جرم جرم ہے ڈاکٹر یا مفتی نہیں !

جمعرات 24 جون 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لیں چونکہ کسی بھی جرم کا دفاع خود اعانت جرم ہے ، لہذا میں شروع میں ہی اس سے برات کا اظہار کرتا ہوں۔اس اعلان کے بعد پہلی بات یہ ہے کہ جرم کی کوئی ذات نہیں ہوتی ۔جرم صرف جرم ہوتا ہے وہ سید ، قریشی ، ہاشمی ، ملک ، آرائیں ، جٹ ، بش یا تنولی وغیرہ نہیں ہوتا ۔دوسری بات یہ کہ جرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔

جرم صرف جرم ہی ہوتا ہے وہ مسلمان ، عیسائی ، ہندو ، یہودی یا سکھ وغیرہ نہیں ہوتا۔تیسری بات یہ کہ جرم کا کوئی پروفیشن نہیں ہوتا۔جرم بس جرم ہی ہوتا ہے اسے ڈاکٹر ، پروفیسر ، استاذ، وکیل یا مفتی نہیں کہا جا سکتا۔ فرض کریں کہ بش یا گورایہ خاندان کا کوئی فرد کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ جرم صرف اسی انسان کا ہوگا یا اس پورے خاندان کا؟کیا محض اس فرد کے جرم کی بنا پر اس ذات کے بقیہ افراد کو مجرم کہنا درست ہے؟کیا دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس فرد کے جرم کی وجہ سے اس کی پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے؟اگر کسی عیسائی یا مسلمان سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو کیا یہ انصاف ہے کہ اس وجہ سے سب مسلمانوں اور عیسائیوں کو مجرم ٹھہرا دیا جائے؟اگر کوئی ڈاکٹر ، پروفیسر یا وکیل جانے انجانے میں کوئی جرم کر بیٹھتا ہے تو دنیا کو کون سا عقلمند انسان اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس ملک کے تمام ڈاکٹروں ، وکیلوں اور پروفیسروں کو سولی پر چڑھا دیا جائے؟اگر کسی ہسپتال میں کوئی بدفطرت شخص کسی جرم میں ملوث ہو جائے تو کیا اس ہسپتال کو گرا دینا چاہیے؟بالکل نہیں !۔

(جاری ہے)

ایسا نہ آج تک ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔جرم کو کسی بھی ذات ، پیشے ، مذہب یاعمارت سے منسوب کرنے کی بجائے صرف اسی شخص سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن میرے ملک کا لبرل اور سیکولر طبقہ اس وقت اس آفاقی اصول کو بھول جاتا ہے جب جرم کسی مولوی سے سرزد ہو اور ”وکٹم پلیس“ مدرسہ یا مسجد ہو۔
دور نہ جائیں لاہور مدرسہ واقعہ ہی دیکھ لیں ۔یہ جرم نہ تو پہلی بار کرہ ارض پر واقع ہوا ہے اور نہ ہی صرف مدارس میں ہوتا آیا ہے ۔

باقی جرائم کی طرح یہ بھی ایک جرم ہی تھا جس مجرم کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن چونکہ یہ جرم مدرسے والے مفتی سے واقع ہواتھا لہذا میرے ملک کے پڑھے لکھے سیکولر اور لبرل طبقے نے اس جرم کو نہ صرف” مفتی “بلکہ ” مدرسے والا“ بھی بنا دیا حالانکہ مدرسہ صرف اس جرم کا محل وقوع تھا ۔اس حوالے سے ریسرچ کرنے بیٹھا تو میرے سامنے ایک لمبی فہرست کھل گئی جس کے مطابق کسی ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر ، کسی یونیورسٹی میں کوئی پروفسیریاکسی ادارے میں کوئی اعلیٰ افسر سنگین جرائم میں ملوث ہے لیکن آج تک کسی طرف سے ان کے پورے محکمے نہ گالی دی گئی اور نہ ہی یہ مطالبہ کیا گیا کہ متعلقہ ادارے ،یونیورسٹی یا ہسپتال کو گرا دیا جائے اور نہ ہی کہیں سننے میں آیا کہ یہ ادارے برائی کے اڈے ہیں ۔

بس اتنا کیا جاتا ہے کہ انکوائری ہوتی ہے یا کیس عدالت میں چلا جاتا ہے اور فیصلہ آنے تک متعلقہ انسان کو ملزم کہا جاتا ہے۔ لیکن لاہورمدرسہ کیس کا معاملہ ہوتو ملزم ، ملزم نہیں بلکہ مجرم اور جرم جرم نہیں بلکہ مفتی کیوں بن جاتا ہے؟ یہ کیوں کہا جانے لگتا ہے کہ مدرسے برائی کے اڈے ہیں ؟یہ مطالبہ کیوں ہونے لگتا ہے کہ مدارس کو گرا دیا جائے؟مدارس کے معاملے میں اصول ضابطے الٹا کیوں دیے جاتے ہیں؟
میرے سامنے یونیسف کی ایک پانچ سالہ رپورٹ ہے جس کے مطابق اپنی مانوس جگہوں پر 2391 ، سکول میں 78، ہوٹلوں میں 56، میڈیکل کیمپوں میں 23، مختلف دکانوں میں 73جبکہ مساجد میں 117 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے ۔

کیا کسی صحافی ، لبرل یا سیکولر نے یہ مہم چلائی کہ یہ جگہیں برائی کا اڈا ہیں لہذا انہیں گرا دیا جائے ؟لہذا جس طرح باقی جگہوں کو صرف وکٹم پلیس کہا جاتا ہے اور انہیں برائی کا اڈا کہہ کر گرانے کی بات نہیں کی جاتی بالکل اسی طرح مسجد اور مدرسے کو برائی کا اڈا کہا جائے اور نہ ہی اسے گرانے کی بات کی جائے۔اب اسی ادارے کی ایک اور رپورٹ کو دوسرے تناظر میں دیکھتے ہیں جس کے مطابق صرف 2007 سے لے کر 2011 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں میں جان پہچان والے افراد کی تعداد 16219 ، اجنبیوں کی تعداد 4311 ، ہمسایوں کی تعداد 955، رشتہ داروں کی تعداد 781، پولیس کی تعداد 204، اساتذہ کی تعداد 145 ، دکانداروں کی تعداد 28، ڈاکٹروں کی تعداد 7 جبکہ مولویوں کی تعداد152تھی۔

کیا کسی نے یہ مطالبہ کیا کہ ان افراد کے محکمے اور پیشے بھی اس جرم کے ذمہ دار ہیں؟اگر نہیں تو پھرایک مولوی بیچارہ جرم کرے تو تمام مولوی مجرم کیوں گردانے جاتے ہیں ،تمام مدارس کو برائی کااڈے کیونکر بن جاتے ہیں؟باقیوں کا جرم صرف جرم لیکن ان کا جرم مولوی اور مفتی کیوں بن جاتا ہے؟
باردیگر عرض کرتا چلوں کہ میں لاہور مدرسے میں ہونے والے جرم کی تائید کررہا ہوں اور نہ دفاع بلکہ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی جرم کو کسی ذات ، پیسے ، جگہ یا ادارے کے ساتھ وابستہ کر کے اس پورے ادارے ، ذات یا پیشے کو بدنام نہ کیا جائے ۔

مجرم کو صرف مجرم ہی رہنا دیا جائے جو ہر ملک ، مذہب ، پیشے اور ادارے کا قانون بھی ہے اور اصول بھی ۔صرف اسلام دشمنی میں اس آفاقی اصول کو الٹا کر ”ڈونیٹرز“ کو خوش کرنے کی بجائے اپنی دانش و علم کی قلعہ کھلنے سے بچائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :