صومالی قذاق

جمعرات 26 جون 2014

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

8جون2014کوصومالی بحری قزاقوں کا ذکر ایک بار پھر عالمی میڈیا میں ہوا جب ان کی تقریباً چار سالہ قید سے گیارہ افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ان افراد کا تعلق اس ملائشین بحری جہاز ایم وی البیرڈو سے ہے جس کے عملے کو نومبر2010ء میں تاوان کی رقم کے لیے یرغمال بنالیا تھا۔صومالی قزاقوں نے یرغمال بنائے گئے23افراد کی رہائی کے لیے خطیر رقم کی ڈیمانڈ کی لیکن جہاز کی انشورنس نہیں تھی لہٰذا جہاز کے مالک ادارے کی طرف سے عملے کی رہائی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے اس جہاز میں کیپٹن جاوید سلیم سمیت سات پاکستانی بھی شامل تھے۔

معروف سماجی کارکن انصار برنی کی کوششوں سے صومالی قزاقوں سے پاکستانیوں کی رہائی کے لیے گفت و تشنید کا سلسلہ شروع ہوا۔بات اسی لاکھ ڈالر سے شروع ہوکر اٹھائیس لاکھ ڈالر پر ختم ہوئی ۔

(جاری ہے)

یرغمال پاکستانیوں کی رہائی کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی ملک گیر مہم چلائی گئی جس میں ملک ریاض حسین نے تیرہ کروڑ روپے فراہم کیے اور یوں 18ماہ کی تکلیف دہ قید کے بعد پاکستانیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔


صومالی بحری قزاقوں کے حوالے سے کچھ سوالات ان دنوں بھی میرے ذہن میں ابھرتے رہے اور وہی سوال اب اس جہاز کے دیگر عملے کے اراکین کے کامیاب فرار کی خبریں پڑھ کر ابھر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اپنی بے پناہ قوت،ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود صومالی قزاقوں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔امریکی سیارے زمین پر چلتی چیونٹی کو بھی دیکھ لیتے ہیں ، اس کے ڈرون طیارے غاروں میں پناہ گزین افراد کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اور دنیا کے ہر ملک کے پاس جیٹ فائٹرز ہیں تو پھر ان صومالی قزاقوں کو مارنے کی بجائے تاوان کیوں دیا جاتا ہے۔

ان بحری قزاقوں کی تمام شرائط کیوں تسلیم کی جاتی ہیں اور برطانیہ و امریکہ جیسے ممالک اپنے بحری جہازوں کو ان سے کیوں نہیں بچا سکتے۔تحقیق سے معلوم ہواکہ دنیا صرف ہمارے لئے ہی جدید نہیں ہوئی ، صومالی قزاقوں نے بھی ترقی سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور ڈالروں سے اپنی تجوریاں ہی نہیں بھریں ، انتہائی حساس کمیونیکیشن نظام بھی خریدا ہے۔ قزاقوں کے پاس اس وقت جدید ترین سیٹلائیٹ فون، انٹرنیٹ، موبائل، جی پی ایس سسٹم اور بحری جہازوں کیلئے راستوں کی نشاندہی کرنے والا ریڈار نظام بھی ہے۔

قزاقی پر تحقیق کرنے والے ایک برطانوی محقق کے مطابق کچھ قزاقوں نے اپنی کشتیوں پر ایسے ریڈار نظام اور انٹینا نصب کئے ہیں جو سیٹلائٹ نظام اور جنگی جہازوں تک ان کے سگنل کو پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ اپنے شکار کو بہت مہارت اور کامیابی کے ساتھ مطلوبہ علاقے میں لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس وقت بحری قزاقوں کا سب سے بڑا مرکز صومالیہ کی ساحلی پٹی ہے اور اس کی بڑی وجہ ملک میں موٴثر حکومت کا نہ ہونا ہے۔

1991ء سے لے کر آج تک صومالیہ میں کوئی مضبوط اور موٴثر حکومت کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا جس کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے اور مختلف مسلح دھڑوں نے اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کررکھی ہیں۔ عام طو ر پر کہا جا رہا ہے کہ خلیج عدن کا پورا علاقہ ہی قزاقی کی لپیٹ میں ہے اور امریکہ سے آسٹریلیا جانے والا کوئی جہاز بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں لیکن زیادہ ترقزاقوں کا بسیرا صومالیہ کا تین ہزار تین سو تیس کلومیٹر طویل ساحل ہی ہے۔


بحری قزاقوں کی زیادہ تر سرگرمیاں بحیرہ احمر، خلیج عدن، خلیج عمان اور اسی طرح بحیرہ عرب اور صومالیہ کے ساحل کے ساتھ جاری رہیں۔قزاقی کو صومالیہ میں ایک پیشے کی حیثیت حاصل ہے۔ امریکہ نے نوے کی دہائی میں صومالیہ میں جو فوج کشی کی اس کے سبب ہی قزاقی کو عروج حاصل ہوا ہے۔ صومالی قزاقی کی ابتدا بھی امریکہ کی توسیع پسند عزائم کی وجہ سے ہوئی۔

امریکی مداخلت کے نتیجے میں صومالیہ میں 1990 سے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی، جس کے بعد سے سمندر میں صومالی قزاق تجارتی جہازوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ حکومت ختم ہونے کے بعد یورپی بحری جہاز صومالیہ کی ساحل پر تابکار فضلا اور خطرناک مواد ٹھکانے لگانے لگے جس سے علاقہ میں خطرناک بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئیں۔ اس کے علاوہ صومالی پانیوں سے بڑے تجارتی یورپی جہاز کثیر تعداد میں غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے لگے۔

مقامی ماہی گیروں نے تیز رفتار کشتیوں میں ان یورپی جہازوں کا تعاقب شروع کر دیا اور اس طرح قذاقی کی ابتدا ہوئی۔اپریل 2009 میں کچھ سولہ سے انیس سالہ قزاق لڑکوں نے امریکی مال بردار جہاز کے کپتان رچرڈ فلپس کو گرفتار کر لیا۔ امریکی بحریہ کے نشانہ بازوں نے قزاقوں کو قتل کر کے رچرڈ کو چھڑا لیا۔بعدازاں اس وقعے پر ”کیپٹن فلپس“ فلم بھی بنائی گئی جس میں ٹام ہینکس نے مرکزی کردار ادا کیا۔

اس فلم کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی۔ امریکی اخبارات کے مطابق صدر بارک اوبامہ نے اس جھڑپ کی خود نگرانی کی اور اپنے پہلے فوجی امتحان میں سرخرو ہوئے۔مارچ 2011 میں بھارتی بحریہ نے کچھ قیدیوں کو قزاقوں سے چھڑایا۔ مگر 5 پاکستانیوں کو تین ماہ تک بھارت نے ممبئی جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا۔جون 2011ء میں انصار برنی وَقف نے چندا اکٹھا کر کے 2.1 ملین امریکی ڈالر کا تاوان ادا کر کے 22 ملاحوں کو صومالی قزاقوں سے ایک سال کی قید کے بعد چھڑایا۔

ملاحوں میں 11 مصری، 6 بھارتی، 4 پاکستانی، اور 1 سری لنکن شامل تھے مگر تاوان کی رقم صرف پاکستانیوں نے ادا کی۔قزاقوں کے خلاف کاروائیاں بھی کی جاتی ہیں لیکن ان میں کبھی کبھی غلط فہمی بھی ہوجاتی ہے۔ ایک ایسی ہی کارروائی میں صومالیائی ساحل کے قریب ہندوستانی بحریہ نے صومالی قزاقوں کے بجائے تھائی کمپنی کے ایک جہاز کو ڈبو دیا۔
بحری قزاق صدیوں سے سمندروں میں موجود ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں لیکن اکسیویں صدی میں صومالیہ کے قزاقوں نے کروڑوں ڈالر تاوان وصول کرکے اس کام کو ایک انتہائی منافع بخش صنعت کا درجہ دیدیا ہے۔

صومالی قزاق بحری جہاز کو اپنی حدود میں لے جاکر کھڑا کردیتے ہیں اور اس میں سے قیمتی سامان اور عملے کو اپنی کشتوں پر سوار کرکے ساحل پر اپنے ”محفوظ“ ٹھکانے پرقید کرلیتے ہیں کیونکہ ان قیدیوں کے بدلے بھاری تاوان وصول کرناہوتا ہے۔لہٰذا یرغمالیوں کو کئی کئی سال ساحلی جنگلات میں قید رکھاجاتاہے اور اس عرصے میں متعلقین سے تاوان کی رقم پر گفت و شیند کا سلسلہ جاری رہتاہے جب معاملہ طے ہوجاتاہے تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مطلوبہ رقم ڈالر کی صورت قذاقوں کی کشتی میں پھینک دی جاتی ہے اور اس طرح بدنصیب یرغمالیوں کو رہائی نصیب ہوجاتی ہے ایک قابل زکر بات یہ بھی ہے کہ ان قذاقوں کے صدیوں کے کچھ مثبت اصول بھی ہیں یعنی یہ سودے میں دغا بازی نہیں کرتے۔


خلیج عدن اور افریقہ کے ساحلوں پر تو قزاقی عام ہے لیکن اب یہ وبا بحرہند تک پہنچ چکی ہے اور عالمی سمندر میں بھی قزاق جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بحری افواج اپنے مال بردار جہازوں کو تحفظ فراہم کرنے اور قزاقوں کے خلاف کارروائی کیلئے عالمی پانیوں میں متحرک رہتی ہیں لیکن صومالی قزاق پھر بھی باز نہیں آتے۔ صومالی قزاقوں کی یہ سرگرمیاں پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے۔

بحری جہازوں کے مالکان کی ایک بھارتی تنظیم نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صومالی قزاقوں سے مقابلے کے لیے ایک خصوصی فورس قائم کرے۔ایسوسی ایشن نے کہا کہ قزاقی سے بین الاقوامی پیمانے پر جہاز رانی کی صنعت کو انشورنس، تاوان ، جہازوں پر محافظوں کی تعیناتی اور قزاقوں سے بچنے کے لیے طویل راستے اختیار کرنے پر ہر سال تقریباً 9 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔

تنظیم کا کہناہے کہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی فورس کے محافظوں کو تجارتی جہازوں پر تعینات کیا جائے اور انہیں ایسے جہازوں پر چڑھنے کا اختیار حاصل ہو، جس پر یہ شبہ ہوکہ ان میں قزاق موجود ہوسکتے ہیں۔حالیہ دنوں صومالی قزاقوں سے بحری جہازوں کو بچانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں امریکا نے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور کرائی تھی۔

اس کے تحت ان ممالک کو قزاقوں کے خلاف کارروائی کا اختیارحاصل ہوگیا ہیں۔بحری دستوں کی تعنیاتی کے علاوہ قانون سازی کے میدان میں کئے جانے والے اقدامات بھی اہم ہیں۔ اقوام متحدہ کئی قراردادیں منظور کر چکی ہے جن کے ذریعے بحری قزاقی کے مقابلے سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو بہتر کیا گیا ہے۔ اب صومالیہ کے پانیوں میں حتی کہ صومالیہ کی سرزمین پر بحری قزاقوں کو گرفتار کئے جانے کی اجازت ہے جس سے بحری قزاقوں کو گہرا جھٹکا لگ چکا ہے۔

خطرناک سمندری علاقوں میں جنگی بحری جہازوں کی تعیناتی ایک موثر تدبیر ثابت ہوئی ہے بڑی جہاز راں کمپنیوں نے تجارتی جہازوں کے عملوں میں محافظین کو شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔مغربی یورپ کی بڑی بیمہ کمپنیوں نے صومالیہ کے پانیوں میں جہازرانی کی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر بحری بیڑا تشکیل دے رہی ہیں۔ منصوبے کے مطابق خلیج عدن میں تیز رفتار بحری کشتیاں متعین ہوں گی۔

ہر کشتی کا عملہ چار اراکین اور نو مسلح فوجیوں پر مشتمل ہوگا جنہیں بحری قزاقوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا حق ہے۔لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود جب تک صومالیہ خوراک، تعلیم، ذریعہ معاش، اور مستحکم حکومت نہیں ہوگی، پوری دنیا میں سماجی انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہوگی۔ قزاقی یا لوٹ مار کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :