سزائے موت کا قانون،پراسیکیوشن اورناانصافیاں

اتوار 10 فروری 2019

 Mansha Fareedi

منشاء فریدی

عجیب لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سزائے موت کا عمل معاشرے میں مثبت تبدیلی کاباعث ہے۔ اس عمل سے جرائم پیشہ عناصر اعمال بد سے توبہ تائب ہو کر راہ راست پر چل پڑتے ہیں۔ غرضیکہ معاشرہ مستقبل طور پر امن کا گہوارہ بن جاتاہے۔یہ دلائل محض بے وقوفانہ ہیں۔اس خیال کو اگر خوش فہمی کا نام دے دیاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ سزائے موت کا قانون صرف اور صرف انتقامی کارروائیوں اور اپنے سیاسی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔

بلکہ انہی اغراض مقاصد کیلئے ہی استعمال کیا جاتا ہے ! میری ان سطور پر یقینا حکام مملکت و عدلیہ خفاء تو ضرور ہوں گے۔ کہ سزائے موت کاعمل نہایت ہی ایماندارانہ طریقے سے انجام پاتا ہے۔لیکن اگر ہمارے عدالتی حکام یعنی ججز حضرات عملی زندگی میں بذات خود ان تمام معاملات کو مانیٹرکریں تو حقائق سامنے آ جائیں گے کہ کس حد تک تحقیق و تفتیش کا عمل شفاف
ہے۔

(جاری ہے)

۔۔سردار انہ و جاگیر دارانہ نظام کی مداخلت پر مقدمات کا قائم کرنا۔مقدمات کے اندراج میں کرپشن کا سوفیصد عمل دخل۔ پولیس اور ایف آئی اے وغیرہ میں بد عنوانی کا وسیع سطح پر پایا جانا۔ یہ وہ عوامل و محرکات ہیں کہ جو سزا کے عمل کو سو فیصد مشکوک بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتے ہیں۔ جن کو بنیاد بناتے ہوئے میں پاکستان میں سزائے موت کو ختم کرنے کی رائے دینے میں حق بجانب ہوں۔

کس قدر مضحکہ خیز دلیل ہے کہ ہمارا مذہب اسلام سزائے موت کی اجازت و حکم دیتا ہے۔ یہی بات گذشتہ دنوں ایک سرکاری و حکومتی عہدیدار بھی چسکے لے لے کر کہہ رہا تھا کہ جب ہمارا RELIGION ہی سزائے موت کی اجازت دیتا ہے تو پھر ہم کیوں نہ عمل پیرا ہوں۔؟ 
افسوسناک امر یہ ہے کہ اقتدار پر برا جمان ارباب ( حاکما نِ وقت) یہ شعور تک نہیں رکھتے کہ کیا اسلام اسی طرح کی پرا سیکیوشن ( تحقیق و تفتیش) کی اجازت دیتا ہے جو فی الوقت پاکستان میں رائج ہے۔

جیسی پولیس اور تفتیشی ادارے اور سیاسی نظام پاکستان میں عوام پر مسلط ہے۔؟ کیا اسلام غلیظ نظام کی اجازت اور حکم دیتا ہے۔؟ قرآن و حدیث اور اسلامی فقہ بھی ہمارے سامنے عملی نمونہ ہیں۔ جس میں سب کچھ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ جرائم پر قابوپانے اور سوسائٹی کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کیلئے نہایت ہی واضح انداز میں احکامات اور ضابطہ اخلاق موجود ہے۔

 قرآن و حدیث نے تو واضح انداز میں انسانی حقوق وضع کر دیئے ہیں۔ حتیّٰ کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کا بھی حکم دے دیا گیا ہے۔کمال کر دیا ہے ہمارے ارباب اقتدار و اختیار ،قانون سازوں اور منصفوں نے کہ جو اس دلیل کو طاقت دینے کیلئے مذہب کا سہارا لے رہے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے تو ایسی تحقیق و تفتیش کا کہیں ذکر ہی نہیں کیا۔ یہاں تو تفتیش کا یہ کرائٹیریا ہے کہ خود ساختہ مدعی اور خود ساختہ موٴ قف پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح گواہ بھی جھوٹے بنائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں گواہوں کے کردار پر نظر نہیں رکھی جاتی اور نہ ہی یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کس حد تک جھوٹ کو اپنایا۔؟ اگر وہ سراپاجھوٹ ہیں تو کیا عدالتی نظام میں ان کی گواہی سند کا درجہ رکھتی ہے۔؟ اگران حالات میں ان کی گواہی کو بطور سند تسلیم کر لیا جائے تو شاید یہ انصاف اور عدل کا صریح قتل ثابت ہوگا۔

آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دباؤ میں آکر اور سادہ لوح عوام الناس میں اپنی کار کر دگی بہتر بنانے کیلئے حکومت وقت نے پھانسیوں پر عملد رآمد کا جو سلسلہ شروع کیا ہے۔ میری ذاتی اور غیر جانبدارانہ رائے کے مطابق درست اور صحیح فیصلہ نہیں تھا۔ وجو ہات وہی ہیں جن کا مذکورہ بالا سطور میں ذکر کر چکا ہوں کہ محکمہ پولیس میں تحقیق و تفتیش کا عمل سوفیصد حد تک میرٹ کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔

اور اس پر ہماری عدلیہ نے بھی
پولیس رپورٹ کو معیار اور سند کا درجہ دے رکھا ہے۔ پھانسیوں پر عملدر آمدکے سلسلہ میں اگر کسی ذمہ دار اور صاحب اختیار اتھارٹی سے یہ سوال کیاجائے کہ کس بنیاد پر کسی ملزم کو مجرم بنا کر پھانسی دے دی گئی تو یقینااس حوالے سے کوئی مدلل جواب نہ آئے گا۔ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پھانسی کا عمل محض عوام کو پریشرائز کرنے کیلئے ہی رائج کیا گیا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک اور اس کے علاوہ سعودیہ و ایران میں پھانسی جیسا ظالمانہ و جابرانہ نظام رائج ہے۔ یہ کوئی مضبوط و معقول جواب اور دلیل نہ ہے۔ کیونکہ سعودیہ و ایران اپنے اندر آمرانہ نظریات کے حامل ہیں گو کہ ایران خود کو جمہوری ریاست قرار دیتا ہے۔ اسی طرح امریکہ بھی چونکہ انفرادی مفادات کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیاررہتا ہے۔

اور ایک توسیع پسند قوت ہے۔ اس کا بھی انتہا پسند ہونا بعیدنہیں ہے۔ اس لئے وہاں بھی سزائے موت کا قانون لاگو اور نافذ ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ مملکت خداداد پاکستان کہ جسے قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم مدبر مفکر اوررہنما نے وجود بخشا اور تجسم کی۔ آج کرپشن کے ناسور کے باعث مفلوج ہو چکا ہے۔ جا گیر دارانہ ، آمرانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے باعث اپنا اصل چہرہ مسخ کر بیٹھا ہے۔

یہاں کا پولیس نظام ہے کہ مکمل طورپر ٹھیکے پر چل رہا ہے۔ حتیّٰ کہ آئی جی لیول کا عہدہ بھی مکمل طور پرسیاست کی مداخلت پر کام کرتا ہے۔۔ تو ان صورتوں میں انصاف کی رمق ہی باقی نہیں رہتی کہ جس کی کچھ حد تک تحسین کی جائے۔! یہ وہ حقیقتیں ہیں کہ جن سے انکار و رو گردانی کسی طور بھی ممکن نہ ہے۔ ایسے میں بھی ہمارا برسر اقتدار طبقہ یاوہ کم فہم حلقے و افراد جو کہتے ہیں کہ سزائے موت پرعملد رآمد خصوصاً پاکستان میں ایک مثبت اور انتہائی ضروری عمل ہے۔

میرے یقین کے مطابق وہ بیچارے بے وقوفی کا شکار ہیں۔ اب اگر عدلیہ برانہ منائے تو رائے دینے میں حق بجانب ہوں کہ پاکستان میں پھانسیوں کے ذریعے جو ملزمان یا افراد مارے جا رہے ہیں ، ہرگز گنہگا یا مجرم نہیں ہیں۔ وہ اس لئے کہ ہمارا پرا سیکیوشن سسٹم ہر ملزم کو سزا دلانے کے عمل کی حتی المقدور کوشش کرتا ہے۔۔۔ خواہ و ہ ملزم ، مجرم نہ بھی ہو۔! محض ابتدائی اطلاعی رپورٹ کا اندراج پتھر کی لکیر ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہی ایف آئی آر حدیث کا درجہ رکھتی ہے۔

بھلا بد عنوان پولیس سسٹم کب قانون کے تقاضے پورے کرتا ہے۔۔۔؟ تھانوں میں تفتیش کے عمل کے معیار کی یہ صورت حال ہے کہ سیاسی مداخلت قانونی تقاضہ بن چکی ہے۔ ہر مقدمہ کے اندراج کے پیچھے یہ اوامر پوشیدہ ہوتے ہیں کہ سیاسی مداخلت قانونی تقاضے پورے کرتی ہے۔؟تھانوں میں تفتیش کے عمل کے معیار کی یہ صورت حال ہے۔ کہ سیاسی مداخلت قانونی تقاضا بن چکی ہے۔

اسی طرح ہر مقدمہ کے اندراج کے پیچھے یہ منافقت بھی چھپی ہوتے ہے کہ کس طرح سیاسی و نظریاتی مخالفین کو پچھاڑا جائے۔ یا کس طرح ان پر سیاسی برتری قائم کی جائے۔؟اختصار کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر تحریر کے مقصد کو واضح کیا جائے تواس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان میں سزائے موت یعنی پھانسیوں پر عملدر آمد ایک مضحکہ خیز اور بے وقوفانہ عمل ہے۔

! اس سے ناکردہ گناہوں میں پھانسی پانے والوں کے ورثاء میں مملکت کیخلاف انتقام کی آگ یقینا بھڑک اٹھتی ہے۔ جو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میں اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ حالات اور دلائل کی روشنی میں سسٹم سے عرض ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور حقیقت پسندوں دانشوروں کے مدلل دلائل و احتجاج کوسامنے رکھتے ہوئے پھانسی اور سزائے موت کے عمل اور قانون کے خاتمے کیلئے فوراً ہی قانون سازی کی جائے۔

تاکہ ناا نصافیوں کا سلسلہ مستقل صورت میں ختم ہو سکے اور ریاست مستقل امن کا گہوارہ بن سکے۔ پھر بھی اگر ہمارے ارباب اقتدار کی فطرت سزائے موت اور پھانسی جیسے بھیانک اور غیر انسانی عمل کی طرف مائل رہتی ہے۔ تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہمارا سوشل سسٹم طالبان اور داعش کے ان مظالم کو جائز قرار دے دے۔ جن کے تحت انسانوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں یا لٹکا دیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :