
علم و ادب کی قدآورشخصیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر تحسین فراقی
پیر 23 نومبر 2020

لقمان اسد
(جاری ہے)
تنقیداتِ تحسین فراقی (منتخب مقالہ جات )جنہیں اشتیاق احمد نے مرتب کیا اس کے تبصرہ میں صفدر رشید رقمطراز ہیں " ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقیدی و تحقیقی نگار شات کا دائرہ چار دہائیوں پر محیط ہے۔ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ "جستجو " 1981 میں شائع ہوا تھا جس میں 70کی دہائی کے تحریر کردہ مضامین شامل تھے۔اگرچہ کسی تخلیق کار اور نقاد کو کہیں وابستہ کر دینا کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بنیادی طور پر ڈاکٹر فراقی عسکری روایت کے گلستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ستر کی دہائی میں چند فعال نوجوانوں کا ایک گروہ نظر آیا جو علمی فکری حوالے سے مضبوط بنیادیں رکھتا تھا اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنا چاہتا تھا ان میں سراج منیر ،احمد جاوید،سہیل عمر اور ڈاکٹر تحسین فراقی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔انہوں نے "روایت" کے نام سے ایک جریدے کا بھی آغاز کیا ،جس کے صرف چار شمارے منظرِ عام پر آسکے۔یہ شمارے آج بھی ایک دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں انہی جرائد میں ڈاکٹر فراقی کے سید حسین نصر اور گائی ایٹن کے دو اہم مضامین کے تراجم شائع ہوئے تھے جو اب "فکریات "کا حصہ ہیں ۔
ڈاکٹر فراقی کی تنقیدی کارگزاری پر سراج منیر رائے دیتے ہوئے "جستجو"کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں " پہلی چیز جو ان کے ہاں سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے ۔وہ، ان کا علم ہے۔اردو کے ساتھ ساتھ،فارسی شاعری کا گہرا اثر،مطالعہ اور ان سے منسلک علوم پر نظر ،عربی ادب سے دلچسپی ،فلسفے اور نفسیات کا فہم،دنیا بھر کی نظریاتی تحریکوں کا علوم و فنون پر اثر،یہ ان کے مطالعہ کے بنیادی شعبے ہیں۔
غالب و اقبال ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقید کا معتبر حوالہ ہے۔گووہ اردو نقاد ہیں لیکن انھوں نے غالب کی فارسی تخلیقات پر بے مثال کام کیا ہے اور اسی موضوع پر ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ " غالب ،فکر و فرہنگ" کے نام سے شائع ہوا جبکہ 2012 میں مکمل نظر ثانی اور اضافوں کیساتھ اسے " غالب انسٹیٹیوٹ نئی دہلی نے بہت اہتمام کیساتھ شائع کیا"۔
ڈاکٹر تحسین فراقی نے اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز 1970 میں کیا ۔وہ شاعری کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں " کوئٹے نے کہا کہ روحِ انسان کا بہترین اظہار شاعری میں ہوتا ہے۔میں اس سے اتفاق کرتا ہوں ۔شاعری میں ایسی خوبیاں ہیں جو نثر میں نہیں ہیں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شاعری حافظے کا حصہ بن جاتی ہے ۔نفسیاتی طور پر انسان میں شاعری کو قبول کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ تمام فنون میں جس کا سب سے زیادہ اظہار ہوا وہ شاعری ہے۔ اس لیے اردو تنقید میں شاعری پر زیادہ لکھا گیا ہے تو یہ زیادہ تعجب کی بات نہیں۔ڈاکٹر تحسین فراقی کی رائے میں علامہ اقبال کے بعد اہم شاعر ضرور آئے لیکن بڑا شاعر کوئی نہیں آیا۔بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتا ہے ۔بڑی شاعری میں لفظ و معنی غیر معمولی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔اردو شاعر ی میں غالب اور میر اس کی بڑی مثال ہیں۔ن م راشد،مجید امجد،منیر نیازی،اخترالایمان،فیض احمد فیض اور وزیر آغا کو میں اہم شعراء میں شمار کرتا ہوں۔فیض کو باقی شعراء پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ نظم و غزل دونوں کے یکساں طور پر اہم شاعر ہیں۔
ڈاکٹر تحسین فراقی جدید اسلامی فکر پر لکھنے والوں میں حسین نصر ،رینے گینوں،گائی ایٹن اورہسٹن سمتھ سے متاثر ہیں ۔مولانا شبلی نعمانی ان کی پسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں جبکہ علامہ اقبال کو وہ اپنی آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہیں۔اقبال کے علاوہ ڈاکٹر تحسین فراقی کو جو شعراء بہت زیادہ پسند ہیں وہ رومی،بیدل اور غالب ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی کی ایک نظم کا،عنوان " انتظار"ہے ، کئی برس قبل عربی میں ترجمہ ہوا جو ایک ممتاز مصری ادیب ابراہیم محمد ابراہیم المصری نے کیا اور جامعہ الازھر قاہرہ کے مجلے میں شائع ہوا ۔"شاخِ زریاب "کے سر ورق پر سیف اللہ خالد تحریر کرتے ہیں "اس صحیفے کا حرف ،حرف نیرنگ تجربوں کی چھلکتی چھاگل ہے ۔فلیپ پر پروفیسر جعفر بلوچ اور میرزا ادیب کی آراء بھی شامل ہیں۔میرزاادیب ڈاکٹر تحسین فراقی کی شاعری پر اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں"ہمارے پرانے تذکرہ نگاروں کی تحریروں میں مختلف شاعروں پر رائے زنی کرتے ہوئے فصاحت اور بلاغت کا استعمال عام ہے،جہاں تک میں سمجھتا ہوں تحسین فراقی کے ہاں فصاحت تو ہے ہی ،مگر جس چیز کو بلاغت کہا جاتا ہے وہ بہت نمایاں ہے۔شاعر کو لفظوں کی گہری مزاج شناسی کا جوہر حاصل ہے ۔ان کا اسلوب بلیغ ہے۔تحسین فراقی خلاق ذہن کے مالک ہیں ۔ان کی تخلیقی کارگاہ سے جو سازوسامان برآمد ہوتا ہے اس کا اپنا حُسن ،اپنی افادیت ہے"۔
ڈاکٹر تحسین فراقی کے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ اختتام:
چراغ ایک ہے اور د و گھروں میں جلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ بھی بولتی ہے اس کے بھی لب ہوتے ہیں
گفتگو کرنے کے سو طرح کے ڈھب ہوتے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
لقمان اسد کے کالمز
-
” خبریں“ ایک کردار، ایک تحریک، ایک اخبار
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
سر زمین ِافغانستان ۔سپرپاورز کاقبرستان
بدھ 28 جولائی 2021
-
مہذب دنیا کا بد صورت اور مکروہ چہرہ
منگل 25 مئی 2021
-
آہ جرنیلِ صحافت ضیا شاہد
بدھ 14 اپریل 2021
-
اللہ کے نوکر !
بدھ 24 مارچ 2021
-
عوامی مسائل کون حل کرے گا ؟
منگل 16 مارچ 2021
-
سماج کیسے بدل سکتا ہے
بدھ 24 فروری 2021
-
نئے سال کے دکھ
اتوار 21 فروری 2021
لقمان اسد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.