قوم پرستی،ریاست کے استحکام کے لیے ضروری ہے

جمعرات 7 فروری 2019

 Mansha Fareedi

منشاء فریدی

ایک اخباری خبر ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت میں”قوم پرستی“ کا جوش عام شہریوں کو جعلی خبریں پھیلانے کی تحریک دیتا ہے۔تحقیق میں پتا چلا ہے کہ اْن میں سے بہت سے لوگوں میں حقائق کی اہمیت سے کہیں زیادہ قومی شناخت کو اْجاگر کرنے کی جذباتی خواہش جوش مارتی نظر آتی ہے۔ بقیہ خبر اس موضوع سے مربوط نہ ہے کہ جس پر بحث کی جا سکے۔

میرے نزدیک قومیتی شعورایک فطری جذبہ ہے جو اپنی عظمت کا اعتراف ہے۔ہمارے یہاں”قوم پرستی (Nationalism)” کوایک تعصب اور گالی کے طور پر لیاجاتا ہے۔ جہاں بھی” قوم پرستی” کی بات ہو وہاں ہمارے سکیورٹی ادارے(معذرت کے ساتھ) حرکت میں آ جاتے ہیں اور اس” باشعور تحریک” کو کچلنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس خبر نے ایک لحاظ سے ہمیں ایک درس دیا ہے کہ” قوم پرستی “ایک مثبت فطری جذبہ ہے جس کو مصنوعی کوششوں سے نہیں کچلاجا سکتا تو ایسے میں اس جوش اور جذبے کو کچلنے کی بجائے اسے مزید فروغ دیا جائے۔

”قوم پرستی “ میں سمجھتا ہوں کہ مرکز کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دوسری صورت میں وفاق یا مرکز کمزور سے کمزور تر ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان میں رہنے والے لوگ اپنی اپنی انفرادی پہچان اور ثقافت رکھتے ہیں۔قومی ثقافت میں علاقائی اَدب کو بھی شْمار کیا جاتا ہے۔ علاقائی اَدب کو محض علاقے تک محدود رکھنا یا سمجھناکسی بھی ثقافت اور ادب کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔

یہ ایک عالمگیراور آفاقی سَچ ہے کہ کسی بھی زبان یا ’بولی ‘کا اَدب عالمگیر قرار پاتاہے۔ بنیادی طور پر ہم سرائیکی، پنجابی، بلوچی، سندھی و دیگر ثقافتوں کے حامل لوگ پاکستانی ثقافت کے علمبردار ہیں کیونکہ بیرونی ممالک میں ہماری پہچان پاکستان سے ہے۔ اس لئے ریاست کو بھی چاہیئے کہ ہمارے حقوق کاتحفظ کرے۔ ریاستی آئین میں بھی ایک عام آدمی کے تحفظ کے لئے آئینی گْنجائش موجود ہونی چاہیئے تا کہ اْمراء اورخواص ہی ریاست کی سہولیات کے حقدار نہ ٹھہریں۔

 ہندوستانی اس میدان میں شاید بازی لے گئے ہیں۔ لگتا ہے وْہ سَچے قوم پرست ہیں۔ ایسی قوم اور قومیت کے تحفظ کے لئے حقائق کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ خود شناسی در اصل ”خْدا شناسی“ ہے۔ اپنی قوم پرستی کاتحفظ اپنی ریاست اور ریاست کی دھرتی سے بے انتہاء محبت کا نام ہے۔ اس خبرسے ہم اہلِ پاکستان کو بھی سبق لینا چاہئے کہ ہمیں ذاتی اغراض و مقاصداور پیٹ پوجا جیسی ترجیحات کو پسِ پْشت ڈالتے ہوئے “مرکز پسندی” اور “قوم پرستی” سے محبت ہونی چاہئے۔

راقم کی اس بحث اور گفتگو سے یہ نتائج ہرگز نہ لئے جائیں کہ ہندوستان کے ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے۔ بلکہ اس سے تاثر لیا جائے کہ اس پیغام کو آگے پھیلایا جا رہا ہے جس سے اپنی ریاست سے محبت اور ریاست کی الگ ثقافتوں سے مودت کا جوش عام ہو۔ آج اگر عالمی سطح پر نگاہ دوڑائی جائے تو وہاں کے لوگ علاقائی اَدب و ثقافت (جسے راقم نے انٹرنیشنل ادب اور ثقافت کا نام دیا ہے) کے ساتھ ساتھ مرکز کا تحفظ بھی عشق کی حد تک کر تے ہیں تو ہماری ترجیح ہونی چاہئے کہ ہم ” فلاحی ریاست” کے لئے کام کریں اور اصلاحِ ملک وملت کو اپنا منشور بنائیں اور تعمیری تبدیلی لے آئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :