جب برف پگھلے گی

منگل 16 نومبر 2021

Kiran Samad

کرن صمد

روہے انسانی زندگی میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم روز مرہ کی زندگی میں رویوں کی اہمیت پر بات کریں تو کاغذ نہیں کتابیں تک بھر جائیں گی مگر رویوں  پر بات ختم نہ ہوگی۔مثبت سوچ مثبت رویے کو جنم دیتی ہے اور مثبت رویہ معاشرے میں سلجھاؤ پیدا کرتا ہے۔اگر بلا وجہ کسی شخص پر تنقید کی جائے تو اس میں موجود تمام تر صلاحیتیں آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں ۔

لیکن اگر بہترین اخلاق اور رویے سے کسی کو بات سمجھائی جائے تو نہ صرف انسان خوش اسلوبی سے اپنے کام میں بہتری لاتا ہے بلکہ اس کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
سعد یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتا تھا گویا وہ زیادہ عمر کا نہیں تھا مگر ابلاغیات کا ماہر تھا۔  وہ ایک بین الاقوامی کمپنی میں اعلی عہدے پر فائز تھا۔

(جاری ہے)

محض 25 سال کی عمر میں اس نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا کر یہ بات ثابت کر دی تھی کہ مسلسل محنت سے کامیابیوں کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

وہیں فاطمہ سعد کے ماتحت کام کرنے والی ایک نہایت پرجوش لڑکی تھی جس کے خواب ہنر اور محنت اسے کامیابیوں کی بلند منزلوں تک پہنچا رہے تھے۔ مگر کہیں نہ کہیں وہ نہایت پریشان تھی کہ کہیں کام میں ہونے والی کسی غلطی کی بنا پر اسے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔اور سب کے سامنے اسے بے عزت نہ کیا جائے۔
 پرانی نوکری کے کچھ  تلخ تجربات کی بنا پر اسے لگتا تھا کہ باس کرہ ارض کی سب سے بھیانک اور ظالم مخلوق کا نام ہے۔

یہ بات اس کے ذہن پر سوار تھی کہ کسی نہ کسی دن اسے ذلیل کیا جائے گا۔ ہمیشہ اپنی قابلیت کی وجہ سے سرا ہی جانے والی فاطمہ اپنے دفتری کاموں میں مشکلات کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی تھی۔ بالآخر باس نے اسے بلایا فاطمہ سمجھی کہ شاید اب اسے ڈانٹا جائے گا اور اسےبے عزت بھی کیا جائے گا مگر سعد کے ان الفاظ نہے اسے ایک عجیب حیرت میں مبتلا کر دیا   جب باس نے کہا میں جانتا ہوں کہ آپ اپنا کام بہترین طریقے سے کرتی ہیں اور  مجھے یقین ہے کہ آپ مزید اچھا کام کرینگی میں نے آپ کے اندر کام کرنے کی لگن  دیکھی ہے اور میں یہ بات ہر کسی کو نہیں کہتا جب سعد نے دیکھا کہ فاطمہ بے حد پریشان ہو رہی ہے تو اس نے کہا and this is not end of   the world
 باس کے یہ الفاظ سن کر فاطمہ میں ہمت آئی اور مزید اچھا کام کرنے کا عزم پیدا ہوا بہترین تو تھی ہی مگر تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے اسے مزید بہتر بنا دیا فاطمہ ہمیشہ کام کی وجہ سے نہایت پریشان رہتی تھی کہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہو جائے ۔


اب وہ جب بھی پریشان ہوتی تو سعد کے یہ الفاظ  یاد رکھتی کے this is not the end of the world
 فاطمہ اپنی یونیورسٹی کی ٹاپر تھی اور انسانی حقوق کی سب سے بڑی تنظیم کی رکن تھی اس لیے بے حد حساس تھی رویے اس پر بہت اثر کرتے تھے مگر سعد کے اس رویے نے اس میں ایک الگ سی جستجو  پیدا کر دی تھی
مگر قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا دو ماہ بعد ہی  گھٹتی ہوئی صحت کی وجہ سے فاطمہ کو نوکری چھوڑنی پڑی۔
اب رات کے پچھلے پہر وہ مسلسل دو گھنٹوں سے رو رہی تھی یہ آنسو دکھ تکلیف رنج ندامت کے نہیں تھے بلکہ یہ آنسو اطمینان اور سکون قلب کے تھے یوں محسوس ہوتا تھا  گویا کئی برسوں سے رویوں کی وجہ سے جمی ہوئی  برف پگھل چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :