
وزیر مملکت مریم اورنگزیب سے ایک گزارش
اتوار 15 جنوری 2017

خواجہ محمد کلیم
(جاری ہے)
رئیس عورت بچی کی دیانت اور صاف گوئی سے بہت متاثرہوئی ، اس نے جن سو سے کہا کہ وہ روزانہ اس کے گھر آئے اور کتے سے کھیلا کرے جس کے بدلے میں اسے کچھ سوئیٹس بھی ملیں گی ۔ جن سو یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور اپنی ماں کے پاس واپس چلی گئی ۔ خدا نے اس کے ذہن میں ایک منصوبہ ڈالا اور اس نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ اس گاڑی میں کھانے کی موبائل دکان شروع کرتے ہیں جس سے ان کی غربت بھی دور ہو گی اور وہ اپنا گھر خریدنے کے قابل بھی ہوجائیں گے ۔ یہ منصوبہ بے شک ایک مشکل کام تھا لیکن حیرت انگیز طور پر جن سو کی ماں نے جب گاڑی کی چابی گھمائی تو وہ فورا سٹارٹ ہو گئی ۔ اس چھوٹے سے خاندان کے لئے یہ ایک خوشی کا مقام تھا انہوں نے اسے خدا کی غیبی مدد جانا اور محنت کے ساتھ اس گاڑی میں ایک چھوٹا سا موبائل ریسٹورانٹ کھولا ۔ اس ریسٹورانٹ کی آمدنی کی بدولت جن سو کی فیملی کے حالات تیز ی کے ساتھ بدلنے لگے اور جن سو کو احساس ہو اکہ زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ، بلکہ خدا بھی ان کہ ہی مدد کرتا ہے جو محنت اور خلوص کے ساتھ اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قارئین یہ کوریا کی ایک فلم HOW TO STEAL A DOG کی کہانی ہے ۔ پاکستان میں کوریا کا سفارت خانہ ہر برس اسلام آباد میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ایک فلم دکھانے کا اہتمام کرتا ہے ۔
دوہزار سولہ کے آخر میں پاکستانیوں کو یہ فلم دکھائی گئی ، کوریا کی طرف سے یہ فلم دکھانے کا مقصدپاکستانیوں کو اپنے رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت سے روشناس کرانا یا مارکیٹنگ بھی ہوسکتا ہے لیکن میں اس فلم کو دیکھنے کے بعد اس لئے افسردہ تھا کہ پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما زوال کا شکار ہو چکا ہے ۔ بڑے بڑے شہروں میں جو چند اچھے سینما ہاوٴسز ہیں وہاں بھی پاکستانی فلمیں دیکھنے کو میسر نہیں ۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں اور دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک ہمیں یہ دعوت دے رہے ہیں کہ ہم ان سے کچھ سیکھ لیں ۔ فلمی صنعت کے لوگو ں سے بات کی جائے تو وہ حکومت کے نام کی دہائی دیتے ہیں ۔ لیکن میر ا سوال یہ ہے کہ ستر ، اسی اور نوے کی دہائی میں جب فلمی صنعت اپنے عروج پر تھی اس وقت حکومت اس صنعت کی کیا مدد کرتی تھی ۔ آج تو حالات بہت بدل چکے ہیں ، دنیا سمٹ کر ایک گاوٴں بن چکی ہے ، بے شمار موضوعات میسر ہیں اور جدید ٹیکنالوجی بھی ، اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو سرمایہ کار بھی میسر ہو سکتے ہیں ،پھر کیوں نہیں فلمی صنعت کی بحالی کا دم بھرنے والے ان خطوط پر کام کرتے ، ہرکام کا بوجھ حکومتوں کے کندھوں پر ڈالنے کا صرف ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم تو کچھ نہ کریں گے آپ کچھ کر لیں تو آپ کی مرضی، لیکن فلمیں بنانا حکومتوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔ حکومت آپ کو سازگار ماحول میسر کر سکتی ہے اور بات چیت کی جائے تو یہ بھی کوئی اتنابڑا مسئلہ نہیں ۔ لیکن فلمی صنعت کے بزرجمہروں کو شائد صرف بیانات اور اخبارات کی سرخیوں کا ہی شوق ہے اور اند ر سے ان کا بھی فلم بین مر چکا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زمانے کے حالات کے مطابق نئے موضوعات چنے جائیں دستیاب وسائل کے ساتھ سرمایہ کار تلاش کئے جائیں اور جدید ٹیکنا لوجی کا استعما ل کرتے ہوئے فلمیں بنائیں جائیں اگر یہ راہ اختیار کی جائے تو کیوں نہ ہماری فلمی صنعت عظمت رفتہ کو بحال کر پائے ۔
ہاں مگر حکومتوں کے کرنے کا بھی بہت کچھ ہے ، میڈیا کی جنگ کے اس دور میں کسی دوسرے ملک کی طرف سے کئے گئے کچھ اقدامات ایسے ہو سکتے ہیں جن کا منفی اثر آپ کے معاشرے پر پڑ سکتا ہے اور اس منفی اثر کو زائل کرنے کے لئے حکومتوں کو اپنی کوششیں ضرور بروئے کا ر لانی چاہئیں ۔ موجودہ دور میں جو چیز ہمارے بچوں اور نسلوں کو متاثر کر رہی ہے وہ بھارت میں ڈب کئے جانے والے کارٹون ہیں ۔ ٹام اینڈ جیر ی اب بھی مقبول ہیں لیکن ڈورے مون کارٹون آج ہر بچے کا پسندیدہ ہے ۔ بھارت میں ڈب کئے جانے والے ان کارٹونز سے ہمارے بچے اس لئے متاثر ہو رہے ہیں کہ ان کارٹونز کی ڈبنگ بھارتی سماج کوسامنے رکھ کر ہندی زبان(اردو سے ملتی جلتی ہے) میں کی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے جب بچے ہندی زبان میں بنے کارٹون دیکھیں گے تو وہ اردو نہیں سیکھیں گے بلکہ ان کی زبان میں ہندی در آئے گی اور وہ اپنے سماج میں رہتے ہوئے بھی بھارتی سماج سے زیادہ قریب ہو جائیں گے ۔ کمرشل ازم کے اس دور میں ان کارٹونز کو اچھے خاصے اشتہار بھی مل جاتے ہیں اور یہ بہت بڑے کماوٴ پوت ہیں ۔ کیونکہ بچے بلاناغہ کارٹون دیکھتے ہیں اور ظاہر ہے ابلاغ کے اس دور میں اس کے منفی اثرات کو روکنے کا اور کوئی طریقہ نہیں کہ پاکستان خود یہ کام کرے ،مقبول کارٹونز اردو زبان میں ڈب کر کے چلائے جائیں اور اپنے سماج کے مطابق بچوں کو تعلیم اور تربیت دینے کے نقطہ نظر سے مثبت طرزوں پرنئے کارٹون بھی تخلیق جائیں ۔ اطلاعات کی وزیرمملکت مریم اورنگ زیب ایک نوجوان اور متحرک وزیر ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان میں ایک نئے کارٹون چینل کے آغاز کے لئے وزیراعظم سے بات چیت کریں ۔ پاکستان میں کسی بھی کارٹون چینل کا آغاز اسے شروع میں ہی ایک منافع بخش کاروبار ثابت کر دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بچوں کو جہاں غیرملکی ثقافتی یلغار سے بچا لیں گے وہیں جدید زمانے کے اصولوں کے مطابق غیر محسوس انداز سے ان کو اپنے سماج کی قدریں بھی سکھا لیں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.