
لمحہ فکریہ
جمعہ 14 دسمبر 2018

خالد محمود فیصل
ارض پاک کا شمار ان خوش قسمت ریاستوں میں ہوتا ہے جسکی غالب آبادی نوجوانان پر مشتمل ہے معاشیات کی زبان میں یہ ایک بڑی وجہ افرادی قوت ہے جو اپنی صلاحیتوں سے قومی ترقی میں اہم کردا ر ادا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ان کی خداداد صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنا ریاست کا کام ہے ۔ظاہر ہے ریاستی اداروں کے ناتواں کندھوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوسکتی ہے کہ وہ اس طبقہ کی قوت کو درست سمت دے کر انہیں جلا بخشے۔
(جاری ہے)
اس امرسے ہمیں مفر نہیں کہ سماج کی یہ بڑی آبادی بھی مسائل سے دوچار ہے انہیں بھی دیگر طبقات کی طرح بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کا سامنا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ حق روزگار سے بھی محروم ہے اگرچہ سرکار نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کی امید دلائی ہے اور اس ضمن میں حکومت کا ہوم ورک جاری بھی ہے البتہ نوجوانان سے وابستہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ انتہائی قابل توجہ ہے ظاہری طور پر تو یہ سطحی ہی محسوس ہوتا ہے مگر اس کے دور رس اثرات معاشرہ پر انتہائی گہرے ہوسکتے ہیں۔
جسکا ادراک کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ہر چند کہ نسل نو اپنے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے سوشل میڈیا سے وابستہ رہتی ہے لیکن انکی تحریروں ، ردعمل سے یوں لگتا ہے کہ کچھ نادیدہ قوتیں انکی ذہن سازی میں مصروف ہیں بلخصوص بلاگرز کی شکل میں انہیں خانوں میں بانٹنے کا فریضہ انجام دیا جارہا ہے اس مقصد کیلئے سیاق و سباق سے ہٹ کر ان حوالہ جات کو زیربحث لایاجارہا ہے جنکا تعلق ہماری قومی تاریخ سے ہے اس کام کو باقاعدگی سے اس طرح انجام دیا جارہا ہے کہ بانی پاکستان تک کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی ۔مطالعہ کتب سے عاری یہ نسل ان کے نام نہاد فرمودات پر” ایمان“ لاکر مزید غلط فہمیاں پھیلانے کی مشق میں مصروف ہے جن کا تاریخ کی حقیقت سے بھی دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اس طرز کے گروہ ہرسو سرگرم عمل نظر آتے ہیں ان کے اصل شکار ناپختہ ذہن کے وہ بچے اور بچیاں ہیں جو قوم کا درد رکھتے ہیں، انکی پوری کاوش ہے کہ کسی نہ کسی طرح صراط مستقیم سے ہٹا کر انہیں نسل اور زبان کی بنیاد پر منقسم کردیا جائے۔ اب ان کا ہدف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں جھگڑوں کو فروغ دے کر لسانی، نسلی اور گروہی رنگ دیا جاتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں قائم ایک جامعہ کی عارضی مدت کیلئے بندش اسی کا شاخسانہ تھی اب اطلاعات یہ ہیں کہ پنجاب بھر کی جامعات ان طلباء کی فہرستیں مرتب کی جارہی ہیں جو دیگر صوبہ جات سے حصول تعلیم کے لیے آئے ہیں ان پر الزام یہ ہے کہ تدریسی سرگرمیوں سے زیادہ دیگر غیر صحت مند انہ مشاغل میں مصروف رہ کر تعلیمی ماحول کو پراگندہ کرتے ہیں بدقسمتی سے یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے جب کہ ان کے تعلیمی ادارے بڑے صوبہ کے طلبا کیلئے اپنا دل چھوٹا رکھتے ہیں تو ہمیں ان کیلئے نرم گوشہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس طرز کے فاصلے بڑھانے میں کچھ نادیدہ قوتیں اپنے اپنے حصہ کا کام کررہی ہیں۔
اک زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیمیں قانونی طور پر فعال تھیں وہ نہ صرف طلباء کے مسائل پر گہری نگاہ رکھتیں بلکہ ان کے حل کیلئے بھی متحرک رہتیں اسی تناظر میں وہ طلبا کی سیاسی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتی تھیں اک نظریاتی سیاست کی کاوش اور کشمکش طلباء کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی تھی مطالعہ کتب کا ماحول بھی فراہم کیا جاتا، تحریر و تقریر کے مواقع بھی میسر آتے تھے ان تمام تر مثبت سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی منفی سرگرمیوں نے انہیں پابندی کے مقام پے لاکھڑا کیا۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ نے طلباء کے آئینی حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بحال کرنے کا حکم صادر فرمایاہے۔
مگر عوامی ردعمل کے سامنے سرکار اس حکم کی تعمیل کرنے سے گریزاں ہے اس میں کوئی دورائے نہیں کہ فی زمانہ طلباء و طالبات کو بڑھتی ہوئے فیسوں کے ساتھ دیگر مسائل کاسامنا ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے انہیں مناسب فورم بھی دستیاب نہیں تاہم ارض پاک کا عدم برداشت کلچر اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ تعلیمی اداروں کو سیاسی اکھاڑہ بنادے اس کے باوجود زیادہ پریشان کن بات قومی تعلیمی اداروں میں نسلی، لسانی اور گروہی بنیادوں پر جھگڑے ہونا ان کا فروغ پانا اور تدریسی ماحول کا ابتر ہونا ہے۔
کسی بھی ریاست کا تعلیمی نصاب نسل نو کی تربیت کرتے ہوئے اسے بہترین قوم میں ڈھالتا ہے ہمارے ہاں طبقاتی نظام تعلیم ھل من مزید کی کیفیت سے دوچار ہے۔اور قومی سطح پر کوئی سنجیدہ کاوش بھی دکھائی نہیں دیتی جو نصاب کی تیاری کی بابت ہو جو اس ہجوم کو قوم بنا دے۔
اگرچہ حکومتی سطح پر نوجوانان سے متعلق وزارت موجود ہے، دیگر ادارے بھی فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں لیکن شرپسندہ عناصر بغیر کسی وزارت کے ہماری نسل نو کو گمراہ کرنیکی” عمدہ خدمت “انجام دے رہے ہیں۔کارکردگی کی بناء پر وزراء کو پاس کرنے والے کپتان جی نے نوجوانان کی اس وزارت سے پوچھنے زحمت بھی کی ہے کہ اس اثاثہ کو قومی دھارے میں لانے، تمام اکائیوں کی نمائندہ نسل کو شیر و شکر کرنے کیلئے وزیر محترم نے کیا کیا پالیسیاں مرتب کیں ہیں؟
شنید یہ ہے کہ وہ نادیدہ قوتیں جنہیں ہمارا قومی اتحاد و اتفاق اک آنکھ نہیں بھاتا وہ بیرون ملک زیر تعلیم پاکستانی طلباء کو کلچر ڈیز کے نام پر لسانی، نسلی اور گروہی بنیادوں پرقومی شناخت سے الگ رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتی اور سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔
ہماری نسل نو کا قومی تعلیمی اداروں میں مذکورہ بنیادوں پر جھگڑنا اور قومی شناخت کو پس پشت ڈال کر خود کو خانوں میں بطور شناخت رکھنا لمحہ فکریہ اور اس بدعنوانی سے زیادہ خطرناک ہے جس کے خاتمے کے بخار میں ہماری سرکار مبتلا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.