تعلیمی تربیت

منگل 29 دسمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمارے سماج کی طرح ،تعلیمی ڈھانچہ بھی طبقات میں منقسم ہے،حالانکہ کسی بھی ریاست کا نظام تعلیم ہی معاشرہ کو متحد رکھتا ہے،نسل نو کو ایک لڑی میں پروتا ہے،تمام نسلی۔ لسانی،گروہی بتوں کو پاش پاش کرتا ہے،اور اسکی اخلاقی تربیت کرتا ہے،ایک منظم قوم بنا کر اسکو عالمی برادری میں ایک مقام عطا کرتا ہے، بدلتے حالات،سماجی، معاشی، سائنسی ترقی کے ساتھ سفر جاری رکھنے کا اہل بناتا ہے،تاکہ خدادا صلاحیتوں کو وہ بروئے کار لا کران تمام چیلنجوں سے نبرد آزماء ہو سکیں جن کا عالمی سطح پر سامنا ہو سکتا ہے ،اس مقصد کے لئے سرکاری ادارے ،ماہرین تعلیم،تعلیمی ضروریات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور سماج کے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تعلیمی پالیسی بھی مرتب کرتے ہیں،تاکہ بدلتے عالمی منظر نامہ کے تناظر میں ناگزیر نصابی تبدیلیوں کو ممکن بنایا جاسکے۔

(جاری ہے)


سماج میں جاری بے راہ روی،کرپشن، بدعنوانی، ملاوٹ اور دیگر جرائم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم تربیت کے عمل سے یکساں عاری ہے،اور ایک ایسی نسل پروان چڑھا رہا ہے جو اخلاقی اقدار سے نابلد ہے،سماج میں انتہا پسندی، فرقہ پرستی کا فروغ اورلسانی، نسلی پہچان پر تفاخر اس بات کا بھی غماز ہے کہ اس نظام تعلیم میں یہ سکت بھی نہیں کہ وہ اس ہجوم کو ایک منظم قوم میں تبدیل کر دے ۔


تعلیمی نتائج اس رویہ کے عکاس ہیں کہ اس نظام کی سیڑھی پر قدم رکھنے کا مقصد محض روزگار کا حصول اور اس پروفیشن کا انتخاب ہی ہماری ترجیح ہے جس کا راستہ مال بنانے کی طرف جاتاہے،اس” کار خیر“ میں والدین بھی برُی طرح شریک ہیں،اس کی بدولت نمبر گیم کی باضابطہ دوڑ طلباء و طالبات کے مابین لگی ہوئی ہے جس میں سب شریک ہیں، نسل نو کو نفسیاتی مریض بنانے کی دانستہ سعی کی جارہی ہے،میرٹ آسمان سے باتیں کر رہا ہے،جسکا فائدہ سیلف فنانس کی بنیاد پر داخلہ جات سے جامعات کو پہنچ رہا ہے ،اس ضمن میں وہ تمام اخلاقی قدریں بھی پامال ہوتی جارہی ہیں جو کبھی اس مقدس پیشہ کی ایک پہچان تھی،اس کو بڑھاوا دینے میں پرائیوٹ سیکٹر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اب تو ایک مکمل کمرشل تعلیمی کلچر پروان چڑھ چکا ہے۔


 ایک زمانہ تھا جب تعلیم کے شعبہ سے وابستہ افراد خالصتاً خدمت کے نقطہ نظر سے تعلیمی ادارہ قائم کرتے تھے تاکہ سرکار کا ہاتھ بٹایا جاسکے،مگر جب سے یہ شعبہ تجارتی روپ دھار چکا ہے اس وقت سے بڑے صنعت کار بھی اپنے درینہ کام کو خیر آباد کہہ کر اس میں منافع کمانے کی غرض سے کود پڑے ہیں کہ اب” تعلیمی خدمت“ کا لفظ بھی ان کی سرگرمیوں کے سامنے شرما جاتاہے، انکی مالی ترقی کی رفتار قومی ترقی سے کہیں زیادہ ہے، نت نئی فرینچائز کھل رہی ہے، ملبوسات کی طرح ا نکے برانڈ بھی کھلے داموں فروخت ہوتے ہیں، اس قماش کے لوگ اور اس مقدس پیشہ سے وابستہ تمام افرادمحض دام بنانے میں لگے ہوئے ہیں،باوجود اس کے یہ انکا کام
 ہے نہ ہی مزاج، استحصالی روایات کو یہاں بھی فروغ دیا جارہا ہے تعلیم یافتہ طبقہ ہی ا نکے نشانہ پر ہے،اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کرام کو بھی بھیک کی مانند اعزازیہ دیا جاتا ہے، اس کے عوض وہ کام بھی ان سے لئے جاتے ہیں جو انکے منصب سے میل نہیں کھاتے،بے روزگاری کے اس بھیانک عہد میں انکی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر استحصالی طبقہ اس” خدمت“ پر احسان بھی جتلا رہا ہے کہ اس نے قوم کا بھاری بوجھ اٹھالیا ہے،ایلیٹ کلاس کے تعلیمی اداروں کے مسائل ذرا”وکھڑی ٹائپ“ کے ہیں،وہاں بھاری بھر فیسوں کے علاوہ والدین کو بچوں کی عزت کی حفاظت کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے،وہ ادارے جن کے ناتواں کندھوں پر تربیت کا بوجھ ہے ،انکا سٹاف خود غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب پایا جاتا ہے۔


سابقہ حکومتوں کو یہ کریڈٹ تو بہر حال جاتا ہے کہ انھوں نے سکولز کیڈر اورپبلک سیکٹر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ سٹاف بھرتی کرکے عوام کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں، کشادہ ،صاف ستھرا ماحول،بڑی درسگا ہیں ،کھیل کے میدان جو کسی بھی تعلیمی ادارہ کی بنیادی ضرورت ہیں یہ صرف پبلک سیکٹر ہی میں میسر ہوسکتی ہیں، بڑے سے بڑا سرمایہ دار یہ سہولیات فراہم نہیں کر سکتا جو طلباؤ طالبات کی تعلیم اور صحت کے لئے لازم ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں مجبور عوام نے سرکاری درس گاہوں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے،سرکاری ادارے انکے اعتماد پر کتنا پورا اترتے ہیں یہ تو وقت بتا ئے گا لیکن قابل توجہ یہ ہے معیاری تعلیم بلا امتیاز ہر شہری کو دینا ریاست ہی کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔


شیند ہے کہ آمدہ تعلیمی سال سے یکساں تعلیمی نصاب نافذ کیا جارہاہے،سرکار کا یہ قدم قابل ستائش ہے،اس عمل سے کم از کم پورے ملک کے طلباء ایک پیج پر تو آجائیں گے،ہماری استدعا ہے کہ اخلاقی اقدار اور تربیت کے عمل کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے نیز طلباء وطالبات کو گیم نمبر کی اذیت سے آزاد کیا جائے،نصابی اور تعلیمی عمل کے ذریعہ ان میں تخلیقی صلاحتیں اجاگر کی جائیں،رٹاازم کی بجائے،تصوراتی، تجزیاتی کلچر پیدا کیا جائے،سائنسی مضامین کی ایسی گیمیز بنائی جائیں جس سے بچے مضامین میں دلچسپی لیں، اور کھیل کے ساتھ ساتھ لرننگ بھی ممکن ہو سکے،سماجی علوم کو عملی شکل دینے کے لئے ریسرچ کلچر کی بنیاد رکھی جائے تاکہ نسل نو کو قومی مسائل کا حقیقی ادارک ہو سکے۔


 پنجاب حکومت نے ای۔لرننگ کی سہولیات طلباء وطالبات کو فراہم کی ہیں لیکن انٹرنیٹ کی دیہاتوں میں فراہمی کو یقینی بنانا بھی تو لازم ہے ،پرایئویٹ سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیز کو دوردراز علاقہ میں انٹرنیٹ کنکشن لگانے کی ترغیب دی جائے،اسکا فائدہ فری لانسرز کو بھی ہوگا جس سے خود روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ، نامساعد حالات اور آئن لائن کلاسز کے لئے اسکی اشد ضرورت بھی ہے ،تعلیم کی فراہمی اس زبان میں لازم قرار دی جائے جس میں طلباء وطالبات راحت محسوس کریں، نئی ،معیاری تعلیمی پالیسی کی وساطت سے ایک منظم، دیرپا، مکمل،قابل عمل تعلیمی نظام وضع کیا جائے جو مستقبل کی ضروریات پوری کرنے پر قادر ہو، یکساں نصاب کے نفاذ کی سرکاری کاوش خدا کرے کہیں آخری نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :