عمران خان کو رستہ بتانے والے

ہفتہ 8 مئی 2021

Khalid Farooq

خالد فاروق

عمران خان کی کارکردگی اور اچھائی برائی پہ تبصرہ کرنے سے پہلے ایک واقعہ سنیں۔  خوشاب صوبہ پنجاب کا ایک پسماندہ ضلع ہے۔ خوشاب میں دریا بھی ہے، صحرا بھی ہے، میدان بھی ہیں، پہاڑ بھی ہیں اور دربار بھی ہیں۔ خیر دربار تو ہر جگہ ہی موجود ہیں خواہ آپ ان کو اچھا سمجھتے ہیں یا برا۔ ویسے تو نہ مجھے درباروں سے خدا واسطے کا بیر ہے نہ ہی کوئی خاص وابستگی۔

لیکن ایک دربار پہ مجھے کئی دفعہ جانے کا موقع ملا اور مجھے وہاں جانا اچھا بھی لگا۔ یہ دربار ضلع خوشاب میں صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے جو کہ بھیلم شہید کے دربار سے معروف ہے۔ اس کی کہانی کبھی مناسب موقع ہوا تو آپ کے گوش گزار کروں گا۔ اس دربار پہ جانے کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ میرے ماموں لوگوں کا گھر اس طرف ہے اور دوسری اس دربار پہ لگنے والا سالانہ میلہ۔

(جاری ہے)

آپ کے بھی مشاہدے میں ہو گا کہ درباروں وغیرہ پہ عرسوں یا میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بھیلم شہید کا میلہ ہندی تقویم (کلینڈر) کے مہینے "چیت" (جو کہ تقریباً مارچ اور اپریل میں پڑتا ہے) میں منعقد ہوتا ہے۔ اس میلے پہ کبڈی، نیزہ بازی، بیل دوڑ اور اونٹوں کا ناچ پیش کیا جاتا ہے۔ بھیلم شہید کا دربار میلے کے دنوں میں اونٹوں کی خرید و فروخت کی منڈی کی شکل بھی اختیار کر جاتا ہے۔

دربار کی ایک طرف اونٹوں کی منڈی کےلیے جگہ مخصوص ہے۔ دور و نزدیک کے شتربان اونٹوں کے سودے کےلیے میلے کے دنوں میں یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چیت کے مہینے کے بعد آنے والے بیساکھ کے مہینے کی نسبت سے فصلوں کی کٹائی سے متعلقہ چیزوں ( مثلاً، درانتیاں، بھوسہ اکٹھا کرنے والے پنجے (ٹرینگل)، کھیتی باڑی، شتر بانی اور گلہ بانی کی ضرورت کی باقی اشیاء) کی بھی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ علاقے کے اکثر لوگ میلے میں ضرور شرکت کرتے ہیں اور یہ میلہ تین دنوں کےلیے بچوں، بوڑھوں کی تفریح اور توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ چند سال پہلے میں اپنے چچا زاد بھائی (طاہر بلال) اور ماموں کے ہمراہ میلہ دیکھنے گیا۔ پورا دن میلہ دیکھنے کے بعد جب واپسی کا ارادہ کیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ عام راستہ اختیار نہ کیا جائے کیوں کہ اس پہ رش ہونے کی وجہ سے گرد ہی گرد اڑ رہی تھی۔

ہم نے ایک ذیلی راستے (شارٹ کٹ) سے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ طاہر بلال موٹر سائیکل چلا رہا تھا میں اس کے پیچھے (درمیان میں) بیٹھا تھا اور ماموں میرے پیچھے بیٹھے تھے۔ ماموں بلال کو راستہ بتا رہے تھے۔ مجھے اچانک سے شرارت سوجھی اور میں نے مذاقاً ماموں سے کہا آپ بے فکر بیٹھیں مجھے راستہ معلوم ہے میں بتاتا جاؤں گا۔ ماموں خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔

راستہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔ ایک تو میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ مجھے راستے یاد نہیں رہتے (تمام سرکاری و غیر سرکاری حلقے نوٹ فرما لیں)۔ میرے ساتھ اکثر سلیم کوثر کے محبوب والا معاملہ ہو جاتا ہے کہ میں غلط راستے پہ نکل جاتا ہوں اور آگے جا کر پتا چلتا ہے کہ یہ راستہ کوئی اور ہے۔
وہ لوٹ آئیں تو نہ ٹوکنا بس دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
سلیم کوثر
جب میں نیا نیا شہر سرگودھا جانے لگا تھا تو ایک دن مجھے انبالہ کالج جانا تھا میں کارخانہ بازار کی طرف سے داخل ہوا اور انبالہ کالج والی سڑک پہ جانے کے بجائے گول چکر کاٹ کر بم چوک میں آ نکلا۔

خیر واپس دربار پہ چلتے ہیں۔ جب ہم واپس آ رہے تھے اور جس راستے پہ ہم چل رہے تھے آگے جا کر وہ راستہ ختم ہو گیا اور ہم صحرا کے بیچوں بیچ کھڑے تھے آس پاس کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ نہ آگے جانے کا راستہ نہ واپس مڑنے کا حوصلہ۔
کیسے وقت میں ترک سفر کا خیال ہے
جب مجھ میں لوٹ آنے کا یارا نہیں رہا
پروین شاکر
ماموں اور بلال نے مجھے گھور کر دیکھا اور مرزا غالب کی طرح کہا
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
میری عزت اور حوصلہ افزائی کے بعد ماموں نے کہا کہ اگر موٹر سائیکل کو ریت پہ گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلہ طے کیا جائے تو میرا اندازہ ہے کہ ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پہ ہم ایک نئے راستے تک پہنچ جائیں گے۔


کالم کی دم: عرض یہ ہے کہ عمران خان کو بھی راستہ بتانے والے وہ لوگ ملے ہوئے ہیں جنہیں میری طرح خود بھی راستہ معلوم نہیں۔ اور ہر دل سے یہ آواز نکل رہی ہے
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
شہاب جعفری

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :