مذاق

پیر 17 جون 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہم نے تو روز اول ہی سے” تبدیلی“ والی سرکار کی پشت پر کھڑا ہونے کی ٹھان رکھی ہے، اسکی معاشی مجبوریوں کو دیکھ کر ہم رائے عامہ کوہموار کرنا ہی اپنا اخلاقی فریضہ خیال کرتے ہیں او دعوت عام د ے رہے ہیں کہ سرکارکی ”گورننس “جہاں ہے جیسی ہے کی بنیاد پر اسکی حمایت جاری رکھی جائے اور جذبہ حب الوطنی کے تحت اسکے تمام” احتسابی پروگرامات“ کی کھلے دل سے قدرکی جائے ۔


 قومی بجٹ کے بعد کپتا ن جی کے قوم سے خطاب نے دل کا درد ذرا ہلکا کر دیا ورنہ ہرنئے ٹیکس کے عائد کرنے سے مسلسل بڑھ رہا تھا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا شمار فائلر ز میں ہو تا ہے ہم یہ سوچ کر ہی شادمان تھے کہ اگر انسان کو درد دل کے واسطہ پیدا نہ کیا ہوتا تو ہمارا کیا بنتا، اس سے ہم یہ اخذ کرنے میں کامیاب رہے کہ نان فائلرز کے دل میں قوم کا درد ہے ہی نہیں ہے ورنہ وہ بھی کپتان جی کی اپیل پر ٹیکس کی ادائیگی کو قومی فریضہ خیال کرتے ، ہما را گمان ہے کہ ہرسرکار کی طرح ”تبدیلی والی سرکار“ بھی ان ہی کے دل کو دبار رہی ہے جو پہلے ہی بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

نان فائیلرز کیلئے یہ بھی دل میں نرم گوشہ ہی رکھتی ہے ۔
کپتان جی کے خطاب سے انکی” سنگدلی“ عیاں ہو گئی انہوں نے اپو زیشن کو آڑے ہاتھوں لے کر احتساب کے ہونے کا کامل یقین قوم کودلایا ،ہمارا شمار بھی ان چند معدودے افراد میں ہو تاہے جو” احتسا ب کہانی"پرایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں اور دن کی روشنی میں قومی دولت کی واپسی کی بابت قومی خزانہ بھرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔

ہمارا گمان ہے کہ کپتان کی سرکا ر بھی انہیں خطو ط پر کام کر رہی ہے اس لئے ہم سینہ تان کر اس سرکار کی حمایت نہیں کر رہے بلکہ سرعام شیخی مارنے کی بھی سوچ رہے ہیں، لیکن برا ہوا اس سوشل میڈیا کا جو ہر اس خبر کو ”آن ائیر“ کر رہا ہے جسکا تعلق سرکار کے وزراء کرام کی بد عنوانی سے ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ نیب ان افراد کے اسماء گرامی کیوں بد عنوانوں کی فہرست میں رکھ رہا ہے جو اس وقت سرکار کی” خدمت “میں مصروف ہیں ،انھیں نہیں معلوم کہ کپتان جی کے دل پے کیا گزرے گی ،موصوف کو پھر سے عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے خطاب کر نا پڑے گا ،اک اور سرکاری کمیشن مگر بدعنوان وزراء تحقیقات بنانا پڑے گا ، نجانے اسکی قیادت کون کرے گااوراسے کون کون سے اختیارات حاصل ہوں گے؟ ۔

ہمیں کپتان جی سے زیادہ ان شخصیات کی فکر لاحق ہے جو ماضی قریب اور بعید میں سرکاری پرو ٹو کول کو جھنڈے والی گاڑی میں” انجوائے “کر تے رہے ہیں انھوں نے ہر عہد میں بہتی گنگا میں اشنان کیاہے ۔
جس میں وہ بنفس نفیس وزیر باتدبیررہے اب جب وہ مالی بد عنوانی ، کرپشن کی روک تھام اور” نیا پاکستان“ کے موضوعات کا بھاشن دیتے ہیں تو نجانے کیوں ہمارا پنجابی والا "ہاسا"نکل جاتا ہے ۔

ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ زمانہ تبدیل تھا یایہ نیاعہد” تبدیلی“ لے رہاہے۔
 اس طرز کی دیگر شخصیات بھی ہماری پریشانی کا باعث ہیں جو ان دنوں زیر عتاب ہیں جنکی حرکات و سکنا ت سے ذرا ئع ابلاغ ہمیں ہر لحظہ آگا ہ کررہا ہے، قومی خزانہ کے ساتھ” ہاتھ“ کرنے والے یہ نامور راہنماء ان دنوں علیل ہیں، انکی علالت کی بنیادی وجہ "نیب"ہے ۔ ہاتھوں پے "سرکاری کنگن"پہننے سے پہلے وہ طبی اعتبار سے مکمل صحت یاب تھے، ہر نوع کی سیاسی سرگر میوں میں شریک تھے، سرکار کے خلاف مورچہ زن بھی تھے جو نہی نیب کا ”پروانہ‘ ان کے نام جاری ہوا ،ان کا بلڈ پریشر ، شوگر فورا ً شو ٹ کر گیا اور انہیں ہسپتال میں پناہ لینا پڑی ،آپ اس وقت نرم و گرم بستر پر ٹھنڈے ماحول میں” صنف نازک“ سے طبی خدمات اور علاج کی تما م سہولتوں سے آراستہ ہو کرہو کر اپنا فشار خون اور شوگر کا باقاعدہ معائنہ کر وا کر سرکار کو ہی نہیں” نیب“ کوبھی اپنی بیماری سے آ گاہ کرتے رہتے ہیں ۔


اس نا گہانی صورت حال ، وزرا ء کرام کی پریس کانفرنس اور کپتا ن جی کے دائیں بائیں شخصیات کو دیکھ کر میر جی کے اس شعر کا آخری مصرعہ گنگنا نے کو جی چاہتاہے ۔”بیمار ہو ئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں “۔
 ان حالات کو دیکھ کر ہمیں تو ایک بیچارے” احتساب“ کی بے بسی پے رو تا آتا ہے، جس کے مقدر میں ہر عہد میں خوار ہونا ہی لکھا گیا ہے، جو ہمیشہ تنقید کی زد رہا بلکہ سرکار اور اپوزیشن کے مابین "شٹل کاک"بنارہا ،کبھی اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دھمکی دی گئی ،کبھی نئی قانون سازی کا طعنہ سنایا گیا،لیکن اسکی مستقل مزاجی اور مصمم ارادہ دیکھ کر اسکی تحسین کرنے کو دل چاہتا ہے، جو بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے پھر افسر شاہی ، نیب اور سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ جا تا ہے اور نیب سے لے کر اپو زیشن تک سب اسکی” کلاس“ لینا شرو ع کردیتے ہیں، یہ اتنا محب وطن ہے کہ اس نے ان کے رویوں سے تنگ آکر کبھی بھی مستقبل کے سہانے خوابوں کیلئے کسی مغربی ملک میں "سیاسی پناہ "کی درخواست گزار نہیں کی نہ ہی اس خواہش کا اظہار کیا حالانکہ اسی کے خوف سے ہمارے سپہ سالاروں سے لے کر افسر شاہی تک اور اپوزیشن سے لے کر سرکاری عہد یداروں تک عمر کا آخری حصہ وہاں گزا ر نے پر فخر محسوس کر تے اور انھیں ممالک کا رخ کر تے ہیں ۔


اگر” تبدیلی “کی ہوا چل ہی پڑی ہے تو زیادہ منا سب ہو گا کہ” کرپشن، احتساب ، لوٹی ہوئی دولت“ جیسی اصطلاحات کو ہی بدل دیا جائے اس سماج میں "منی"اتنی بد نام نہیں ہوئی، جتنی بدنا می ان کے حصہ میں آئی ہے ۔ کیونکہ ہر احتساب اس ”پسٹ“کی مانند ہو چکا ہے ۔جسے عرف عام میں” امریکی سنڈھی“ کہتے ہیں،جس طرح کسان کی فصل کو زہر کی سپرے کے باوجود وہ بے شرمی چوستی ہے اس طرح قومی خزانہ کو چو س کر ”نیب زدگان“ نے معاشی موٹا پا حاصل کیا ہے اب ان سے سرکاری دولت کی واپسی کسی بڑے معرکہ سے کم نہیں، جو ذرا سی بھی اذیت برداشت نہیں کر تے اور انہیں دل کا درد آلیتا ہے جس کے سامنے” نیب“ جیسا ادارہ بھی کبھی کبھار ہا تھ جوڑنے پے آجا تا ہے ۔


کپتان جی کی حالت بھی بڑی دیدنی ہے، ان کی خواہش ڈاکوؤں اور چوروں کو چھوڑنے کی نہیں مگر ان کے دائیں بائیں” نیب زدہ “افراد انکی فکر پر کاری ضرب لگارہے ہیں، مہنگائی کا طوفان عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے، ڈالر کی اڑان اس کے علاوہ ہے، موصوف کی سادگی دیکھیے کہ وہ” لٹیروں“ کی جان لینے کیا بجائے اپنی جان دینے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں ہم ان کی ”دل پشوری“کیلئے عرض کیے دیتے ہیں کہ اگر واقعی قوم کا درد وہ دل میں رکھتے ہیں اور اس تبدیلی کو جاگتی آنکھوں سے دیکھنا چا ہتے ہیں جسکی بنیاد پر آپکو” پر دھان منتری “بنایا گیا ہے تو آپ کو” ایرانی احتساب “کے ماڈل پر بلا امتیاز عمل کر نا اور ان قوتوں کا صفایا کر نا ہو گا جنہیں اس ریاست سے زیادہ اپنا اقتدار اور مفاد، دولت عزیز ہے ورنہ احتساب کے ”مذاق کا“ یہ چورن زیادہ دیر نہیں بکے گا اور پھر آپ کا خلاء کوئی دوسری ”مخلوق “پر کر دے گی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :