
جرم جرم ہے ڈاکٹر یا مفتی نہیں !
جمعرات 24 جون 2021

کوثر عباس
(جاری ہے)
دور نہ جائیں لاہور مدرسہ واقعہ ہی دیکھ لیں ۔یہ جرم نہ تو پہلی بار کرہ ارض پر واقع ہوا ہے اور نہ ہی صرف مدارس میں ہوتا آیا ہے ۔باقی جرائم کی طرح یہ بھی ایک جرم ہی تھا جس مجرم کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن چونکہ یہ جرم مدرسے والے مفتی سے واقع ہواتھا لہذا میرے ملک کے پڑھے لکھے سیکولر اور لبرل طبقے نے اس جرم کو نہ صرف” مفتی “بلکہ ” مدرسے والا“ بھی بنا دیا حالانکہ مدرسہ صرف اس جرم کا محل وقوع تھا ۔اس حوالے سے ریسرچ کرنے بیٹھا تو میرے سامنے ایک لمبی فہرست کھل گئی جس کے مطابق کسی ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر ، کسی یونیورسٹی میں کوئی پروفسیریاکسی ادارے میں کوئی اعلیٰ افسر سنگین جرائم میں ملوث ہے لیکن آج تک کسی طرف سے ان کے پورے محکمے نہ گالی دی گئی اور نہ ہی یہ مطالبہ کیا گیا کہ متعلقہ ادارے ،یونیورسٹی یا ہسپتال کو گرا دیا جائے اور نہ ہی کہیں سننے میں آیا کہ یہ ادارے برائی کے اڈے ہیں ۔بس اتنا کیا جاتا ہے کہ انکوائری ہوتی ہے یا کیس عدالت میں چلا جاتا ہے اور فیصلہ آنے تک متعلقہ انسان کو ملزم کہا جاتا ہے۔ لیکن لاہورمدرسہ کیس کا معاملہ ہوتو ملزم ، ملزم نہیں بلکہ مجرم اور جرم جرم نہیں بلکہ مفتی کیوں بن جاتا ہے؟ یہ کیوں کہا جانے لگتا ہے کہ مدرسے برائی کے اڈے ہیں ؟یہ مطالبہ کیوں ہونے لگتا ہے کہ مدارس کو گرا دیا جائے؟مدارس کے معاملے میں اصول ضابطے الٹا کیوں دیے جاتے ہیں؟
میرے سامنے یونیسف کی ایک پانچ سالہ رپورٹ ہے جس کے مطابق اپنی مانوس جگہوں پر 2391 ، سکول میں 78، ہوٹلوں میں 56، میڈیکل کیمپوں میں 23، مختلف دکانوں میں 73جبکہ مساجد میں 117 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے ۔کیا کسی صحافی ، لبرل یا سیکولر نے یہ مہم چلائی کہ یہ جگہیں برائی کا اڈا ہیں لہذا انہیں گرا دیا جائے ؟لہذا جس طرح باقی جگہوں کو صرف وکٹم پلیس کہا جاتا ہے اور انہیں برائی کا اڈا کہہ کر گرانے کی بات نہیں کی جاتی بالکل اسی طرح مسجد اور مدرسے کو برائی کا اڈا کہا جائے اور نہ ہی اسے گرانے کی بات کی جائے۔اب اسی ادارے کی ایک اور رپورٹ کو دوسرے تناظر میں دیکھتے ہیں جس کے مطابق صرف 2007 سے لے کر 2011 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں میں جان پہچان والے افراد کی تعداد 16219 ، اجنبیوں کی تعداد 4311 ، ہمسایوں کی تعداد 955، رشتہ داروں کی تعداد 781، پولیس کی تعداد 204، اساتذہ کی تعداد 145 ، دکانداروں کی تعداد 28، ڈاکٹروں کی تعداد 7 جبکہ مولویوں کی تعداد152تھی۔کیا کسی نے یہ مطالبہ کیا کہ ان افراد کے محکمے اور پیشے بھی اس جرم کے ذمہ دار ہیں؟اگر نہیں تو پھرایک مولوی بیچارہ جرم کرے تو تمام مولوی مجرم کیوں گردانے جاتے ہیں ،تمام مدارس کو برائی کااڈے کیونکر بن جاتے ہیں؟باقیوں کا جرم صرف جرم لیکن ان کا جرم مولوی اور مفتی کیوں بن جاتا ہے؟
باردیگر عرض کرتا چلوں کہ میں لاہور مدرسے میں ہونے والے جرم کی تائید کررہا ہوں اور نہ دفاع بلکہ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی جرم کو کسی ذات ، پیسے ، جگہ یا ادارے کے ساتھ وابستہ کر کے اس پورے ادارے ، ذات یا پیشے کو بدنام نہ کیا جائے ۔مجرم کو صرف مجرم ہی رہنا دیا جائے جو ہر ملک ، مذہب ، پیشے اور ادارے کا قانون بھی ہے اور اصول بھی ۔صرف اسلام دشمنی میں اس آفاقی اصول کو الٹا کر ”ڈونیٹرز“ کو خوش کرنے کی بجائے اپنی دانش و علم کی قلعہ کھلنے سے بچائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.