں آنا کچھ عجیب سا لگاجب کہ یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ’ ٹھرکی کرو‘ ان کے دفتر کے باہر بمع ’مجلس کائیاں‘ پایا گیا تھا۔
انہوں نے آتے ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ آپ کی کلاس میں ایک عظیم ذہن موجود ہے میں اس سے ملنے کے لیے اپنے تمام انتظامی و انصرامی کام چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپکی کلاس کے ایک دانشور نے ایک عظیم کہانی ’ٹھرکی کرو‘ لکھی ہے میں اسے سننا اور اس کا اخلاقی سبق جاننا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ بچپن سے’ تھرسٹی کرو‘ یعنی پیاسا کوا کی کہانی تو سنتے آئے تھے، آج پہلی دفعہ ’ ٹھرکی کرو‘ کے بارے میں سنا ہے ،میں اس کہانی کو اس کے ’بانی‘ کی زبانی سننے کے لیے یہاں بنفس نفیس حاضر ہوا ہوں۔


جب کوئی سامنے نہ آیا تو انہوں نے لیکچر دینا شروع کر دیا ۔ انہوں نے سب سے پہلے تو کچھ زمینی حقائق کے حوالے سے بتایا پھر آزادی اظہارکے موضوع پرآ گئے۔ بعد میں عاقل بالغ کے حقوق پر فلسفہ جھاڑنے لگے۔ کہنے لگے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول نہیں چلے گا، سرمایہ دارانہ نظام میں دام بنائے کام کا طوطی بولتا ہے، یہاں بول کر دکھائے۔ پھر انہوں نے حسد کی بیماری کے روح پر اثرات کی بات کی اور بعد میں اپنی گفتگو کا رخ کنجوسی کے نقصانات کی طرف موڑ دیا۔

ہم جماعت سر جھکائے ‘ نظریں اٹھائے یہ سب سنتے رہے ۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہوش کے ناخن لیں، نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے کا ڈھونگ اب نہیں چلے گا۔
 آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے صرف اعلیٰ تعلیم کے لیے کھولے گئے ہیں؟ کیا ہم پینگیں ڈالنے پر پابندی لگادیں؟ والدین کا ’بوجھ‘ نہ بانٹیں؟ یہاں ہم آپ کی تربیت کے لیے بیٹھے ہیں ، اخلاق باختہ، دنیا دار اور ہتھ چھٹ بنانے کے لئے نہیں ۔

یاد رکھیں ان درس گاہوں سے تربیت لے کر ہی تم نے اس قوم کی ’کمر پہ سوار‘ ہونا ہے۔
بعد میں اپنا لہجہ ذرا نرم کرتے کہنے لگے میں ہمیشہ سے ہی نئی نسل کی استعداد کار کا معترف رہاہوں اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے کہ نابغے یہاں موجود ہیں اب مجھے کسی طرح فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔کاش آج آپ مجھے ٹھرکی کرو کے مصنف سے ملا دیتے؟
بات کو ختم کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہاں بڑے بڑے ’ ٹھرکی کوے‘ موجود ہیں تم نے تو ایسے ہی ایک معصوم کوے کو بدنام کر دیا ہے۔

کاش تم ان اصل شکاریوں کو پہچان کرانہیں’ ٹھرکی کرو‘ کہہ سکتے؟ یاد رکھیں وادیوں سے چوٹیوں پر چڑھنے والے کسی کو گوارا نہیں ہوتے۔۔۔
یہ تقریرسن کر ایک ہم جماعت نے صرف شعر پڑھنے کی جرات کی
ہمیشہ جھوٹ چھا جاتا ہے سچ پر
دلوں پرتان دی جاتی ہیں راتیں
ہمارا المیہ بس یہی ہے
چھپی رہتی ہیں اندر کی باتیں
بعد میں زمانے نے دیکھا کہ اس ذی روح مگر معصوم مدرس پر بھی اسی طرح کے ٹھرک کا کیچڑ اچھال کر ادارے سے نکال باہر کیا گیا۔

ایک خورد بر د قسم کی خوبرو دوشیزہ سے ’ استادی ‘ دلوانے کے عوض ’بابے کے کڑے کسنے ‘کی کارروائی ڈلوائی گئی۔ اس طرح ’مہا مدرس‘ اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔جب وہ بسترِ مرگ پر پڑا کراہ رہا تھا تو اس کا مشاہرہ بند کر دیا گیا تاکہ وہ اب جی نہ سکے۔ اسی کی ایک شاگردہ کو اٹھا کر اس استاد کا باس لگا دیا گیا ۔ان الزامات و انتظامات نے اس کی نازک روح کو کچل کے رکھ دیا، بستر مرگ پر وہ کراہتا رہاکوئی بچہ بڑا اس کی مدد کو نہ آیا کہ مہامدرس کو اچھا نہ لگتا۔

بالآخر وہ بوڑھا ان کچوکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلے اپنی ٹانگ سے ہاتھ ہو جاتا ہے پھر جان کی بازی ہار گیا۔
سنا ہے آخری دنوں میں وہ یہ شعر گنگناتا رہتا تھا۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
جب ان کو زبان ملی ہمیں پر برس پڑے
لوگ کہتے ہیں کہ اس بوڑھے مدرس پر ٹھرکی ہونے کے تیر برسانے والا خو د ’ کنگ ٹھرکی کر و ‘ تھا۔

جس کے کئی روپ تھے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا تھا۔ وہ بھیڑیا لاقانونیت کے جنگل میں دندناتا پھرتا رہا۔مصنوعی آنکھوں نے زمانے بھر کو دکھایا کہ ’مہا کلاکار ٹھر کی کنگ کوا ‘ ہاتھ باندھے نظام عدل کی غلام گردشوں میں کاں کاں کرتاپایا گیا۔ انسداد ی اداروں کو مطلوب یہ ٹھرکی شخص جعلی اور اعزازی’ پرچیاں ‘ بانٹنے کاطوق گلے میں ڈالے قاضی القضیٰ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔

اس طرح کے کئی گھس بیٹھئے کردار اور بھی ہیں جو نشہ و مستی میں مدہوش ہمارے مستقبل کا سوداکر چکے۔کاش قوم جاگے انہیں پہچانے۔
جب آپ ٹھرکی کووں کوشجرعلم کی نازک شاخ پر بٹھائیں گے تو یہ بیچاری جھک جائے گی۔اب تو یہ گلشن علمی پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں ، مداری بنے تماشا لگائے ہوئے ہیں۔کاروبارعلم ہی ان کا شیوہ ہے۔اصل مالی بیچارے تو باہر ہیں، بلبل ایسے ہی تو نالے نہیں کرلاتی ناں۔

انکے فارغ فکرگریز ہی نکلتے ہیں۔
ایک ادارہ انسدادکے رئیس نے سرمحفل یہاں تک بتایا کہ مجرمانہ ماضی رکھنے والا بہروپیا نما مہا مدرس خلاصی مقدمات کے لئے ’کسی بھی حد تک‘ جانے کے لئے تیار تھا۔ مجھے لگا کہ ایسا شخص جو میلا کچیلا ماضی رکھتا ہو اسے مہا مدرس کیوں بنایا اور پھر اس نے کیا کیا گل نہیں کھلائے، کیسے اپنے اعلیٰ مقام کو اپنے ٹھرک کے لیے دھرتی پہ دے مارا۔


جب یہ ماجرا استاد محترم کو سنایا تو بابا جی ْْیہ سب سن کر قہقہہ لگا کرغمگین لہجے میں کہنے لگے کہ تم نے تب دلیری کی تھی، آج اتنی جرات کہاں۔ سب ان کووں کو دانہ ڈالتے ہیں ان کے کا لے کرتوت نہیں دیکھتے۔ کہنے لگے کہ جوانی میں آپ کی غیرت خوب جاگتی ہے پھر ساری عمر سوئی رہتی ہے۔ جگائے بھی نہیں جاگتی۔آہ! جب کوئی مدرس ہی ایسا ہو توغیرت کا جنازہ دھوم دھام سے ہی نکلتا ہے۔


یہاں جان بوجھ کر ٹھرکی کلچرکو پروان چڑھایا گیا ہے جس قوم کی ابتدا اقرا ء سے ہوئی تھی آج ’اقرار‘ پہ منتج ہوتی دکھائی دیتی ہے، بوس و کنار ہی کل کائنات ٹھہرے۔جہاں تحقیق نہ ہو بھونڈی تفریح ضرور ہوتی ہے۔تربیت غائب ہو تو لب و رخسار حاضر رہتے ہیں، رسیدیں دکھاؤ، سندیں پاؤ۔رخ زیبا،مرادیں ڈھیر۔سب دھندہ ہے بھائی دھندہ‘ باقی ہم بیوپاری، سب تماشائی ۔

فارغ التحصیل آخر کریں کیا‘ کبھی سوچا ہے کسی نے؟ نتیجہ جا بجا کوچہ و بازار میں بکتے جسم۔بڑھتے ہوئے ایسے کاروبار۔
 ُپھر آہ بھر کر کہنے لگے کی آج ان جنسی سوروں کو ٹھرکی کوے کہنے والا بھی کوئی نہیں، جو آپ کے وسائل پر پلتے اوردندناتے پھر تے ہیں ۔ غیرت رکھنے والا کیدو کب کا مر چکا‘ جو روکتا ٹوکتا تھا۔ہائے آپ نے پہلے اسے ولن بنایا پھرجان سے ہی مار دیا۔

تقسیم کے بعدہماری یہ’ آزادی‘ ہی سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ ان کالے کووں نے کئی کوئلیں پھانسیں ، کئی کونپلیں مسلیں اور کتنی ہی تتلیوں کو مسخ ڈالا۔درس گاہوں کوترس گاہیں اور تربیت گاہوں کو ترت مراد گاہیں بنا دیا۔جو عالمی پیمانے پر نیچے سے اوپر ہیں۔ہم سب غافل اور قوم اپاہج۔
پھر محظوظ ہو کر کہنے لگے کہ دونوں کہانیوں میں ایک چیز قدرے مشترک ہے کہ ’ تھرسٹی کرو‘ میں کوا بہت عقل مند تھا اور اس کہانی ’ ٹھرکی کرو‘ میں بھی ہیرو بہت چوکنا لگتا ہے۔

اس نے آپ کی طرح قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا ۔اس نے سرمایے کا سہار ا ضرور لیا اور یہ دونوں ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ تم نے صرف کیدو کا کردارنبھانے کی بھونڈی کوشش کی اس نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ آپ کا شکوہ ہے کہ دیکھیں جی وہ ہمارے یاروں کو ’مجلس الوؤاں‘ کہتے ہیںآ پ بھی ان کووں کو ’مجلس کائیاں‘کہتے ہیں ، حساب تو دونوں طرف سے برابر ہی ہے۔

عجیب بات ہے مغرب میں جوالو عقل کی علامت ہے یہاں بیوقوفی کا استعارہ ہے۔ پھر گویا ہوئے وارث شاہ نے ہیر اس لیے نہیں لکھی تھی کہ آپ لب و رخسار کے کھیل کھیلیں۔ اس کے پیچھے تو ایک بہت بڑا پیغام تھا، تاریخ تھی، تہذیب تھی، تمدن تھا ، درویشی تھی ، فقیری تھی، فلسفہ تھا اور بہت کچھ تھا جسے تم نے اسے صرف ٹھرک سمجھا ہے۔
ٹھرکی میں بھی ہوں، ٹھرکی تم بھی ہو۔

سچ پوچھو توسارا جگ ہی ٹھرکی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے۔ یہ دنیا ہی ٹھرک گاہ ہے۔ٹھرک ایک آفاقی تحفہ ہے، یہ درویشوں کا شیوہ ہے، اسے برا مت سمجھیں، گڈمڈ نہ کریں‘ یہ مجاز بھی ہے حقیقت بھی۔ پریم کی چاٹ چکھے سوا چارا نہیں۔کبھی یہ صرف شہزادے شہزادیوں کا کھیل ہوا کرتاتھا یا یار رانجھن، روڈے اس آگ کے کھیل میں کودا کرتے تھے، بارہ بارہ برہے بیت جاتے، وہ نواب اس کیلئے ڈنگروں کے ساتھ ڈنگر بنے رہتے، بظاہر ’نیچ‘ کے لئے ناچتے تڑپتے، قبولے کی قیدکاٹتے مگر پیچھے نہ ہٹتے‘ تخت ہزارے نہ لوٹتے۔

دہ دلوں کے کھلاڑی تھے ہم جسموں کے دلال بس۔انا مارنے کا نام ہی سچاٹھرک ہے باقی سب ڈھکوسلہ بس۔۔۔
 ٓخانی خان نوام داعشق غالب
ایتھے زور نہ چلداہِک دا ای
جدوں وانگ زولیخہ دے آہ بھریے
یوسف آپ آکے مصر وکدا ای
آخر میں گویا ہوئے آپ نے ایک ’جمالی ٹھرکی کرو‘ کی بات تو کی ہے جو دوسروں کے جسم پر نظریں گاڑے رکھتے ہیں، ’جلالی ٹھرکی کرو‘ کی بالکل نہیں کی جو اکیلے کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، نوچنا تو دور کی بات ہے۔

’ خفی‘ کی بھی نہیں کی، بقول شخصے، جو ہم سب ہیں۔ ان’ مالی ٹھرکی کووں‘ کے بارے بھی نہیں بتایا کہ جو آپ کا نوالہ نگل گئے ہیں اور ان ’ قومی کووں‘ کو بھی نہیں چھیڑا جو ہر جگہ آلنہ ڈالے بیٹھے ہیں اور تاڑ لگائے رہتے ہیں کہ کب کوئی تتلی نکلے یا کوئل کوکے تاکہ وہ اسے ترت پا سکیں۔ ’بین الاقوامی ٹھرکی کرو‘ بھی ہیں جو کہ آپ کے ملک کا تیہ پانچہ کرتے ہیں۔

تلیئر پکڑنے آنے والے معزز مہمان بھی ٹھرکی کرو ہی ہیں جن کی ’میزبانی‘ آپ فخرسمجھتے ہیں۔ الغرض یہ سب جعلی بھونڈ ہیں جو کبھی بھانڈ بن کر اور کبھی بگلے بن کر شکار کو دبوچتے ہیں‘ من مرادیں پاتے ہیں۔
میرے نوجوان! آج کمی صرف اس سوچ کی ہے جو آپ نے اپنے زمانہ طالب علمی میں سوچی تھی کہ جس طاقتورسہگل کو آپ روک نہیں سکے تھے اس کے خلاف آ پ نے ’ٹھرکی کرو، ٹھرکی کرو‘ کہنے کی ایک مہم چلائی تھی۔

اسی طرح کی کئی مہمیں اب ان سب ٹھرکی کووں کے خلاف چلانے کی ضرورت ہے، جنہوں نے اس گلشن کے پلے کچھ نہیں چھوڑا، جن کو اقبال اپنا شاہین سمجھتے تھے‘ جنہوں نے درس گاہوں کو ٹھر ک گاہیں بنا دیا، جنہوں نے ہمیں کنگلا کر دیا، وہ خواب ہی غلط کر دیا جو آباء نے دیکھا تھا، جواس ’دکھی درخت‘ کی ہر شاخ پہ گھس بیٹھے ہیں جسے ہمارے بڑوں نے اپنے خون سے سینچا تھا، الو بیچارے تو بس بدنام ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :