جب افسران کا واحد مقصد گریڈ 22 ہو

بدھ 24 نومبر 2021

Javed Iqbal

جاوید اقبال

عجیب بات یہ ہے کہ چونکہ موجودہ حکومت سول سروس ریفارمز پر اپنی میراتھن کو ختم نہیں کر سکی، اس لیے نااہل افسران ترقیوں کے لیے سیاسی سیڑھی کی تلاش میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
 افسران کی گریڈ 22 میں ترقی کے لیے اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کا اجلاس آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے تاکہ گریڈ 21 کے افسران کو اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی دی جا سکے۔


 واضح رہے کہ عشرت حسین کمیٹی انتہائی ضروری بیوروکریٹک اصلاحات متعارف کرانے کے لیے بنائی گئی تھی کیوں کہ وزیر اعظم عمران خان نے ریاستی کاروبار کو ہموار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  لیکن، حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سول سروس کے پرانے نظام کی اصلاح کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔  مزید برآں، یہ حکومت پہلے ہی ان لوگوں پر بھی مراعات اور الاؤنسز کی شکل میں اربوں کی بارش کر چکی ہے جو نااہل سرکاری افسران ہیں۔

(جاری ہے)

  وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے کسی بھی غیر قانونی حکم پر عمل کرنے کے لیے ہما وقت تیار رہتے ہیں۔
 گریڈ 21 کے ترقی کے خواہشمند افسران مختلف کیڈرز کے ہیں جن میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS)، پولیس سروس آف پاکستان (PSP) اور دیگر مختلف گروپس شامل ہیں۔  گریڑ 22 چونکہ صوابدیدی معاملہ ہے اور ماضی میں اکثر نااہل افسران کو نوازا گیا جیسا کہ
  سابق وزیر اعظم کی اس وقت کی پرنسپل سیکرٹری محترمہ نرگس سیٹھی کو 2009 میں BS-22 میں ترقی دی گئی۔

  اس معاملے کو متاثرہ افسران نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔  عدالت نے قرار دیا کہ کسی افسر کو BS-22 میں ترقی دینے سے پہلے BS-21 میں دو سال کی سروس  لازمی ہے اور اس کی پروموشن منسوخ کر دی گئی۔
 اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں جس کی مدد ان کے پرنسپل سیکرٹری اور وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ جناب ارباب شہزاد کے ساتھ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکرٹری کیبنٹ ممبران کے طور پر کرتے ہیں۔

  ان میں سے کسی کو ان افسران کے بارے میں کوئی زیادہ اندازہ نہیں ہے جو صوبہ پنجاب میں کام کر رہے تھے کیونکہ اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کے کسی بھی رکن نے گزشتہ دہائی کے دوران پنجاب میں خدمات انجام نہیں دیں۔  اس سے حکمران جماعت کے ارکان کے ساتھ ذاتی سیاسی روابط یا محض قیاس آرائیوں پر مبنی  فیصلے کرنے کی ایک بڑی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔  
سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر اعجاز منیر جنہوں نے صوبہ پنجاب میں کافی وقت تک مختلف عہدوں پر کام کیا جس میں سیکرٹری سروسز بھی شامل ہیں، افسران کی کارکردگی اور ساکھ سے بخوبی واقف ہوتے تھے۔

  موجودہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ BS-21 کے پنجابی بیوروکریٹس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے کیونکہ ان کا گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پنجاب میں ایک چھوٹا سا دور رہا ہے۔
 بورڈ کی آخری میٹنگ اکتوبر 2020 میں ہوئی تھی اور اگلے کی توقع اپریل 2021 میں تھی۔ عام طور پر ایک سال میں اس طرح کی دو بورڈ میٹنگز ہوتی ہیں۔  تاہم، عدم دلچسپی کی وجہ سے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔

  اس کے بعد سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS) کے BS-22 کے 13 سے زائد بیوروکریٹس ریٹائر ہو چکے ہیں۔  اور  BS-21 کے کچھ منظور نظر  BS-22 کے عہدوں پر فائز ہیں۔
 فی الحال ایسے افسران کی ترقی کو روکنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے جو بصورت دیگر قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔  بطور وفاقی سیکرٹری اور آئی جی پی یا اس طرح کے دیگر من پسند عہدوں پر گریڈ 22 کے عہدے پر ترقی بنیادی طور پر وزیر اعظم کی صوابدید ہے اور اعلیٰ اختیاراتی بورڈ کے پاس ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کوئی معروضی معیار نہیں ہے۔


ایک سینئر افسر نے کہا جو گریڈ 22 کی دوڑ میں بھی شامل ہیں۔ "ایسے افسران جنہوں نے اپنے پورے سروس کیرئیر کے دوران کچھ نہیں کیا  وہ یقیناً گریڈ 22 حاصل کریں گے کیونکہ  ان کے پس پردہ روابط اور سیاسی قیادت سے  مراسم  ہیں۔
 پی ٹی آئی حکومت نے ان لوگوں کو گھر بھیجنے کے لیے ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ پالیسی متعارف کرائی تھی جو بیس سال کی سروس کے دوران ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

  ان کی تعداد ان افسروں کی کل تعداد کے مقابلے میں کافی نمایاں ہے جنہیں ان کے سست رویے کی وجہ سے برطرف کیا جانا چاہیے۔
 ایک دہائی سے زائد عرصے تک بیوروکریسی پر خصوصی نامہ نگار کی حیثیت سے میرے سروے نے ایک مختلف کہانی پیش کی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سروس کے 90% سرکاری ملازمین صرف سنیارٹی کی بنیاد پر ترقیاں حاصل کر تے ہیں کیونکہ کارکردگی کو جانچنے کے لیے کوئی معروضی معیار ہی موجود نہیں ہے۔


 پنجاب میں خدمات انجام دینے والے امیدواروں میں سے کچھ اچھی شہرت نہیں  رکھتےبلکہ ایک انتہائی مایوس کن کہانی کی عکاسی کرتے ہیں۔
 اس غریب قوم کے لیے انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ گریڈ 21 کی پی اے ایس افسر عنبرین رضا، جو صوبے کے سب سے زیادہ سست افسران میں سے ایک ہیں، بھی وفاقی سیکرٹری کے طور پر  گریڈ 22 میں ترقی کی مضبوط امیدوار ہے۔

  ایک سابق چیف سیکرٹری، جو ایف پی ایس سی میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نے ایک بار کہا تھا کہ عنبرین رضا 100 ملین کا ایک چھوٹا سا بجٹ بھی استعمال نہیں کر سکیں۔  وہ ایم ڈی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے طور پر بھی تعینات رہیں لیکن غریب اور نادار بچوں کو سکول کی تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اصلاحات متعارف کرانے میں بری طرح ناکام رہی۔

  بعد میں، انہیں سیاسی اشرافیہ کے ساتھ روابط کی وجہ سے سکریٹری کے طور پر سکول ایجوکیشن جیسے بڑے محکمے میں ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ کچھ بھی مثبت پیش رفت کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔  چیئرمین ایف پی ایس سی جناب زاہد سعید بھی ایسے سست افسران کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے پنجاب میں اعلیٰ ترین عہدے پر خدمات انجام دیں ہیں ۔


 کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک اور افسر مسز ارم بخاری نے بھی صوبہ پنجاب میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری  سمیت مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔  پنجاب حکومت کو ان کی نااہلی، مایوس کن کارکردگی اور سست روی کے باعث  اے سی ایس کے اعلیٰ انتظامی عہدے سے ہٹانا پڑا۔  سنٹرل سلیکشن بورڈ کی متفقہ رائے سے انہیں گریڈ 21 میں ترقی دینے کے لیے رد بھی کر دیا گیا تھا۔

  اسے حال ہی میں پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے حوالے کیا ہے۔  وہ بھی  گریڈ 22 کے لیے  کوشاں ہیں۔
 گریڈ 21 کے ایک اور افسر مومن علی آغا نے بھی پنجاب میں مختلف عہدوں پر "خدمات" انجام دیں لیکن وہ اپنی نااہلی، سست طبیعت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اچھی شہرت حاصل نہ کر سکے۔  انہوں نے ایچ ای ڈی، صحت، اطلاعات اور آخر میں  ہوم ڑیپارٹمنٹ کے محکموں کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔

  ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ وہ وہاں ڈیلیور نہیں کر سکے  بلکہ اس نے جیلوں، پیرول وغیرہ میں محکمے کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات کو سست کر دیا۔ پنجاب حکومت کو انہیں انتہائی حساس دفتر (ہوم) سے ہٹا کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے کرنا پڑا۔  سول سیکرٹریٹ میں ان کی واحد خصوصیت مشہور تھی کہ وہ پنجاب کے ایک سابق اعلیٰ افسر کا ’خاص آدمی‘ تھا۔

داخلی معاملات کو سنبھالنے کے لیے ان کے وژن کی کمی کی وجہ سے، ٹی ایل پی اور دیگر بنیاد پرست گروپ مافیاز کے طور پر ابھرے جو انتہا پسندی کو بلیک میلنگ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔  اس نے بہت ہوشیاری سے سارا ملبہ پولیس پر ڈال دیا جس کا پالیسی سازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 ڈاکٹر عصمت طاہرہ، PAS گریڈ 21 کی ایک اور افسر، جو اس وقت BISP میں خدمات انجام دے رہی ہیں، ان کی ٹوپی میں بھی کوئی پنکھ نہیں ہے۔

  وہ مختلف عہدوں پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں لیکن اپنی ساکھ کے مطابق ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں۔  وہ اپنی نااہلی اور عوامی معاملات میں عدم دلچسپی کی وجہ سے  ڈی سی یا کمشنر کے طور پر تعینات نہیں ہوئیں۔ اس طرح
 طاہر خورشید، گریڈ 21 کے PAS افسر، جنہیں بیوروکریسی میں 'TK' کے نام سے جانا جاتا ہے، نے سیکرٹری C&W، چیئرمین CMIT اور وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری جیسے مختلف عہدوں پر  خدمات انجام دی ہیں لیکن وہ اچھی شہرت سے لطف اندوز نہیں ہو سکے۔

  نیب میں بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے کے باوصف انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔  ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گریڈ 22 کے لیے مضبوط ترین امیدوار ہیں کیونکہ ان کے سیاسی مراسم اور وفاقی سطح پر اعلیٰ بیوروکریسی سے ذاتی روابط ہیں۔
 خبر ہے کہ پی اے ایس کے گریڈ 20 کے افسر ڈاکٹر نوید طویل رخصت پر چلے گئے ہیں۔  ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کو پہلے سپرسیڈ کیا گیا تھا اور وہ گریڈ 21 تک نہیں پہنچ سکے تھے۔

اس کے دوسرے بیچ کے ساتھی پچھلے دو تین سالوں سے پہلے ہی BS-21 میں ترقی حاصل کر چکے ہیں۔
 ایک سابق وفاقی سیکرٹری کا خیال ہے کہ ایسے تمام نا اہل افسران قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔  انہوں نے کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ وہ نہ صرف اچھی تنخواہوں کے ساتھ الاؤنسز، لگژری رہائش اور گاڑیاں رکھتے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہ عوام کے اربوں روپے کا پیسہ جلا کر راکھ کر دیتے ہیں کیونکہ وہ ڈیلیور نہیں کر سکتے۔

  قوم کو ایسے افسران کی کوئی ضرورت نہیں۔  لیکن بلی کو گھنٹی کون باندھے گا؟
 جناب شمائل خواجہ، سابق وفاقی سیکرٹری اور ACS پنجاب بھی ایک ’ریڈ ٹیپسٹ‘ کے طور پر  واضح شہرت رکھتے تھے جنہوں نے بیوروکریسی میں اعلیٰ ترین عہدے تک آسانی سے اپنا راستہ بنایا۔  انہوں نے ایکسائز سیکٹر میں بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی تیز رفتار ترقی کا انتظام کیا۔

  کیپٹن (ر) جاوید اکبر اور دیگر درجنوں افسران کا بھی یہاں حوالہ دیا جا سکتا ہے جو تین سے چار دہائیوں پر محیط اپنے پورے کیرئیر کے دوران وفاقی سیکرٹریز بن گئے۔  پی ایس پی، پاکستان کسٹمز  اور دیگر کیڈرز کا بھی یہی حال ہے۔
 انہوں نے زور دے کر کہا کہ پہلے سول سروس میں اصلاحات کو حتمی شکل دیں۔  حکومت کو ایسے افسران کو برطرف کرنا چاہیے جو سوویت طرز کی مرکزیت اور کنٹرول کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔


 بیوروکریسی میں کچھ قابل اور ایماندار افسران ڈیلیور کرتے ہیں۔  وہ اپنی جان سے کام کرتے ہیں اور حکومت اور ملک کے لیے اچھا نام کماتے ہیں۔  ایسے افسران اکثر نظر انداز ہوتے ہیں اور ان میں روابط نہیں ہوتے یا وہ سیاسی رشوت نہیں دے سکتے۔
 ترقی پانے والے نااہل افسران اس منتر پر یقین رکھتے ہیں "کچھ کرنے سے کچھ نہ کرنا زیادہ محفوظ ہے۔"  ایسے نام نہاد خود ساختہ نعروں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ریاست سے صرف فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں اور بدلے میں کچھ نہیں دیتے۔  نیک نیتی کے نام پر نیب قانون میں ترمیم انہیں مزید تقویت دے گی۔  لوگوں کا اندازہ ہے کہ موجودہ حکومت وفاقی سیکرٹریز جیسے من پسند عہدوں پر افسران کی تعیناتی کے دوران گاجر اور چھڑی کی پالیسی استعمال کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :