خسارہ

پیر 20 مئی 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

برناڈ شاہ کے قول کا مفہوم کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے لیکن اس کے پیروکار مسلم بدتر ہیں ہمیں ہضم نہ ہوا۔ہم نے اس کا جائزہ لینا شروع کیا اسلام کے راہنما ء اصولوں کو پر کھا، اسکی تعلیمات کا مطالعہ کیا اور اسکے تناظرمیں مسلمانوں کی عملی زندگی پر اک نگاہ مرکوز کی تو کسی حد تک اطمینان ہوا۔اس قحط الرجال میں بھی فرشتہ صفت انسان اس دھرتی پے موجود ہیں جنکی برکت سے نظام ہستی چل رہا ہے۔

تاہم گذشتہ دنوں ایک چشم دید واقعہ کو دیکھ کر نہ صرف آنکھیں نم ہوئیں بلکہ برناڈ شاہ کے قول کی صداقت پر کسی حد تک یقین آہی گیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں رشتہ کے کزن اور بہنوئی کے بڑے بھائی میرے آبائی گاؤں چک نمبر190/WB ضلع وہاڑی میں حرکت قلب بند ہونے سے اچانک انتقال کرگئے انکی عمر غالباً 55سال کے لگ بھگ تھی۔

(جاری ہے)

انکی حیات والدہ اور بیوی بچوں کے علاوہ خاندان کیلئے ایک بڑا صدمہ تھا لیکن یہ امر ربی ہے اسکو سرخم تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔

محمد عارف جٹ مرحوم پاکستان ا ئیر فورس میں خدمات انجام دے کر غازی کا درجہ پاچکے تھے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں روایت ہے کہ جنازہ سے قبل چند لمحات کیلئے امام فلسفہ موت اور فکر آخرت پر حاضرین کی آگاہی کیلئے روشنی ڈالتے اور توجہ دلاتے ہیں امام جی نے بھی ایسا ہی کیا۔رمضان کی برکات کے ساتھ ساتھ فکر آخرت کا تذکرہ بطور خاص کیا،جنازہ سے فارغ ہوئے گجرات سے مرحوم کے کزن و دیگر اہل خانہ کا انتظار تھا اس لیے تدفین کا مر حلہ باقی تھا ۔

اسی اثناء میں اک دوست عزیز وڑائچ ایڈووکیٹ کا چہرہ اترا ہوا دیکھا مرحوم ان کے بہنوئی تھے گویا ہوئے کہ میرا موبائل کسی نے نکال لیا ہے رات کے پہلے پہر کسی اجنبی کی شناخت بھی مشکل تھی ،مرحوم کی چارپائی کے قریب عزیز و اقرباء اور احباب موجود تھے کچھ لوگ رخصت لے رہے تھے اس دوران معلوم ہوا کہ کچھ اور موبائل بھی نکال لیے گیے ہیں ابھی اس صورت حال پر غور وفکر ہورہا تھا کہ سامنے گاڑی آتی دکھائی دی جن عزیز و اقرباء کا انتظار تھا وہ پہنچ چکے تھے بڑا ہی نازک اور جذباتی سا ماحول تھا، جواں مرگ پر سب ہی تاسف کررہے تھے، مرحوم کا چہرہ دیکھنے کیلئے مہمان مردو خواتین آگے بڑھے، اب جنازہ اٹھا یا گیا اور تدفین کیلئے چل دیئے ساتھ چلتے چلتے اک مہمان نے محسوس کیا کہ اسکی جیب ہلکی محسوس ہورہی ہے جب اس میں ہاتھ ڈالا تو پرس غائب تھا،اسی طرح کی دوسری واردات دوسرے مہمان کے ساتھ بھی پیش آچکی تھی۔

دیہات کی سطح پر یہ ا س نوع کی پہلی واردات تھی جس میں بھاری بھر رقم کے علاوہ کئی موبائل جنازے کے موقع پر ماہ مبارک رمضان میں اُڑا لیے گئے تھے۔اگلے روز اک فون کال وصول ہوئی مخاطب بتارہا تھا کہ اک پرس سرراہ ملا ہے جو گاؤں سے 14کلومیٹر کے فاصلے پر دیوار کے ساتھ پڑا تھا جس میں اے ٹی ایم کارڈ، قومی شناختی کارڈ، و دیگر دستاویزت تھیں ا س سے یہ اندازہ تو کیا جاسکتا ہے کہ اک منظم گروہ نے یہ کاروائی کی ہے۔


 اس سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جنازے کی اطلاع پر مجرمانہ ذہن کے افراد نظر ر کھتے ہیں وقت کی مناسبت سے جنازہ کے اجتماع میں گھس پر” واردات“ ڈال کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں کیونکہ یہ ایسا موقع ہوتا ہے جس میں ہر فرد پر نگاہ رکھنا اسکی سرگرمی کا جائزہ لینا مشکل ہوجاتا ہے لواحقین تو ویسے بھی صدمے سے دوچارہوتے ہیں بڑی بڑی شخصیات کے جنازوں میں جیب کٹ جانے یا موبائل غائب ہونے کی خبر یں تو اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں لیکن دیہات کی سطح پر جہاں قریباً ہر فرد دوسرے کا شناسا ہوتا ہے اک بڑی واردات قرار دی جاسکتی ہے یہ کیسے بدبخت انسان ہیں جو میت کو سامنے دیکھ کر بھی سبق حاصل نہیں کرتے کیا انہیں اپنے مرنے کا یقین نہیں ہے ۔

برناڈ شاہ نے اسلام کے انہیں پیروکار وں کو اس لئے بھی بدتر قرار دیا ہے کہ وہ خانہ خدا ہی میں بھی چوری سے باز نہیں آتے۔ غیر مسلم مصنف جارج برناڈ شاہ کے قول کا مفہوم ہمارے منہ پر بڑے طمانچہ کے مترادف ہے۔
اگر ہم سمجھتے او ر دعوی کرتے ہیں کہ دنیا کا بہترین مذہب اور عقیدہ ہمارا ہے تو ہمیں بہترین عمل کرکے بھی دکھانا ہوگا اگر ہم اس میں ناکام رہتے ہیں تو پھر کیونکہ دوسرے افراد اسکی جانب متوجہ ہوں گے۔


ہمیں اس سے مفر نہیں کہ سماجی اور اخلاقی برائیاں عہدنبوی میں بھی سماج میں موجود تھیں لیکن آپ نے اپنی سیرت سے ایسے گوہر نایاب پیدا کیے کہ رہتی دنیا تک ان کے اعمال سارے عالم فیض یاب ہوتے رہیں گے اصل فقدان تربیت کے نظام کا ہے ۔بڑا المیہ یہ ہے کہ تما م سماجی اور اخلاقی برائیوں کے روح رواں تعلیم یافتہ افراد ہی ہیں، مادہ پرستی کے اس عہد میں ہم قدم رکھ چکے ہیں کہ انسانیت پاؤں کے تلے روندی جارہی ہے حادثاتی موت کے موقع پر مرحوم کی جیب خالی کرنا، زخمیوں کے موبائل نکال لینا اور گھڑی اتارنے کے واقعات مردہ معاشرہ کے عکاس ہیں اس وقت اگر سماج میں بڑی کمی ہے تو وہ اخلاقیات کی ہے ہم تجویز کرتے ہیں کہ تمام تعلیمی اداروں ، درس گاہوں، شفا خانوں اور عوامی مقامات پر جلی حروف ہیں نبی مہربان کا خطبہ حجہ الوداع نصب کردیا جائے جو پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ اور انسانی حقوق کا چارٹر ہے ۔


قرآن حکیم کی سورہ اعراف میں ان نامور اقوام نوح، عاد، ثمود، لوط کے عذاب کا تذکرہ تاریخی حوالہ ہی نہیں بلکہ اہل قریش اور آنے والی انسانوں کیلئے بطور خاص رقم ہے انکو دو وجوہ کی بناء پر عذاب دیا گیا اک رسولوں کی تکذیب کا وہ دنیا میں دیکھ چکے اور دوسرا یوم آخرت کے موقع پر جزا اور سزا کا۔
میت کو سامنے دیکھ کر بھی جب ہم چوری کرنے سے نہیں چوکتے تو پھر ہم نے نبی کی تعلیمات کی تکذیب میں کون سی کسر چھوڑ ی ہے اور عذاب نہ آنے کی بڑی وجہ بھی نبی مہربان ہیں جس کی رحمت سے تاحال ٹل رہا ہے البتہ جزا اور سزا کے عذاب سے چھٹکارہ تو قطعی ممکن ہی نہیں ۔

وہ بد بخت انسان جو جنازوں میں وارداتیں ڈالتے ہیں حادثہ کے موقع پر متاثرین کے بے بسی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وہ اپنے دامن میں پیسہ نہیں خسارہ بھر رہے ہیں فقہاء کہتے ہیں کہ اگر سورہ عصر کی صرف نازل کردی جاتی تو یہ بھی انسان کی راہنمائی کیلئے کافی تھی۔
ریاست کے تمام مکاتب فکر کی معاونت سے مدینہ کی ریاست کے داعی حکمرانوں کو قوم کی اخلاقی تربیت پر لازمی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ،ورنہ اسے افراد کے لیئے سوائے خسارہ کے اور کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :