معاف کیجئیے گا!

بدھ 16 جون 2021

Maria Malik

ماریہ ملک

فروری 2016 کی شام 8 گھنٹے کے لمبے ہوائی سفر کے بعد جب میں اپنے ہوسٹل میں پہنچی تو سفری تھکاوٹ اور گرد و نواح کے  ماحول کا بیگانہ پن یقیناً جسم و دماغ پر بوجھ سا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اُس رات دِل میں اپنی خواہش پوری ہونے کی ایک عجیبسی خوشی اور نئی صبح کے انتظار میں دِل پُر جوش تھا جس کی وجہ سے نیند تھی کہ جیسے روٹھ سی گئی ہو۔

۔۔۔۔ طرح طرح کےخیالات زہن و قلب کو عجیب کیفیت میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔۔۔۔
میرا اس دیارِ غیر کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں پہلا دِن کیسا ہو گا؟
ساتھی طلبا کیسے ہوں گے؟ اُن کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہو سکے گی یا نہیں؟
میرے لیکچرار کیسے ہوں گے؟ اُن کا انداز تکلم اور اندازِ تعلیم و تربیت کیسا ہو گا؟
مجھے اچھے انداز میں ویلکم کیا جائے گا یا ایک نئی طالبہ ہونے کے ناطے میرا مزاق اُڑایا جائے گا؟
غرضیکہ اس طرح کے بیشُمار سوالات دِل و دماغ کو گھیرے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

یہی سوچتے سوچتے کب آنکھ لگی کُچھ پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔۔۔
میری اور میرے والد کی یہ خواہش تھی کہ میں بیرونِ ملک اپنی ڈگری مکمل کروں۔ گو امی جان کو یہ بات زیادہ پسند نہی تھی لیکناُنہوں نے بھی میری خواہش کے سامنے زیادہ رکاوٹ کھڑی نہی کی۔
بالا خر وہ صبح نمودار ہوئی جِس کا شدت سے انتظار تھا۔ یونیورسٹی کے پہلےدِن کے جوش و خروش میں نہ بھوک تھی نا کسی اورچیز کی تمنا۔

جلدی جلدی تیار ہوئی اور وقت سے پہلے ہی یونیورسٹی کے لئے نکل پڑی۔ ہوسٹل میں مقیم دیگر طلبا کی رائنمائی، مدد،شفقت  اور برتاؤ نے بہت متاثر کیا۔
یونیورسٹی میں بھی محسوس کیا  کہ ہر کوئی بہت نرمی اور محبت بھرے انداز میں ہمکلام ہوتا ہے۔ بات بات پر ہر کوئی Excuse me, Please, Sorry جیسے الفاظ کے ساتھ ساتھ ہلکی سی مسکراہٹ زیرِ لب رہتی ہے۔
میری کلاس میں تمام طلبا نے بہت اچھے انداز میں مجھے ویلکم کیا۔

لیکچرار اور طلبا کی اس دیے جانے والی خصوصی توجہ اوردوستانہ ماحول نے میرے اعتماد کو اور بھی بڑھا دیا۔ یقیناً یہی وہ حسنِ اخلاق ہوتا ہے جو دِلوں کو ایک دوسرے کے قریب اور کدورتوںکو رفع کرتا ہے۔
جہاں اچھے اخلاق ہوں وہاں بغض، کینہ اور نفرت جیسے دلی امراض نہی پنپتے۔ برطانیہ میں میرے 2 برس کے دور طالبعلمی میںجس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہی اچھے اخلاقیات تھے۔


دوکاندار ہو یا گاہک، بس ڈرائیور ہو یا مسافر، طالبعلم ہو یا استاد، شوہر ہو یا بیوی، عام راہ گُزر ہو یا ہمسایہ، کاروباری شخص ہویا ملازم، بڑا ہو یاچھوٹا غرضیکہ راہ چلتے، سفر کرتے، خریداری کرتے ہر قسم کے افعال و عوامل میں آپ کو یہ مشاہدہ کرنے کو ملتاہے کہ ہر کسی کی تربیت میں یہ چند خصوصیات ہر کسی کی طبیعت میں گویا کہ نقش کر دی گئی ہیں
نرمی
مسکراہٹ
خوش کلامی
عفو و درگز کا جزبہ
مدد و ہمدردی
یقیناً یہ سب خصوصیات حسنِ اخلاق کی بہترین مثالیں ہیں۔

یہی وہ عادات و خصوصیاتِ ہیں جو ایک فرد کو معاشرے میںپسندیدہ و جازبِ نظر بناتی ہیں۔
اور چونکہ فرد سے معاشرہ بنتا ہے، تو افراد کے حسنِ اخلاق جیسا وصف ہی معاشرہ کو خوبصورت اور لطف و کرم کا منبع بنا سکتاہے۔
یقیناً مغرب میں بھی برائی اور بد سلوکی کی مثالیں موجود ہیں لیکن مغرب کا عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ مہذبو سلجھے ہوئے ہیں۔

اور یہی تاثر اصل میں اچھے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔
ہماری ایک تعداد ہے جو مغرب کی طرح ترقی یافتہ اور ماڈرن بننے کی خواہشمند ہے۔ اعلٰی تعلیم، فیشن اور چال ڈھال میں مغربیتہزیب کےدلدادہ افراد بھی اخلاقی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ تھوڑی سی دولت یا بڑا عہدہ ملنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ دولت وعہدہ میں اپنے سے کم کو انسان سمجھنے سے بھی عاری نظر آتے ہیں۔

غرور و تکبر کی یہ چلتی پھرتی مورتیں غریب و پسماندہ افرادسے اچھے انداز میں بات کرنے، ہاتھ ملانے اور مسکرا کر بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
یہ عادات صرف امیر لوگوں میں ہی نہی بلکہ تقریباً معاشرہ کے ہرفرد میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ گویا کہ ہم مسکرا کر بات کرنابھول ہی گئے ہیں۔
میرے 2 سال کے تعلیمی دور میں مغربی معاشرے میں اخلاقیات و مساوات کا مشاہدہ بکثرت ہوا لیکن بطورِ مسلمان میں یہ فخر سےکہہ سکتی ہوں کہ مغربی معاشرے میں پائی جانے والی یہ تمام خصوصیات اسلامی تعلیم و تربیت میں مذکور حسنِ اخلاق کا عشرِعشیر بھی نہی۔


اسلام ایک مکمل ظابطۂ حیات ہے اور بقول قرآن نبی کریم ‎ﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ۔ لیکن جوں جوں ہم اسلامی تعلماتسے دور ہوتے چلے گئے توں توں ہمارے اخلاقیات پستی و جہالت کا شکار ہوتے گئے۔
اسلام ہمیں ہر ایک سے حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے۔ غرور، تکبر، غیبت، جھوٹ، بہتان، گالی گلوچ، چغلی، بے حیائی،فریب ودھوکہ، ناپ تول میں کمی، والدین و پڑوسی کے حقوق، بہن بھائی و رشتہ داروں کے حقوق، مالک و ملازم، دوکاندار و گاہک،مسافر و مقیم کے حقوق و فرائض غرضیکہ ہر ہر شعبہ و مقام و مرتبہ کے بارے میں حقوق و فرائض اور حلال و حرام کی واضح تعلیماتدینِ اسلام میں مذکور ہیں۔


حسنِ اخلاق یقیناً بہت وسیع عادات و خصوصیات پر محیط ہے۔ اور ہمارے ہیارے مذہب میں حسنِ اخلاق کی اہمیت اس سے بڑھ کر اورکیا بتائی جا سکتی ہے:
چنانچہ فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے کہ
 ”أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا۔“
ترجمہ: سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے
گویا اگر ہم کامل (مکمل) ایمان کے وصف سے متصف ہونا چاہتے ہیں تو اپنی اخلاقیات کو تعلیماتِ اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔


نبی کریم ‎ﷺ کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے الله تبارک و تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
ترجمہ:
“اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو ۔”
تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہا
تِری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تُجھ سا ہُوا ہے نہ ہو گا شہا
تیرے خالِقِ حسن و ادا کی قسم
قارئین ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ااِن تعلیمات کو حاصل کریں اور پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے اخلاقیات کو ڈھالنے کیکوشش کریں۔

والدین چھوٹی عمر سے اولاد کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ سکول و کالجز کی سطح پر دیگر شعبوں کیتعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ہر خاص و عام معاشرے میں حسنِ اخلاق کی چلتی پھرتی تصویر بنجائے تو یقیناً ہمارا معاشرہ حسنِ اخلاق کا نمونہ بن کر ابھرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :