عورتوں کا عالمی دن اور میرا قلم

منگل 9 مارچ 2021

Kiran Samad

کرن صمد

اس سال جب عورتوں کے عالمی دن پر کچھ لکھنے کے لیے میں نے قلم اٹھایا تو اس سوچ میں پڑ گئی کہ کس عورت پر لکھوں؟ خواتین کے کس روپ پر روشنی ڈالوں؟ پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرتی ثمینہ بیگ کے بارے میں لکھوں یا مائیکروسوفٹ کی سند یافتہ ماہر ارفع کریم کے بارے میں لکھوں، طنز و مزاح کے رنگ بکھیرتی اداکاراؤں پر لکھوں یا نت نئے گیتوں سے ہماری روحوں کو محصور کرتی گلوکاراؤں کے بارے میں لکھوں۔

پھر خیال آیا کیوں نا دنیا کی چند کامیاب ترین خواتین کی زندگیوں پر قلم سے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے کچھ تخلیق کروں۔ کیوں نا فاطمہ جناح کی پاکستان کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی بارے میں لکھوں۔ کیوں نا بیگم رعنا لیاقت علی کی گھر گھر جا کر تحریک پاکستان کی کامیابی کی مہم پر کچھ لکھوں، کیوں نا پاکستان میں موجود ان خواتین کے بارے  میں لکھوں جو کچھ کر گزرنے کا جذبہ لیے، محنت کا دامن تھامے، دشمنوں کے ارادوں کو خاک میں ملانے کے لیے ہر دم تیار پاک فضائیہ میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

(جاری ہے)


پھر سوچا شرمین عبید کے بارے میں لکھتی ہوں کہ کیسے انہوں نے اپنی ڈاکومنٹری کے ذریعے پاکستان کا نام جگ میں روشن کیا۔  پھر خیال آیا عورت کا ہر روپ ہر پہلو قابل تعریف ہے عورت جب ماں ہے تو رات رات بھر جاگ کر اولاد کی پرورش کرتی ہے۔ اولاد بیمار ہو تو ماں خود کو اولاد کی تیمارداری میں مصروف کر لیتی ہے۔ عورت اگر استاد ہے تو اپنے طالب علموں میں ہنر مندی جگاتی ہے۔

عورت بہن ہے تو حیا کی مثال۔ عورت بیوی ہے تو وفا کا پیکر۔
اہمیت کی بات کی جاۓ تو ہر عورت اہم ہے چاہے گھر سے سکول کے لئے نکلتی طالب علم جس کا مقصد روز اسکول میں کچھ نیا سیکھنا ہے یا پھر معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ایک ورکنگ وومن۔ وبا کے دنوں میں اپنا گھر بار، بچے چھوڑ کے پہلی صفوں میں مریضوں کی خدمت کیلئے موجود ڈاکٹر ہو یا نرس عورت نے زندگی کی باگ دوڑ ہر محاذ پر احسن طریقے سے سنبھالی ہوئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :