مرہم

پیر 11 نومبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

عین اس وقت جب مقبوضہ کشمیر کے عوام کو پابند سلاسل ہوئے سو دن ہو رہے تھے ، کرتاپور راہداراری کا افتتاح ہو رہا تھا اک طرف کشمیری اپنی آزادی کا رونا رو رہے تھے تو دوسری طرف سکھ کمیونٹی خوشیاں منا رہی تھی۔ ان کے چہرے کھلے کھلے ہوئے تھے، بابا گورونانک کے دربار پر حاضری نے انکی حسرت کو پورا کردیا تھا جس کا خواب لیے ان کی کئی نسلیں ملک عدم جا چکی تھیں، اس سے بیشتر انکی سرکار نے دربار صاحب کو  دور سے دیکھنے کی سہولت فراہم کر رکھی تھی، ہمیں نہیں معلوم جب یہ طبقہ سرحد پار سفر کر رہا تھا تو اس کے کیا جذبات تھے ، خواتین، بچے، بوڑھے، جوان، کون سے خواب، اور تمنائیں لیے بابا کے در پے آنے کے لیے بے تاب تھے لیکن ان چہرے بتا رہے تھے کہ انھیں زندگی کی بڑی خوشی مل رہی تھی، جب وہ وآپس گھروں کو لوٹیں گے تو اپنے پیاروں کو دربار کی باتیں انداز تفاخر میں بتائیں گے وہ بھی یہاں آنے کی آرزو کریں گے۔

(جاری ہے)


 اس عارضی ہجرت نے ہمیں تاریخ میں لا کھڑا کیا ہم اس بڑے بٹوارے میں گم ہو گئے جب اس وقت کی” جنتا“ نے بھی رخت سفر باندھا تھا جن کو آج ہم” جی آیانوں “کہہ رہے تھے اس طبقہ ہی نے اس ہجرت سفر کو خون آلود بنا نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، نجانے ان ناظرین پے کیا گذری ہو گی جب انھوں نے اس تقریب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا گمان ہے یہ منظر اک فلم کی طرح گھوم گیا ہو گا، جب بے سروسامانی میں انھیں گھر بار چھوڑنے پے مجبور کیا گیا تھا، وہ تمام رشتے، ناطے ،تعلق اک لمحہ میں ختم ہو گیا جو صدیوں پے محیط تھا، کس بے بسی سے وہ ان گھروں کو چھوڑ رہے تھے جہاں ان کا بچپن گزرا تھا ،جس گھر میں انھوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی کے خوبصورت ایام گزارے تھے ،حسرت بھری نگاہوں سے وہ اس دولت کو خیر آباد کہہ رہے تھے جو خون پسینے کی کمائی تھی، اگر بات اس حد تک ہی رہتی تو بھی برداشت ممکن تھی مگر حالات اس نہج پے لائے جا چکے تھے کہ زندگی کے لالے پڑ گئے تھے ا،ک خون کے دریا کا سامنا تھا۔

 وہ ان گنت واقعات کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں، ظلم کی داستانیں رقم ہیں جنہیں پڑھ کر آج بھی کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، ذرا چشم تصور میں لائیے کہ اک باپ کے سامنے اس کی بیٹی کی عصمت دری ہو رہی ہو وہ بے بسی کے عالم سب دیکھ رہاہو اس وقت ماسوائے اوپر والے کے کوئی اس کا مدد گار نہ ہو،اس بچے کی المناک موت کا تو اندازہ کیجیے جس ماں کے سامنے اس کو نیزے پے چڑھا دیا جائے، اس بھائی کے جذبات کو آپ کیا نام دیں گے جس کے سامنے اک برچھی اس کے سینے میں اتار دی جائے، ان بزرگوں کی کیفیت کو سمجھئے جنکی زندگی کی پونجی جوان اولاد کی صورت میں ان کے سامنے ڈھیر ہو رہی تھی اور وہ سوائے تاسف کے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے، ان بچھڑ جانے والوں کی الگ کہانی ہے جن کی راہ تکتے ان کے والدین اس دینا سے رخصت ہو گئے، بہتے آنسووں نے ان کی بینائی چھین لی،وہ بیٹیاں جو ماں باپ کے سامنے اغوا ہ ہوئیں ان کا دکھ لیے وہ قبر میں اتر گئے جن کو ڈولی میں رخصت کرنے کی آرزو تھی، اک لمہ کے لیے خود کو اس مقام پے رکھ کے سوچئے ا ن کا جرم کیا تھا جسکی انھیں بھاری بھر سزا ملی، متاثرین ہجرت کی اک بڑی تعداد آج بھی حیات ہے اس کا درد آج بھی ترو تازہ ہے جو اس جہاں سے رخصت ہوئے وہ اپنے کی غم کے قصے نئی نسل کو منتقل کر گئے ہیں وہ اس کے امین ہیں، بر سبیل تذکرہ وہ اپنے تایا، چچا، پھوپھی، دادا، نانا نانی کو دل گیر لہجے میں یاد کرتے ہیں ، وہ جنہوں نے اس منظر کو اپنی جوانی یا بچپن ہی میں دیکھا تھا وہ بغیر نم آنکھوں کے بیان نہیں کر سکتے۔

جس بزرگ ہستی بابا گورونانک کے ددبارتک سکھ برادری کو رسائی دی گئی ہے ان کا تو پیغام محبت ہے، یہ تو امن کے داعی تھے، نجانے کس طرح اس کے پیرو کاروں نے ان کی اس دعوت کو پس پشت ڈال کر ان انسانوں پے ظلم کے پہاڑ توڑے جو مدتوں ان کے ہمراہ پر امن رہے، ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے رہے ،یہ اکھٹے فصلوں کو پانی دیتے ،جانوروں کی رکھوالی کرتے رہے، ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انھیں غیر منصفانہ تقسیم کے عوض مجبورا نئے وطن میں ہجرت کرنا پڑرہی تھی جس کا فائدہ اس کیومینٹی نے اٹھایا جنکا دربار صاحب بھی اس سرزمین پے تھا جس میں مدفن بزرگ دیوجی تھے ،جن کا احترام اس لیے دیگر مذاہب کے لوگ بھی کرتے تھے کہ وہ محبت اور امن کی علامت تھے، سکھ برادری اس وقت کیوں بھول گئی کہ اس کے عبادت خانے ہماری پاک سر زمین پے ہیں جہاں انھیں بہرحال جانا ہی ہوگا، اس برادری نے اگر یہ سب کچھ اپنے مفاد میں کیا ہوتا تو کیاغم دکھ تو یہ ہے کہ ان کا کندھا استعمال کیا گیا ،چار کلو میٹر کا سفر طے کرنے میں جو 72 سال لگے تو اس کے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں اگر انھوں نے خون کی ہولی نہ کھیلی ہوتی تو ان کے بزرگ بابا نانک کے در بار پر حاضری کی حسرت لیے ان کے آباء اجداد یوں رخصت نہ ہوتے۔

 ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اس راہداری کے ذریعہ یاتریوں کو فراہم کردہ سہولت کو وہ طبقہ کیسے دیکھے گا جن کے پیارے ان تلواروں اور کرپانوں کے کام آئے جو بے بسی میں ہجرت پے مجبور تھے لیکن یہ اپنی سرکار کی اعلی ظرفی پے ضرور نازاں ہو گا جس نے تمام دکھوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دس کروڑ انسانوں کو اس مقام تک رسائی دی ہے جو ان کے عقیدہ کے اعتبار سے بڑا ہی معتبر ہے ۔

ہر چند سکھ کمیونٹی بھی بابا گورونانک کی تعلیمات کو توحید سے تعبیر کرتی ہے تو بخوبی جانتی ہو گی کہ اس قادر مطلق نے اک یوم عدل کے قیام کی بھی نوید سنائی ہے کہ وہ محکوم، مظلوم افراد جو اس جہاں میں انصاف سے محروم رہے ہوں گے انھیں وہاں ضرور انصاف ملے گا، ظالم اور مظلوم کے الگ الگ ترازو ہوں گے ،افراد تو اپنا حساب خود ہی دیں گے۔
 ہم سمجھتے ہیں کہ سدھو بھائی اگر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے تو اس تاریخی موقعہ پر ان تمام متاثرین ہجرت سے اپنی برادری جانب سے معافی مانگ کر تاریخ میں امر ہو جاتے مگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا یا انھوں نے خود گنوادیا، اب اگر وہ ہمارے زخموں پے مرہم رکھنے کے آرزو مند ہیں تو مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم، ناانصافی کے خلاف اور حق خود ارادیت کی حمایت میں عالمی سطح پر آواز اٹھائیں، اپنی اس کیومینٹی کو بھی تلقین کریں جو دیار غیر مقیم ہے تاکہ کشمیری بھائی بھی خوشی کے لمحات دیکھ سکیں جو اس وقت آپکو میسر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :