غفلت

پیر 27 جنوری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ وہ سیاسی قیادت جو بدعنوانی کے الزامات کی بابت زندان میں رہی اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا لیکن اتنا پتہ ہے کہ ان کے چہروں سے تیری صبح بتا رہی ہے تیری رات کا فسانہ والا معاملہ ضرور تھا جس کو بھی یہ” اعزاز“ ملا اس نے انٹری تو صحت مند قیدی کی حثیت سے ڈالی لیکن چند روز کی بھی تاب نہ لا سکا اوراسکے دل نے کام چھوڑ دیا،ہرچند کہ ساری سہولیات انکو میسر رہی،انکی رہائی کی ہرلمحہ کاوش ہوتی رہی، انکی حمایت میں سیاسی بیانات بھی جاری و ساری رہے، ان کے مقدمات ایک سے زائد عدالتواں میں بھی زیر سماعت رہے،اس ساری مشق کا مقصد کسی نہ کسی طرح اپنے لیے ریلیف حاصل کرنا تھا،صاحب حثیت ہونے کے ناطے وکلاء حضرات کی فیس ادا کرنے میں انھیں کوئی دقت نہ تھی اس نوع کے کیس تو” سونے کی چڑیا“ کی مانند ہوتے ہیں کامیابی کی صورت میں شہرت اضافی ہوتی ہے، پروٹوکول لیتے ہوئے عدالتوں میں پیش ہونے اور پھر میڈیا کے سامنے سرکار کو صلواتیں سنانے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے، جس کے عینی شاہد عوام بھی رہے،اس لیے بھی کہ یہ عام قیدی نہ تھے ان کو اس عرض پاک پے حکمرانی یا عوامی نمائیدگی کا موقع بھی عطا ہوا تھا یہ” مرد مومن“ نیب کی کار ستانیوں کی بدولت سلاخوں کے پیچھے جانے پے مجبور ہوئے ورنہ کسی کی کیا مجال کہ ان سے قومی دولت کے ناجائز مصرف کا حساب لیتا۔

(جاری ہے)


قدرت نے وقت کا پہیہ الٹا گھما دیا۔ ہمارا گمان تھا کہ مقتدر طبقہ کی یہ کلاس رہائی پاتے ہی قیدیوں کی مشکلات کو کم کرنے کا قصد کرے گی،نظام انصاف کی اصلاح کی نوید دے گی،زندان میں زندہ انسانوں کی بے بسی کا رونا روئے گی، انکی داد رسی کا مطالبہ کرے گی، رہائی پاتے ہی اس نے جن خیالات کا اظہار کیااس میں بھی اپنے مفاد کو اولیت دینے کی روائت کو برقرار رکھا، نیب قوانین میں تبدیلی لانے کا عندیہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“ کا پیغام بڑا واضع تھا۔

انسانی حقوق کی وزیر با تدبیر نے اس آزاد مملکت میں قیدی شہریوں کی جو رپورٹ حکام بالا کو پیش کرنے کی جسارت کی ہے وہ خود غیر انسانی حقوق کا منہ بولتا ثبوت ہے،طائرانہ نگاہ ڈالی تو اس نے ہمیں تاریخ میں لا کھڑا کیا،محسن انسانیت کی آنکھ اس درد کی آواز سے کھل گئی جودشمن فوج کے ان قیدیوں کو سخت رسی کی بدولت ہو رہی تھی ،جو جنگ بدر میں مسجد نبوی میں لائے گئے ،نبی آخرالزماں نے فورا رسی کو ڈھیلا کرنے کا حکم صادر فرما دیا،روایت ہے کہ پڑھے لکھے قیدیوں کی رہائی مدینہ کے ناخواندہ افرادکو تعلیم دینے سے مشروط کر دی،افسوس صد افسوس کہ اس وژن کو ناروے جیسے غیر مسلم ملک نے اپنا لیا،اس نے جیل میں قیدیوں کی ایسی تربیت کا اہتمام کیا ہے کہ انھیں رہائی سے پہلے ذمہ دار شہری بنانے کی طرح ڈالی ہے تاکہ یہ دوبارہ کسی جرم میں شریک ہو کر پھر سے جیل کا رخ نہ کریں۔

ہماری جیل انتظامیہ کی بھی یہی خواہش ہے لیکن اس کا طریقہ”وارادات“ قدرے مختلف ہے،انسانیت سوز سلوک کو دیکھ کر خود قیدی دوبارہ اس میں آنے کوئی آرزو نہی رکھیں گے،مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم وبیش پانچ ہزار قیدی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں، انھیں طبی سہولیات میسر نہی،ایک وجہ ڈاکٹر کی کمی بھی بتائی جاتی ہے،علاوہ ازیں خوراک کی کمی،گنجائش سے زائد قیدی،غیر معیاری کھانا ودیگر مسائل پیش کی گئی رپورٹ کا حصہ ہیں۔

عدالتی نظام کی قلعی کھولنے کے لئے بے گناہی پے قیدی کئی سال بعد رہائی کی میڈیا میں شائع ہوتی خبریں ہی کافی ہیں ،ہرچند ڈسٹرکٹ اینڈ ایڈیشنل سیشن ججزگاہے بگاہے جیل کا دورہ کرتے اور معمولی نوعیت کے مجرمان کی رہائی کا حکم صادرفرماتے ہیں اس کے باوجود مقدمات کی بھر مار اور کیس کی شنوائی میں سست روی قیدیوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیے رکھتی ہے۔

عدالتی نظام کی خرابی کی سزا قیدی کے ساتھ ساتھ لواحقین کو بھگتنا پڑتی ہے،خواتین قیدیوں کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے،انکی قید کے اثرات بچوں پے ذیادہ اثر انداز ہوتے ہیں،بشری کمزوروں کی بناء پر کسی سے اگر جرم سرزد ہو ہی جاتا ہے لیکن معاشرہ رہائی کے بعد بھی اس کو قبول نہی کرتا، کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جیل اور قیدیوں کی اصلاح کا کامیاب ماڈل نارویجن ریاستوں کا ہے، شنید ہے کہ جیل خانے ریسٹورینٹ میں بدل چکے ہیں، ناروے میں قیدویوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر ہیں،جیل میں ایجوکیشن سنٹر قائم ہے، قیدیوں کو اکٹھا کھانا بنانے کی آزادی ہے،انھیں ٹی وی دیکھنے، گیم کھیلنے کی بھی اجازت ہے،کسی فن سے آراستہ کرنے کے لیے ورکشاپ بھی موجود ہیں،ٹوتھ پیٹس،برش، صابن،فوڈ ،کولڈ ڈرنک بلا معاوضہ دی جاتی ہیں، جیل کی دیواروں پے قدرتی مناظر پے مشتمل چاکنگ کی جاتی ہے تاکہ ان میں زندہ دلی کے ساتھ جینے کی رمک پیدا کی جائے، تنگ تاریک کمروں میں بند کرنے کی بجائے کھلی فضاء میں انھیں رکھا جاتا ہے انکی ذہنی صحت کی بحالی کے لئے انکا علاج بھی کیا جاتا ہے ۔

بہت سے ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے جیل اصلاحات کے لئے ناروے ماڈل کو اپنا رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں الخدمت فاونڈیشن کراچی کی جانب سے جیل میں قیدیوں کو تربیتی کورس کروانے کی وڈیو سوشل میڈیا پے وائرل ہوئی اور پسند کی گئی،جیلوں میں بند بہت سے باصلاحیت افراد بھی ہوتے ہیں،تقدیر کا لکھا انکو اس مقام پے لے آتا ہے ،انکی اہلیت سے فائدہ اٹھا نے کے لئے این جی اوز کی خدمات لی جا سکتی ہیں،انکی دلچسپی کے مطابق ان کو وہ ہنر سکھایا جائے جو انھیں سماج کا اچھا فرد بنا دے۔

مقام شکر ہے کہ ہمارے ہاں خدا ترس افراد کی فراوانی ہے جو جرمانے کی ادائیگی کر کے معمولی جرم میں قید افراد کی رہائی کو ممکن بنا سکتے ہیں ، تاہم خواتین قیدی قابل ترجیح ہوں تو زیادہ بہتر ہے یہ تبھی ممکن ہے جب جیل انتظامیہ انکے اعدادوشمار فراہم کرے،فقہاء کے مطابق زکوة کا پیسہ بھی اس کار خیر میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔کچھ عرصہ قبل یہ بھی اطلاعات تھیں کہ طویل مدت سے قید افراد کی خلوت میں انکی زوجہ سے ملاقات کے اہتمام کی پلاننگ کی جا رہی ہے، تاحال یہ خبر ہی دکھائی دیتی ہے۔

 روایت ہے کہ خلیفہ دوئم نے دارالندوہ کی بڑی عمارت سفان ابن امید سے اس غرض سے اس وقت چار ہزار درہم میں خریدی کہ اس کو جیل کا درجہ دیا جائے گا جس میں کمروں کے علاوہ تمام سہولیات تھیں جسکا مقصد قیدیوں کو بنیادی سہولت فراہم کرنا تھا،جنوبی ایشاء میں قیدیوں کے مسائل قریبا ایک جیسے ہی ہیں ،ان سے پیش آنے کا سامراجی طریقہ ہی اپنایا جا رہا ہے ،قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد ہماری معشیت پے بھی بوجھ ہے۔

اس بڑھ کر اور کیا انسانیت سوز سلوک اس قیدی کے ساتھ ہو گا جس کو کئی سال کی قید کے بعد عدالتی پروانہ سے یہ معلوم ہو کہ جس جرم کا اس پے الزام تھا وہ ثابت ہی نہی ہو سکا لہذا اب اسے باعزت بری کیا جاتا ہے۔اس غفلت کو جب تلک قبول کرنے کی روائت پختہ نہی ہو گی نہ ہی ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے گا،بیچارہ قیدی ظلم اور ناانصافی کے اس نظام کا ایندھن بنا رہے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :