حامد میر پر حملہ…چند تلخ سوالات

پیر 28 اپریل 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

اللہ کا شکر ہے کہ جرا ت ،حق گوئی اور اعلی صحافتی اقتدار کی روایات کو پروان چڑھانے والے عظیم صحافیوں میں سرفہرست حامد میر قاتلانہ حملے کے بعد روبصحت ہیں اور آج ان کا بیان بھی سامنے آگیاہے جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کے چیف کا نام نہیں لیاالبتہ دیگر خدشات وہی دھرائے ہیں جو ان کے بھائی عامر میر نے ان پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد اپنے بیان میں کہے تھے۔

حامد میرپر قاتلانہ حملے کے بعد میڈیا، سوشل میڈیا اور علم و ادبی حلقوں میں جاری مباحثوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ واقعے کے بعد کئی حقیقتیں اجاگر ہوگئی ہیں۔ ان میں کچھ خوش کن ہیں کچھ تلخ اور کچھ غور طلب۔ خوش کن اور قابل اطمینان حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ اہل صحافت کی چھ دہائیوں کی جدوجہد مسلسل ثمر آور ہونے لگی ہے اور قوم اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی صحافیوں کو عزت، احترام اور محبت کی نظر سے دیکھا جانے لگاہے اہل صحافت نے یہ مقام پر بیشمار مصائب، قیدو بند اور مالی و جسمانی قربانیوں سے حاصل کیا ہے اور حامد میرنے بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں انہی صحافتی اقدار پر عمل پیراہوکر اس روایت صحافت کو پروان چڑھایا ہے اور کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی آواز بن کر ابھرا ہے۔

(جاری ہے)

اس بات کا ثبوت اس پر قاتلانہ حملے کے بعد کے ردعمل سے عیاں ہے کہ کس طرح پاکستانی قوم کے ہاتھ بلاتقسیم رنگ و نسل اس قلم کے مزدورکی سلامتی اور زندگی کے لیے بلندہوگئے تھے اور اس کی صحت اور تندرستی کے لیے تادم تحریر لبوں پر دعائیں مہک رہی ہیں۔ اس واقعے کے بعد جو تلخ حقیقت اجاگر ہوئی اس کی بہت سے جہتیں ہیں جو ایک مفصل و جامع تحقیقاتی جائزے کی متقاضی ہے ۔

میرے نزدیک اس واقعے کی سب سے پہلی تلخ حقیقت یہ ہے کہ حامد میربلاشبہ پورے پاکستان اور شعبہ صحافت کا سرمایہ افتخار ہے لیکن وہ جیو ٹی وی کا بھی قیمتی اثاثہ ہے جس کی جرات رندانہ نے ادارے کوعوام میں مقبولیت، پذیرائی اور معاشی استحکام دیا۔ اگر حامدمیر اپنی انتظامیہ کو متوقع قاتلانہ حملے اور حملہ کرنے والوں سے متعلق آگاہ کرچکے تھے جس کی تصدق جیو نیوز کرچکاہے تو حامد میر کی زندگی کی حفاظت کی سب سے پہلی ذمہ داری اس ادارے پر عائد ہوتی ہے یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جیو گروپ نے اپنے قیمتی اثاثے کی حفاظت کے خاطر خو اہ انتظامات کیوں نہیں کیے تھے۔

ہم روزمرہ زندگی میں کئی غیر معروف لوگوں کو پولیس گارڈ کے ساتھ آمدورفت کرتے دیکھتے ہیں جبکہ حامد میر تو بین الاقوامی سطح پر معروف شخصیت ہے۔ اس کی حفاظت خصوصاً آمدورفت کے لیے مستقل طور پر پولیس گارڈکا اہتمام کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ بفرض حامدمیر یا جیو گروپ حکومتی مدد نہیں بھی لینا چاہتے تھے تو نجی سیکورٹی کمپنیوں نے بھی ریٹائرڈ آرمی کمانڈروز بھرتی کررکھے ہیں اور اگر رقم خرچ کی جائے تو یہ ادارے سیکورٹی کے لیے مطلوبہ تمام وسائل( افرادی قوت وآلات )فراہم کردیتے ہیں۔

لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ان کی کراچی آمدکے موقع پر سیکورٹی کے موثر انتظامات کیوں نہیں کئے گئے اور انہیں ایئرپورٹ سے لینے کے لیے کرائے کی گاڑی ایک ان ٹرینڈ گارڈ کے ہمراہ روانہ کردی گئی۔ حامدمیر نے جو تکلیف اٹھائی ہے اس کا ایک بڑا سبب جیو گروپ کی مجرمانہ غفلت بھی ہے۔ اس تلخ حقیقت کی دوسری جہت عامر میر کے بیان کو نہایت غیر ذمہ دارانہ انداز سے پیش کرناہے ذرائع ابلاغ میں ٹی وی وہ میڈیا ہے جس کی اثر پزیری کئی گنا زیادہ ہوتی ہے لہذا عامرمیر کے بیان کی کوریج سے پوری دنیا میں یہ تاثر پھیلا کہ خدانخواستہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ اس سطح پر بھی آسکتے ہیں کہ وہ نا پسندگی پرکسی صحافی کو قتل بھی کرواسکتے ہیں۔

اس حوالے سے یہ توجیح پیش کی کہ جن لمحات میں یہ کوریج پیش کی گئی حامد میر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے اورجیو نیوز کے اراکین سخت ذہنی دباؤ میں تھے اس کوریج کے نتیجے میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوگئی ہے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کے باہمی تعصب اورپیشہ ورانہ رقابت کے ”سانپ“بھی بلوں سے نکل آئے اس سلسلے میں سب سے قابل مذمت اور قابل افسوس پہلو بعض ٹی وی چینلز اور اینکر پرسنز کی طرف سے جیو اور حامد میر کو ملک دشمن اور غدار قرار دینا ہے یہ شعبہ صحافت کی بد نصیبی ہے کہ یہ ”عظیم کارنامہ“وہ ”صالحین “ ادا کر رہے ہیں جنہیں نوخیز الیکٹرانک میڈیا انڈسٹریز کے نابالغ پن،قحط الرجال اور کاروبار سبقت کی مکرو خواہشات نے ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر”جلوہ افروز“ کے مواقع فراہم کردیئے ہیں اور وہ شان بے نیازی سے اپنی چرب زبانی،دروغ گوئی اور”فنکارانہ“ صلاحیتوں سے لیس زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایک کہنہ مشق حقیقی صحافی پر حملہ آور ہوگئے ہیں اس مہم میں وہ حسرت اورحسدزدہ وہ غیرصحافی اینکرپرسنز بھی شامل ہیں جنہیں اپنے پیشوں میں جوہر دکھانے کی ہمت تو نہ ہوئی لیکن وہ کیمروں کے سامنے بیٹھ کر ٹی وی جرنلزم اور حامد میر کے صحافتی کیریئر پر ماہرانہ تجزیے پیش کررہے ہیں۔

اس واقعے کا سب سے تشویش ناک پہلو فوج اور ایک میڈیا گروپ کا آمنے سامنے آناہے اس ہنگام میں خواجہ سعد رفیق نے بڑی دانشمندی کی بات کی ہے کہ صحافت ملک کی نظر یاتی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اور فوج جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہوتی ہے دراصل سیکورٹی ادارے اور صحافت کسی بھی ملک کی خوشحال،ترقی اور استحکام کی اساس ہوتے ہیں۔ سیکورٹی اداروں کو ملک کی نظریاتی،جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قوم کا اعتماد اور اعتبار درکارہوتاہے جس کے حصول میں ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادار کرتا ہے اسی طرح اہل صحافت و ادب کی طرف سے قوم کو شعور و آگاہی اوراعلیٰ معاشرتی اقدار کے فروغ کی کوششیں ملک میں امن و امان کے ماحول میں ہی ثمر آور ہوتی ہیں پاکستان کی بہتری کے لیے فوج اور میڈیا کے درمیان احترام ،انڈرسٹینڈنگ اور محبت کا رشتہ ہونا بے حدضروری ہے ملک کی اعلیٰ شخصیات اور مقتدر حلقوں کو اس صورتحال کو سنبھالنا چاہیے اس سلسلے میں سابقہ فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین ایسوسی ایشن ،صحافتی تنظیمیں اے پی این ایس اور سی پی این ای جیسے ادارے اس سلسلے میں نہایت موثر کردار اداکرسکتے ہیں حکومت کوبھی اس حساس صورت حال میں فریقین میں اختلافات اور دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وطن عزیز جن گھمبیر حالات سے دوچار ہے ان پر آشوب حالات میں ملک کے دو اہم اداروں میں دوریاں قومی نقصان کے مترادف ہیں ہماری اولین ترجیح قومی وقار اور استحکام ہونی چاہیے۔ اس واقعے کے بعد یہ غور طلب حقیت سامنے آئی ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی منزل سے کوسوں دور ہے ہر ادارہ حسب توفیق اور حسب استطاعت اپنی قوت کا اظہار کرنے لگا ہے جن ملکوں میں ایسی صورتحال ہوتی ہے وہاں نہ آزادی اظہار رہتاہے نہ حق عزت و احترام! اس ملک کے اہل دانش ،مقتدر شخصیات ،قومی اہمیت کے حامل اداروں اورپارلیمان کو آئین اور قانون کی بالادستی اور عمل درآمد کو یقینی بنانے کے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اسی میں عوام،اداروں اور مملکت کی عزت،توقیر اور فلاح ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :