شکریہ لاک ڈاؤن

جمعرات 9 جولائی 2020

Kiran Samad

کرن صمد

 ماما نے میرے ہاتھ میں جوس کا گلاس تھمایا اور کچن میں کھانا پکانے چلی گئیں۔یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے دنیا میں مجھ سے زیادہ مکرم شخص اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔زندگی کے بے حد مشکل ترین دن اس قدر آسانی سے گزریں گے میں نے یہ سوچا نہ تھا۔کہا جاتا ہے کہ ورکنگ وومن کے بچوں میں بھی ان کی شخصیت کی چھاپ موجود ہوتی ہے اور خاص کر بیٹیاں تو اپنی ماں کا آئینہ ہوتی ہیں۔

پچھلے بیس سالوں میں زندگی کی دوڑ میں کچھ ایسے خود کو بھاگتا پایا کہ کبھی  بین الصوبائی تقریری مقابلوں کا حصہ بنی تو کبھی کالج میں منعقد ہونے والے تمام سیمیناروں میں اپنی موجودگی کی یقین دہانی کروائی۔ کالج کی ہر لڑکی مجھے میری تقریروں کی وجہ سے جانتی تھی پھر جب کالج ختم ہوا اور یونیورسٹی میں داخلے تک بات آن پہنچی تو میں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کی اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔

(جاری ہے)

مجھے یاد ہے ہر مہینے تنخواہ کے ساتھ میرے اکاونٹ میں جب بونس آیا کرتا تھا میں ماما کے لیے کچھ لیتی تھی۔ ماما کا تعلق تعلیمی شعبے سے ہے وہ پچھلے بیس سالوں سے مختلف نامور تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ماما اب تک کم وبیش دس ہزار بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر چکی ہیں۔میں نے جب آنکھ کھولی تو ماما کو سرخ سیاہی والے قلم اور امتحانی کاغذوں کے ساتھ پایا۔

کبھی کسی عید پر ہم ماما کے ساتھ رزلٹ بنواتے تو کبھی کسی سالانہ فنکشن کے لئے ماما کو ڈرامہ لکھتا دیکھتے۔ماما کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہر ادارہ ہی ماما کو وائس پرنسپل کا عہدہ دے دیتا تھا۔ ہم تو کبھی اظہار بھی نہیں کر پائے کہ کئی دفعہ مختلف خوشیوں میں ہمیں ماما کی کمی محسوس ہوتی تھی۔بچپن میں سوچا کرتی تھی کہ کاش ایسا ہو دوسرے بچوں کی ماما کی طرح میری ماما بھی سارا وقت میرے ساتھ رہیں۔

کیونکہ ماما کے ساتھ ہمارا وقت بہت گنا چنا ہوتا تھا۔مقررہ وقت پر ہمیں اٹھنا ہوتا تھا۔سونا ہوتا تھا۔ کھا نا ہوتا تھا اور کھیلنا ہوتا تھا۔ زندگی کے 20 سال ہم نے بہت نپے تلے گزارے۔
”رات دیکھا جو ایک خواب تو میں سہم سی گئی
سب کچھ تو تھا مگر تم نہیں تھیں
ہیں زندگی کی خوشیاں اور بھی میرے ساتھ
مگر تم ساتھ نہیں تو کچھ بھی نہیں“
ماما کی اس مصروفیت کو دیکھتے ہوئے نویں جماعت میں میں نے ان کے لیے یہ نظم لکھی تھی۔

کورونا کی وبا سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔اس کے انسانی زندگی,انسانی صحت پر خطرناک اثرات, اس کی تمام تر احتیاط ہم اب جان چکے ہیں مگر پاکستان میں جب اس وبا کے باعث حکومت نے لاک ڈاؤن کا ارادہ کیا اور 15 مارچ 2020 کو ملک گیر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھی ماما ایک  تعلیمی ادارے میں موجود اپنے آفس میں تھیں۔پھر معلوم ہوا کہ جب تک لاک ڈاؤن نہیں کھلتا اور معمولات زندگی دوبارہ بحال نہیں ہوجاتے ماما کی بھی چھٹیاں ہیں۔

اب ماما گھر پر ہوتی ہیں یوں معلوم ہوتا ہے گویا بچپن لوٹ آیا ہے۔ماں کا یوں ہر وقت میرے پاس گھر پر میسر ہونا مجھے نعمت الہی سے کم نہیں لگتا۔باقی ورکنگ کلاس کی طرح لاک ڈاؤن نے ہماری زندگی پر بھی بہت گہرا اثر مرتب کیا ہے مگر ماں کی اس بلاتفریق موجودگی نے تمام  پریشانیاں,تمام تکلیفیں,اور بالخصوص تمام خامیاں اپنے اندر سمو لی ہیں لہذا میں بخوشی یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ شکریہ لاک ڈاؤن۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :