ڈبل ٹربل

جمعرات 7 جنوری 2021

Javed Iqbal

جاوید اقبال

ایک میگزین کے سر ورق پر ایک تصویر شائع ہوتی ہے جس میں ایک خاتون اپنی ننگی پشت کو دکھاتی ہوئی دکھائی گئی ہے ، وہ بہت سارے لوگوں کی توجہ حاصل کر لیتی ہے بالخصوص نوجوانوں کی۔اس نے انٹرنیٹ کو توڑکے رکھ دیا ہے۔ یہ خاتون کیم کردشیاں ہے جس نے معاشرے کی کوئی بھلائی نہیں کی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس ا ٹینشن اکانومی میں اس نے اتنی توجہ حاصل کی کہ کروڑوں کلکس ہوئے ۔

لوگوں نے میگزین خریدے ا اورفوربیز نے اس کی اس حرکت کا ایک سال کی انکم کا اندازہ اٹھایئس ملین ڈالر لگایا ہے جو کہ کسی بھی نوبیل پرائز ونر سے بہت زیادہ ہے۔
میں بھی کافی حد تک جدید دنیا کا شہری بن چکا ہوں۔ میں نے غور کیا کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟ اور جو مصنوعی ذہانت کا نظریہ سامنے آیا ہے اس میں سب سے بنیادی عنصر کیا ہے ؟ دنیا میں اربوں ڈالر کی جو ایڈورٹائزنگ کی صنعت ہے اس میں بھی سب سے اہم کردار کس چیز کا ہے؟ کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خریدار بنایا جاتا ہے اور لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکال لیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

روایتی کرنسی کو کس چیز سے بدلا جا رہا ہے اور ہمیں کانوں کان خبر بھی نہیں ہے؟۔ جدید دنیا میں کون سی منڈی سجا دی گئی ہے اور اس میں کس کو بیچا جا رہا ہے جس کا ہمیں معلوم ہی نہیں ہے؟۔یہ کالم ان سوالات کا احاطہ کرے گا۔
تھامس مینڈل نے اپنی کتاب انٹرنیٹ کے اصول میں لکھا تھا کہ جدید دنیا میں کرنسی ختم ہو گی۔ اس طرح مائیکل گولڈہبر نے 1997 میں ایک مضمون میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ انٹرنیٹ کے عام ہونے کے بعد روایتی کرنسی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ کونسی چیز کرنسی کی جگہ لے گی؟
 شروع میں جب انٹرنیٹ کی دنیا بسی تو یہ کہا گیا کہ انٹرنیٹ کی کرنسی انفارمیشن ہے لیکن بعد میں ماہرین اقتصادیات نے اس خیال کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ وہ چیز جو بہت عام ہو جس طرح کہ آج کے دور میں معلومات عام ہیں وہ کرنسی نہیں ہو سکتی۔ اگر انٹرنیٹ کی دنیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں جو سب سے اہم چیز لگتی ہے وہ ہماری توجہ ہے اور اگر یہ کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی مارکیٹ تین بلین لوگوں کے قریب ہے تو ہم اس سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت اور جتنی بھی یہ تیز ی آرہی ہے سب کا مقصد لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہی ہے۔


یہ بھی عین ممکن ہے کہ اربوں ڈالرز کی ایڈورٹائزنگ کی صنعت بھی اپنا وجود کھو دے ۔ مثال کے طور پر شروع میں سب سے زیادہ جاگیروں کی اہمیت ہوتی تھی اس وقت روپیہ کی اتنی اہمیت نہیں تھی لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا جاگیروں کی اہمیت کم ہونا شروع ہوئی کیونکہ دوسری طرف صنعتکاروں کے پاس روپیہ پیسہ آناشروع ہوا تو معاشرتی اسٹیٹس تبدیل ہو گیا اور کرنسی نے اہم مقام بنا لیا۔


مارک مینسن نے تو اپنے مضمون میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مستقبل میں ہماری توجہ کو ہی بیچا جائے گا اور ہمیں اس بات کے بارے میں معلوم بھی نہ ہو گا کہ ہمیں کس طرح سے اس نئی دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے اس نے یہ بھی کہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی ہمیں تبدیل نہیں کر رہی ہے یہ معاشرے کو بدل رہی ہے اور ہمیں تو معلوم ہی نہیں۔ اس نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا ہے کہ اٹینشن اکانومی نے ہمارے وقت کو ایک کموڈٹی بنا دیا ہے اور ہم چیزوں کی طرح بک رہے ہیں اور خریدے جا رہے ہیں ۔

دنیا کی سب سے مہنگی چیز ٹکے ٹوکری کر دی گئی ہے ۔ اسے مصنوعی ذہانت کا معجزہ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
مینسن نے ہتھکنڈے کی طرف اشارہ کر دیا ہے جسے کہ کیم کردشیاں جیسے لوگ کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں اور عزت کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
اب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ ہماری زندگیوں کو بربادکر رہا ہے نئی نسل کو اس نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور لوگ اپنوں سے دور ہو گئے ہیں اور یہ ایک مصنوعی دنیا ہے ،اس میں لوگ احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ بھی تحقیقات سامنے آرہی ہیں کہ جتنے لوگ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم سائٹس جیسے فیس بک ٹوئٹر وغیرہ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں یا پھر اپنا زیادہ تر وقت کس طرح کی سوشل سایٹس پر گزارتے ہیں وہ نہ صرف مایوسی بلکہ ڈپریشن اور تنہائی کا شکار بھی ہوتے ہیں۔


جو غریب ممالک ہیں وہاں پر سب سے اہم مسئلہ خوراک ہوتا ہے اور لوگ سب سے زیادہ خوراک کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں کیونکہ یہ ناپید اور مہنگی ہوتی ہے جبکہ جو امیر ہیں وہاں یہ مسئلہ نہیں ہوتا لہذا دوسرے معاملات یعنی چھٹیاں گزارنے،، ہنی مون اور ایڈونچر کے حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔
 تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک ایسا دور تھا کہ لوگ زیادہ تر شکار کرتے تھے اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ جاگیر داری نظام تھا ، بڑے زمین کے قطعات ہوتے تھے وہ پیداوار دیتے تھے ۔

انڈسٹریلائزیشن ہوئی اور سینکڑوں ملیں لگیں ، زمینوں کی اہمیت کم ہوئی مشینوں اور مزدوروں کی اہمیت بڑھ گی ُپھر خود کار مشینوں سے مزدوروں کی اہمیت بھی کم ہو گئی پھر اتنی زیادہ پیداوار ہوئی کہ چیزوں کو بیچنے کے لیے ایڈورٹائزنگ کی صنعت سامنے آئی۔سرمایہ دار کا پیٹ نہ بھرا تو اس نے عورتوں کے حقوق کی بحث چھیڑ دی اور گھریلو ناچاکیاں شروع ہوئیں اور جنسی صنعت ابھری اور یہ بہت بڑی انڈسٹری بن گئی۔

پھر انفارمیشن کی اتنی بھرمار ہو گئی کیونکہ انٹرنیٹ آگیا لیکن یہ بھی کوئی خاص چیز نہیں رہی، اس کی بھی بہت زیادہ زیادتی ہے اور اب جس چیز کی کمی ہے وہ ہماری ا ٹینشن یعنی توجہ ہے ۔
مینسن کہتا ہے کہ جدید دور کاسرمایہ آپ کی توجہ ہے اور وہ لوگ جو فضول حرکتیں کرکے سلیبریٹی بن جاتے ہیں پھر وہ نائٹ کلبوں میں جاتے ہیں اور ہزاروں ڈالر ٹکٹ دے کر لوگ ان کو دیکھتے ہیں اور جنہوں نے معاشرے میں مثبت تبدیلی کی ہوتی ہے یا محنت کی ہوتی ہے ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جو فضول لوگ ہیں جن کا کوئی کردار نہیں ہے ان کو زیادہ سے زیادہ میڈیا کوریج دیتا ہے کیوں کہ یہ سب کچھ خرید لیتے ہیں اور لوگوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں ۔ یہی لوگ سیاست میں بھی آ جاتے ہیں۔
اٹینشن اکانومی کا جو سب سے بڑا نقصان ہو گاوہ یہ ہے کہ اس سے ہماری توجہ مختلف دلچسپیوں میں بڑھا کر اصل اہداف اوررشتوں سے ہٹائی جا ے گی۔

مذہبی رشتہ کمزور ہو گا اور زندگی کی سب سے اہم چیز یعنی کہ فوکس کرنا ہوتا ہے اب وہ ختم ہو جائے گا۔ مصنوعی ذہانت جدید انسان کو نان ایشوز میں الجھا کر رکھ دے گی اور اسے اس حوالے سے معلوم ہی نہیں ہو گا۔ ران ڈیوڈسن کی کتاب دا فورتھ اکانومی میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اور ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس اٹینشن اکانومی میں سٹار سسٹم کام کرے گا جو ستارے ہیں چاہے وہ فلمی ستارے ہوں یا کوئی دوسرے ستارے وہی توجہ کا مرکز ہوں گے وہی آپ کی جو سب سے اہم چیز ہے یعنی وقت اور توجہ اسے کھا جائیں گے۔

جس طرح کہا جاتا ہے کہ لیڈی ڈیانا جب زندہ تھی تو لوگوں کی توجہ کا مرکز تھیں لیکن جب وہ حادثہ کا شکار ہوئی تواڑھائی بلین لوگوں نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر اس کی آخری رسومات کو دیکھا۔
اب جدید اکانومی میں ہمیں اپنے اصل ہیروز سے دور کیا جاے گا۔ فضول لوگ ، جس طرح کہ ہم میرا جیسی اداکاراؤں کو دیکھتے ہیں جو توجہ حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہیں، آگے آیئں گے۔

جبکہ نامور ایٹمی ساینسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ ہمیں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہماری جو بہت ہی اہم کرنسی ہے یعنی جو ہماری ا ٹینشن ہے یہ لوگ لے جائیں گے اور ہمارا جو سب سے قیمتی سرمایا ہے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ مصنوعی ذہانت جیسے ٹول نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی اپنے جال میں پھانس لیں گے۔ توجہ صرف وہاں دیں جہاں اس کی بہت ضرورت ہے جدید اکانومی میں یہی آپ کی کرنسی ہے۔وگرنہ آپ نفسیاتی طور پر دیوالیہ ہو سکتے ہیں، احساس کمتری یا ڈپریشن آپ کا مقدر ہو سکتے ہیں۔ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی نئی نسل کو اس جدید کرنسی کے نقصان کے حوالے سے آگاہ کرناہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :