’انڈین آرماگیڈن‘

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Javed Iqbal

جاوید اقبال

پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی انڈین سازش بے نقاب ہو گئی ہے۔ایک یورپی یونین کی این جی او ((EU Disinfoنے اپنی رپورٹ انڈین کرونکلز میں کہا کہ کس طرح ہمسایہ ملک ہمیں تباہ کرنے پر تل گیا ہے۔اس نے ایک این جی او سمیت جو 1970 کی دہائی کے آخر میں غیر فعال ہوگئی تھی اسے2005 میں دوبارہ زندہ کر دکھایا تاکہ اپنے مضموم مقاصد پورے کر سکے ۔

سات سو سے زاید جعلی مقامی میڈیا اوٹلٹس بھی انکشاف ہوا ہے جو اس کار قبیح کے لیے استعمال ہوتے تھے ۔رپورٹ پڑھنے کے بعد سب سے زیادہ حیرت اس بات سے ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے ممبران بھی بقاو مال ہیں۔
نواسی صفحات پر محیط رپورٹ کے مطابق کیسے ہندوستانی کرداروں نے اس تنظیم کی شناخت کو اغوا کیا اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔

(جاری ہے)

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ تنظیم کو نہ صرف دوبارہ زندہ کیا گیا ہے بلکہ اس کے سابق چیئرمین اور ''امریکہ میں مشہوربین الاقوامی قانون کے دادا''، لوئس بی سوہن، جو 2006 میں انتقال کر گئے تھے،انکو بھی زندہ کرکے دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکی گئی۔

2007 میں سوہن کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس گلگت بلتستان کے دوست'' منعقدہ واشنگٹن ڈی سی میں شریک دکھایا گیا تھا۔
EU Disinfo کے ایگزیکٹو ڈایرکٹر الیگزینڈر ایلافلپ نے دعوی کیا کہ اس ہندوستانی چال کا مقصد پاکستان کی عالمی برادری میں تضلیل کرنا تھا۔
اس رپورٹ ''جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ پالیسی سازوں کو متاثر کرنے، ہندوستانی اثر و رسوخ کے نیٹ ورک کی تحقیقات کے مطابق بہت سارے یورپی ارکان پارلیمنٹ کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

بعض سے تو اخبارات میں مضامین بھی لکھائے گیے۔ جس طرح کہ فرانسیسی ممبر تھیری ماریانی نے کم از کم دو انڈین کرونکل کے لیے مضمون لکھے اور اسی ممبر نے مقبوضہ کشمیر کا متنازہ دورہ بھی کیا۔اس طرح ایشین نیوز انٹرنیشنل (ANI ) نے اور بھی لوگوں کے نام سے آرٹیکل چھپوائے۔ اس سے لگتا ہے کہ مغرب کے قانون ساز بھی بکتے ہیں اور رقم لے کر ضمیر کا سودا کرتے ہیں
واضح رہے اسی تھنک ٹینک نے ایک سال پہلے بھی اس طرح کی ایک تحقیق کی تھی۔

یہ تحریر زیادہ تر اس ویبسایٹ کے مواد کے ترجمے پر ہی تکیہ کرتی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق اپنی سابقہ تفتیش کے دوران، اس تھنک ٹینک نے کچھ ویب سائٹس، ڈومین ناموں اور اس سے وابستہ ای میل پتوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا جو بعد میں قریب سے دیکھنے کے مستحق تھے۔ پچھلے مہینوں میں، اس نے کافی گہری جستجو کی ہے۔ انکی پندرہ سالہ سٹڈی ٰنڈین اثر و رسوخ کے لیے خفیہ آپریشن کا خلاصہ یہاں پیش خدمت ہے۔


ٓٓ اس رپورٹ کے مطابق سریواستو گروپ( Srivastava Group)کے زیرقیادت او ر ایشین نیوز انٹرنیشنلANI کے ذریعہ اس آپریشن کا آغاز 2005 میں ہوا تھا اور آج تک جاری ہے۔
اس آپریشن کا مقصد ایشیاء خصوصا پاکستان بلکہ چین جن سے ہندوستان کے ساتھ تنازعات میں دونوں قوموں کو بدنام کرنا ہے۔ اس کا طویل مدتی مقصد ہندوستان میں، بھارت نواز اور پاکستان اور چین مخالف جذبات کو تقویت دینا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر، طاقت کو مستحکم کرنے اور ہندوستان کے تاثرات کو بہتر بنانے کے لئے دوسرے ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور بالآخر یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کی حمایت سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے
ایسا کرنے کے لئے اقلیتی اور انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں اور تھنک ٹینکوں کی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے ممبروں اور اقلیتی گروہوں کا ہندوستانی مفادات کے حق میں اور پاکستان و چین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، یورپی اداروں کی طرف سے ادارہ جاتی حمایت کا ایک سراب بھی پیدا کرنا مقصود ہے۔


رپورٹ کے مطابق جنیوا اور اقوام متحدہ کی ’انسانی حقوق کونسل میں ایک فعال موجودگی کے ذریعے اقلیتی حقوق کی حمایت میں مظاہرے کروانا بھی اس کے مشن کا حصہ ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ان این جی اوز کی طرف سے اقوام متحدہ میں خطاب کرنے والے انٹرن طلباء کا پاکستان کے خلاف وسیع استعمال کیا جاتا ہے۔

اس طرح برسلز، جنیوا اور پوری دنیا میں جعلی میڈیا کی تخلیق یا اے این آئی اور مقامی میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعہ کم از کم 97 ممالک میں غلط معلومات کا پھیلاؤ کیا جاتا ہے- رپورٹ میں خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ تنازعات کا شکار ممالک بالخصوص پاکستان کے بارے میں منفی مواد کی تکرار کی جاتی ہے۔
ٓاس اہم کام کے لیے ہندوستانی مافیا نے محض جعلی پتوں کا استعمال کیا ۔

ای پی ٹوڈے اور یورپین کرونیکل کے پیچھے چھپے اداکاروں نے حیران کن طور پر این جی اوز، تھنک ٹینکس، میڈیا، یورپی پارلیمنٹ کے غیر رسمی گروہوں، مذہبی اور دوسری تنظیموں، غیرمعمولی اشاعت کرنے والی کمپنیوں اور عوامی شخصیات کے 550+ ڈومین نام رجسٹر کیے ۔
اس کے علاوہ انڈین ایجینسیاں انہی جعلی اکاونٹس کے ذریعے اور کام بھی کرواتی ہیں جیسے کہ برسلز اور جنیوا میں متعدد مظاہرے،جنیوا میں ''آزاد بلوچستان'' پوسٹروں کی نمائش؛ یورپی پارلیمنٹ کے اندر متعدد واقعات کی تنظیم سازی اور سپورٹ گروپس کی تشکیل؛ یورپی اور بین الاقوامی پالیسی سازی کو متاثر کرنا وغیرہ۔


ٓاس تھنک ٹینک نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کے ممبران کے وفد کے بنگلہ دیش، مالدیپ اور کشمیر کے دوروں کے نتیجے میں برسلز میں کافی تنازعہ بھی پیدا ہوا۔
اس رپورٹ کے بارے اہم بات یہ ہے کہ یہ تحقیقات کسی بھی طرح سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا فیصلہ نہیں کرسکی ہیں، اور نہ ہی اسے دینے کا مقصد پاکستان میں اقلیتوں کی تحریکوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔

ہماری رپورٹ میں محض اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہندوستانی اسٹیک ہولڈرز نے کس طرح ان امور کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ غلط معلومات کے نام کی کوئی اہمیت نہیں ، اور ہم ہندوستانی تاریخ کے ایک اہم اداکار یعنی مادی شرما سے اتفاق کریں گے - جس نے حال ہی میں ٹویٹ کیا کہ آپ کے اخلاقی پٹھے مضبوط ہوتے ہیں جب آپ سفید جھوٹ بولتے ہیں۔


جب میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو میرے رونگٹے کھڑ ے ہو گیے۔میں نے محسوس کیا کہ انڈیا جھوٹ کی منڈی سجاے بیٹھا ہے جبکہ ہم سچ بیچتے ہوے ہچکچاتے ہیں۔میں نے فارن آفس سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن اس رپورٹ کے فائل ہونے تک کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
میں نے بہت سارے لوگوں سے بات کی۔ عجیب بات یہ ہے کہ لوگ اس اہم قومی مسئلے پر بات کرتے ہوے ک ڈرتے ہیں مجھے اس کی سمجھ نہیں لگ سکی۔


سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر نے کہا کہ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں کیونکہ ہم اندرونی طور پر الجھے ہوئے ہیں۔ وزارت خارجہ کو چاہیے کہ کوئی واضح ُپالیسی بنائے۔
نامور وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ پاکستان کو فورا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس طرح نصیر کمبوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس طرح کا کام اگر پاکستانی یا چینیوں نے کیا ہوتا تو مغربی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا۔

چونکہ انڈیا بہت بڑی منڈی ہے لہذہ مغرب اسے نظر اندازنہیں کر سکتا۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ یورپ اور اقوام متحدہ سے احتجاج کرے۔
پاکستانی فارن سروس کے ایک اہم افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حکومت اندرونی خلفشار میں اس قدر الجھی ہوی ہے کہ اسے معلوم ہی نہی کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ اس نے کہا کہ وفاقی ادارے PID میں ایک فارن ڈایرکٹر جنرل ہے اس کا کام اس طرح کے کاموں پر نظر رکھنا ہے۔

لیکن ہمارے ادارے اپنے کام سے غافل دوسرے معاملات میں الجھے ہوے ہیں۔ ہمارے تھنک ٹینک کیا کر رہے ہیں۔ہمارا میڈیا کہاں سویا ہوا ہے۔ اجمل قصاب کیس میں تو یہ بہت پیش پیش تھا آج کیوں خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔
ُُُپروفیسر ڈاکٹر تنویر احمد نے ادارے کا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا کی یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہر ادارہ اپنا کام کرنے کی بجایے دوسروں کا کام کرنا زیادہ پسند کرتا ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ڈیم بنانے نکل پڑے جبکہ عدالتوں کی حقیقت ایک مغربی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ نے واضح کر دی ہے۔ ہمارے ادارے، حکومت، سیاسی قیادت، فارن آفس اور تھنک ٹینک کہاں سو رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کا پاکستان پر ڈس انفارمیشن کا حملہ ہے۔ ہمیں یو این اور عالمی برادری کو باور کروانا چاہیے کہ اگر ہندوستان کو بروقت نہ روکا گیا تو یہ سایبر حملے کسی بڑی آفت کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

پوری دنیا Butterfly effect سے واقف ہے اور جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بھی۔ اس کے تدارک پر بات کرتے ہوے احمد نے کہا کہ ہمیں فی الفور سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قایم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس جنگ کو جیتا جا سکے۔ ابھی ہم نے اس کی شدت ہی محسوس نہیں کی ۔ یہ جنگ سرد جنگ سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر چین ، سعودی عرب اور ترکی سوشل میڈیا کو کنٹرول کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

کیا ہم ملک کے ساتھ مخلص نہیں یا کوئی اور بات ہے کہ ہمیں اپنے ملک کا دفاع کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔سوشل میڈیا کو مونیٹر کرنابہت ضروری ہے۔ آپ صرف قومی شناختی کارڈ پریہ اکاونٹ کھولنے کی شرط لگا دیں۔ہمیں نہ صرف موجودہ صورتحال کا تدارک کرنا ہے بلکہ کاونٹر سٹریٹجی بھی بنانی ہے۔موجودہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف ٰنڈین سازشوں نے ہمیں تنہا کیا ہے بلکہ ہمیں زبردست معاشی نقصان بھی پہنچایا ہے کہ ہم دریاوں کے پانی پر مقدمات ہارے ہیں۔

ہمیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈیا پانی کی طرح پیسہ بہا رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم نہ بنے اور یہ کہ پاکستان ایک روگ ریاست ہے۔
فارن پالیسی ایکسپرٹ قدرت اللہ نے کہا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ساری دنیا میں کام کرنا ہو گا تاکہ انڈین سازشوں کی سرکوبی ہو سکے۔ ہمیں اسرائیلی سکیورٹی ماڈل اپنانا ہو گا اور اس بات کا مطالعہ کرنا ہو گا کہ کیسے ایک چھوٹا سا ملک دنیا کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔


سعودی عرب میں مقیم پاکستانی انجینئر فیصل سلطان نے کہا کہ ہمارے ہاں قومی معاملات پر یکجہتی کا فقدان ہے۔ یہاں سیاستدان اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا مخالف سمجھتے ہیں ۔ اس میں تو دو رائے نہیں کہ فوج کا کام سیاست نہیں سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے لیکن ملکی دفاعی معاملات میں اس کی بات سننی چاہیے۔ DG ISPR اور آرمی چیف نے بجا طور پر ففتھ جنریشن وار کی بات کی ہے اور ساری قوم کو سمجھنا چاہیے کہ یہ بہت بڑی جنگ ہے۔


ہمیں ایٹمی حملے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ان کرداروں کو بے نقاب کریں جنکا کام پراپیگنڈا کا مقابلہ کرنا تھا۔ یورپ اور امریکہ میں موجود سفارتی مشن کیا بانسری بجا کر نیرو بنے بیٹھے ہیں اس بات سے بے خبر کہ روم جل رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی ماننا چاہیے کہ ہماری کئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ ا سرائیل و انڈیا کی طرح ہم بھی ایک ایسی جارحانہ خارجہ پالیسی بنائیں جس پر سب فریق متفق ہوں۔

کسی کو اس کی مخالفت کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ملکی سالمیت،قومی سلامتی اور بقائے باہمی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہم ہندوستان کی کوتاہیاں بجا طور پر دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں ایک ہونا ہو گا۔کاش ہندوستان کو کوئی یہ باور کروا دے کہ اس کی حرکتوں کی وجہ سے ہمالیہ خون کے آنسو رو سکتا ہے اور یہ کہ ابھی آرماگیڈن کا انتظار کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :