تضاد

پیر 30 ستمبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہم کمرہ امتحان میں داخل ہوئے تو طلبا ء و طالبات نے کھڑے ہو کر سیلوٹ کیا ہم نے اس عزت افزائی پر ان کی تحسین کی ، فنی تعلیمی بورڈ پنجاب کے زیر اہتمام شارٹ کورس کا یہ امتحان تھا۔ ہم نے پوچھا آپکا امتحان کیسا رہا تو ان سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہم نے دوسرا سوال داغ دیا کہ پرچہ مشکل تو نہیں تھا تو وہ ہاتھوں سے اشارے کرنے لگے ، ہم نے ممتحن کی طرف دیکھا تو اس نے بتایا کہ یہ سننے اور بولنے کی قوت گو یا ئی سے محروم بچے ہیں اس کورس کے ذریعہ انکو فن سے آراستہ کیا جارہا ہے اک لمحہ کیلئے ہم گم سم ہو گئے ان کے چہروں پر نگاہ ڈالی تو ان کی خوبصورتی میں کوئی کمی دکھائی نہ دی، لیکن قادر مطلق نے انہیں دو بڑی نعمتوں سے محروم ٹھہرا رکھا تھاان طالبات کو دیکھ کر بمشکل آنسو ضبط کیے اورد ل سے ان کیلئے دعا نکلی، بجا طور پر ان کے والدین کیلئے یہ اک بڑی آزمائش ہے تاہم اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے سامنے سر نگوں کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اس سوچ نے دل میں قرار پیدا کیا ۔

(جاری ہے)

دیوار پر لگے خوبصورت ماڈل اور اور اشیاء کی طرف انکی ٹیچر نے اشارہ کرتے ہو ئے بتایا کہ یہ سب ان کے ہاتھوں سے بنی ہوئی چیزیں ہیں ہم نے جب انہیں بھرپور داد دی تو ان کے چہرے دیدنی تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ہماری طرح احساسات اور جذبات سے نوازرکھا ہے ، اس دوران ہم نے محسوس کیا کہ وہ کسی طور پر بھی احساس محرومی میں مبتلا نہیں ہیں ان میں کچھ کر گزر نے کی پوری صلاحیت اور تڑپ موجود ہے ، جس رویہ نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ انکا ایک دوسرے کی بھڑ چڑھ کر مدد کر نا تھا ، جسمانی طور پر معذور طلباء و طا لبات ایک ددسرے کو سہارا دے کر لا رہے تھے اور اسی طرح وہ اک دوسرے کی لرننگ بھی کروا رہے تھے ۔


 یہاں سے فراغت پاکر ہم ساتھ والے کمرہ کی جانب بڑھے تو اس میں بھی اسپیشل بچوں کا امتحان جاری تھا یہ بصیرت سے محروم طلبا و طالبات تھے ان کودیکھ کردل اک بارپھر بیٹھ سا گیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں سوائے دیکھنے کے ہر نعمت سے نواز رکھا تھا اس میں کیا حکمت ہے یہ ایک راز ہے اسکی تہہ تک پہنچناہمارے بس سے باہر ہے ، بچے سوالات حل کرنے میں مگن تھے ، انہیں خاص کاغذ اور بریل فراہم کی گئی تھی انگریزی کے پرچے میں وہ خط، کہانی اور دوسرے سوالات حل کر رہے تھے ، ان کے استاد جو بطور خاص ممتحن کے طور پر لاہور سے ملتان تشریف لائے تھے وہ بھی نابینا تھے انھوں نے اپنی گود میں لیپ ٹاپ رکھا ہوا تھا ۔

اور ہینڈ فری کے ذریعہ سن کر انکی راہنمائی فر ما رہے تھے ، خاص مہارت سے یہ پرچہ حل کر رہے تھے ان کے جوابات کوصرف ہاتھ سے محسوس کیا جا سکتا تھا جو کاغذ پر ابھرے ہوئے تھے ۔
 اس سے اگلا کمرہ میں جسمانی طور پر معذور طلباء طالبات کمپیوٹر کا امتحان دینے میں مصروف عمل تھے یہ بھی بولنے اورسننے کی صلاحیت سے محروم تھے تا ہم انکی ٹیچر سوالات کواشاروں کے ذریعہ ان پے واضع کر رہی تھی دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی کاپی کرنے کی کاوش میں مصروف دکھائی نہ دیا ہمیں بتایا گیا کہ ٹیچر کے والد بھی بچوں کی طرح اس نعمت سے محروم ہیں لہذا انکاتقرر ضروری سمجھا گیا کیونکہ یہ اشاروں کی زبان سمجھ سکتی ہیں ۔

اس موقع پر انکی کو ارڈ ینیٹر شکوہ کناں تھیں کہ اس طرز کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع انتہائی محدود ہیں ۔اس کے برعکس جسمانی معذوری اور بصیرت سے محروم افرادہماری سوسائٹی میں بڑے پروفیشنل ،اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں ، انھوں نے مزید کہا کہ اسپیشل افراد کیلئے سماجی سطح پر کوئی قابل عمل مروجہ ڈھانچہ نہیں ہے ۔اس لیے اس طرز کے افراد کو عام لوگوں کی طرح نقل و حرکت کرنے اور بنیادی ضروریات کے استعمال میں خاصی دشواریاں پیش آتی ہے، مغربی ممالک میں اسپیشل افراد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، عوامی مقامات پر ان کیلئے قریبا ً تمام سہولیات موجود ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کا خاصا فقدان ہے ، ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ جسمانی طور پر معذور بچوں کو عام تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا جاناچاہیے تا کہ انہیں سفر کی صعو بت برداشت نہ کر نا پڑے ، انکی رائے میں قومی سطح پر اور سماجی لحاظ Disability Managmentپروگرام متعارف کرواناانتہائی نا گزیر ہے علاوہ ازیں پرائیویٹ سیکٹر کیلئے لازم قرار دیا جائے کہ وہ ان اسپیشل افراد کو بھی روزگار فراہم کریں ۔


 قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر اس ضمن میں قانون سازی کی جائے تو بہت سے معذور افراد سماج میں بھکاری بننے کی بجائے تعلیم یا کسی فن سے آراستہ ہو کر باعزت رو زگاری کمانے کو ترجیح دیں گے اور کسی احساس محرومی میں بھی مبتلا نہیں ہو ں گے ہمیں یہ جان کر انتہائی خوشی ہوئی کہ ادارہ کی کوارڈنیٹر اسپیشل پرسن ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں انہوں نے معذوری کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا ان کی اسی لگن نے دوسرے اسپیشل افراد کوبھی حو صلہ دیا ۔

تاہم اس موقع پر بعض معلمات نے     شکایت کی کہ تمام آرگنائزیشن فراہم کر دہ خدمات کے عوض انتہا ئی قلیل معاوضہ ادا کر تی ہیں ۔ سرکار کے نافذ کر دہ معاوضہ جات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے نہ، ہی کوئی اضافی سہو لت میسر ہے حتٰی کہ انہیں ٹرانسپورٹ کے اخراجات از خود ادا کرنا پڑتے ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سرکاری سطح پر روز گار انہیں دستیا ب نہیں ہے ۔

سرکار کب بے روزگاروں کو روزگار دے گی؟
وہ تمام آرگنائزیشن، افراد، معلمات اور اساتذہ کرام قابل قدر ہیں جو اسپیشل افراد کو سماج کابہترین فرد بنانے میں مصروف ہیں یہ تمام ذاتی مفادات سے بالاترہو کر خدمت انجام دیں تو اس کے بڑے مثبت نتائج معاشرے پے مرتب ہو سکتے ہیں
ان سو چوں میں گم ہم سنٹر سے باہر نکل رہے تھے تو ہمارے ذہن میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد گرامی زیر گردش تھا کہ ”بے شک انسان اپنے رب کا ناشکرہ واقع ہو ا ہے“ سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معذوری کے بغیر صحت مند زندگی کی صورت میں وہ نعمت عطاء کر رکھی ہے جسکا کوئی نعم البدل نہیں،اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو کئی کھرب روپے کی مالیت صرف کر کے بھی نہیں خریدا جا سکتا ۔

ہمیں اس پر اظہار تشکر ادا کر تے ہوئے اس کے احکامات کے آگے سر نگوں ہو نا چاہیے ،لیکن ہم اسکی دی گئی نعمتوں کاغلط استعمال کر کے اپنے ہی سماج کو بدصورت بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ انسانوں کو قتل کر نے سے لے کر بد عنوانی تک، دھو کہ دہی سے ملاوٹ تک،انتہا پسندی سے دہشت گردی تک ہر جرم ہمارے اپنے ہی عضاء کے ہاتھوں انجام پا رہاہے اوربے خیا لی میں ہم کفر ان نعمت جیسے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں ،اس کے برعکس اسپیشل افراد تعلیم اورفن سے خود کو آراستہ کر کے اپنے آپ کو سماج کا کار آمد فرد بنا نے میں مصروف ہیں سماجی اعتبار سے یہ کتنا ”کھلا تضاد “ہے حا لانکہ اشر ف المخلو قات کادرجہ تو ہمیں یکساں طور پے حاصل ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :