علاج ِ ظلمت ِ شب

ہفتہ 16 مارچ 2019

 Mansha Fareedi

منشاء فریدی

سوچیں مصلوب ہورہی ہیں اور مفکرین کو سولی پر لٹکا یا جارہارہے ہزار ہاغم ہیں کہ جو ہستی کو لاحق ہیں۔ اس صورت میں اگر افکار پر پابندی لگ جائے تو یقینا تاریکیاں مقدر بن جائیں گی اور ظلمتیں تقدیر کی طرف سے ہمیں بھی تقسیم ہو جائیں گی جیسا کہ اندھیرے اس وقت ہم سب کا مقد رہیں۔اندھیروں کا رواج آج کل اقدار کے طور پر معروف ہے جس کااطلاق ہماری قدریں بن چکا ہے ان حالات کو دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ اقدار جو فی زمانہ رائج ہیں معاشرے کا مثبت پہلو اور اہم نکتہ ہیں؟ جی ہاں ہمارا مجموعی معاشرہ ان اقدار کو مثبت پہلو ہی قراردے رہا ہے ہم نے ہمیشہ سچائی کو جھٹلایااور جھوٹ کوپزیرائی بخشی ،جبھی تو سماج میں جھوٹ کو اعلی مقام حاصل ہے اور سچائی کو رسوائی! جیساکہ قبل ازیں کہہ چکا ہوں کہ وہ قدریں جو فی زمانہ رائج ہیں انہیں مثبت اقدار کے طور پر اپنایا جارہا ہے یعنی کذب و ریائی کوسندکا درجہ حاصل ہے او رمحض اسی دکھاوے کو ہی امتیازی حیثیت حاصل ہے حقائق سے انحراف اصولی طورپر جائز تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے اس مجموعی رویے کے نتائج جو بھی نکلیں گے یقینا اس سے ہم نالاں ہوں گے، شاکی ہوں گے پھر سسٹم کو ہی کوسیں گے یہ ہماری سرشت بن چکی ہے کہ ہم نتائج و عواقب سے بے نیاز ہو کر ذاتی مقاصد کے لیے اپنے اعمال و افعال ترتیب دیتے ہیں۔سو نتائج جوہمارے سامنے ہیں اب تڑپنے اور پھڑکنے کا کیافائدہ؟ آخر نظام کے وضع کرنے والے تو ہم خود ہی ہیں۔دنیا میں حکومت کرنے یا نظام حکومت چلانے کے متعد طریقے ہیں جو نافذ العمل ہیں جن میں جمہوریت بھی ایک عمل ہے جسے دنیا میں اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ عرب ممالک میں شاہی نظام ہے۔

جمہوریت کا مکمل قحط ہے۔ ہمیں تو اس پربھی فخر نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوری نظام رائج ہے ۔کہنے کو یہاں جمہوریت ہے مگر دل سے ماننے کو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔بظاہر عوام کے ووٹوں سے صاحبان اقتدار اور ارباب ِ بست کشاد چنے جاتے ہیں۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے جس کا ادراک ہر خاص و عام کو ہے۔سوائے سادہ لوح لوگوں کے۔! وہ بھی ایک دن سمجھ جائیں گے!ہم بھی بڑے سادہ ہیں،اسی سے بھلائی کی امید کررہے ہیں جو ہمیں زندہ درگور کر رہا ہے۔

میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارا الیکشن اور سیاسی سسٹم ناکارہ ہے اس نظام سے نہ ہی کسی کو انصاف ملا اور نہ ہی کبھی ملے گا۔۔
ناانصافیوں کی لا تعداد مثالیں ہیں جو اردگرد پھیلی ہوئی ہیں۔جب انتخابات منعقد ہوتے ہیں توہمار ا جو ش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔سرداروں (سیاستدانوں ) کی چاپلوسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ دو وقت کی روٹی نہ کھانے والے بھی ان بتوں کے لیے طرح طرح کے کھانوں سے مزین دسترخواں سجائے لیتے ہیں تاکہ کسی طرح علاقہ میں ہماری عزت و ناموس میں اضافہ ہو۔

ہوتا کیا ہے۔۔۔؟ وہی ہوتا آرہا ہے! پھرتو ہمارے (عوام کے ) ہی حقوق کا قتل ِ عام شروع ہو جاتا ہے۔ ہم پولیس اور بدمعاشوں کے تشدد کاباضابطہ طورپر شکار ہونے لگتے ہیں۔ہماری روزی روٹی بند کردی جاتی ہے بلکہ رزق پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں حتی کہ ہمیں ہی حقوق سے یکسر محروم کردیاجاتا ہے!
ناانصافیوں کے اس عہد میں دراصل ایک عام آدمی ہی نا انصافی کی دلدل میں اس حد تک دھنس چکا ہے اور وہاں تک پہنچ چکا ہے کہ جہاں سے اس کا نکلنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔

۔۔اپنے ووٹ کے ذریعے ہی عوام نے لیٹرے طبقے ( جاگیرداروں اور سرمایہ داروں ) کووسیع طاقت دے کر اپنے آپ اور کلی وسائل پرمسلط کیا۔ متعدد بار کہ چکا ہوں کہ جو طبقہ ( موجودہ سیاسی نظام)عوام کے خون اور عوام ہی کے خون پسینے کی کمائی کو خود پر حلال قرار دیتاہے۔بھلا کب یہ چاہے گا کہ وہ اپنے وسائل کو اپنے ہاتھوں سے تلف کرے۔بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ عوام کے وجو د کاقتل تو عصر ظلمات کا وطیرہ بن چکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس ستمگر نے تو اب مثبت افکاراور اعلی شعور کوبھی رسن و دار کی زینت بنانا شروع کردیا ہے جو کہ ہر دور کے ظلم کی روایت ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :