قربانی اور سازشی تھیوری

جمعہ 30 جولائی 2021

Maria Malik

ماریہ ملک

آئے روز اسلام دُشمن طاقتیں طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے اسلامی شعار و اقدار پر کسی نہ کسی سازشی تھیوری کے تحتپراپیگنڈا کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کو نہ صرف نشانہ بناتے ہیں بلکہ مختلف این جی اوز کے ذریعے بڑی رقوم کی مدد سےایسے دینی اقدار و اہمیت سے نابلد نام نہاد لبرلز مسلمانوں کے ذریعے اسلامی تعلیمات و احکامات کے خلاف آواز بلند کر کےمسلمانوں میں انتشار و تقسیم کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں
یہ ناپاک عظائم و مقاصد روز اول سے جاری و ساری ہیں۔

کبھی منافقین کی صورت میں تو کبھی غداروں کی صورت میں مسلمانوں کوتقسیم کر کے کمزور اور اِن کے دلوں سے اسلام کی اہمیت و افضلیت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے عورت کیآزادی کے نام پر بےحیائی اور ہم جنسی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے عورت مارچ جیسے مضموم افعال اور اب انہی نام نہاد لبرلز کےذریعے عید قربان کے موقع پر حج و عید الضحٰی کے اہم ترین رکن قربانی کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جانوروں پر رحمکرنے کے نام پر ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)


حالانکہ یہ وہی نام نہاد لبرلز ہیں جو سارا سال فاسٹ فوڈ، بیف برگرز اور مٹن ڈشز پر ہاتھ صاف کرتے اور میکڈونلڈز، کے ایف سیاور ان جیسی بین الاقوامی فرینچائزز کو پروموٹ کرتے نہی تھکتے۔
مسلمانوں کو اپنے دینی اور مذہبی روایات و اقدار اور اپنے رب کے احکامات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اغیار کی اِن چالوں کوپہچاننا ہو گا اور باقاعدہ مستند دلائل سے ان کے جھوٹ پر مبنی سازشی منصوبوں کو خاک میں ملانا ہو گا۔


فسلفۂِ قربانی کی اہمیت کو سمجھے بغیر ان چالوں کو ناکام بنانا نا ممکن ہے۔ چنانچہ آئیے مختصراً اس فلسفۂ کو اپنے دائرہِ شعورمیں لاتے ہوئے اپنے ایمان کی تازگی و مضبوطی کا سامان کرتے ہیں اور یہ مصمم ارداہ کرتے ہیں کہ دُشمنوں کی ہر چال کو ناکامبنائیں گے اِنࣿ شَاءاَللٰؔه
طرح طرح کی آزمائشوں، مشکلوں، دشمنوں کی چالوں اور تبلیغ پیامِ الٰہیہ کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے باوجود ہر دن صابر وشاکر رہنے اور اپنے پرودگار کی رضا میں راضی رہنے والے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اک تمنا تھی کہ اللہ مجھے اولادعطا کرے جو میرے بڑھاپے کا سہارا بننے کے ساتھ ساتھ میرے اللہ کے دین کے پیغام کو آگے پہنچانے والا اور رب کی فرامانبرداریکرنے والا ہو۔


چنانچہ بالاخر دعا قبول ہوئی اللہ پاک اپنے اُس عظیم و بزرگ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو 86 برس کی عمر میں حضرت حاجرہکے بطن مبارک سے اولاد صالح عطا فرماتا ہے۔ لیکن جیسا کی معمول ہے کہ اللہ اپنے پیاروں کو طرح طرح کی آزمائشوں اور مشکلوںسے گزارتا ہے تاکہ وہ صبر و استقلال پر قائم رہتے ہوئے ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے رب کے مزید مقرب و محبوببندے بنتے جائیں۔

چنانچہ حضرت ابراہیم کو بھی طرح طرح کی آمائشوں سے گزارا گیا۔ لیکن ہر مشکل، درد تکلیف و پریشانی کے بعدوہ پہلے سے بھی زیادہ اللہ کا شکر اور عبادت میں کثرت کرنے والے ہو جاتے تھے۔
لیکن اس بار جس آزمائش کا آپ کو سامنا تھا ایسی آزمائش نا کبھی کسی نے سوچی تھی نہ کبھی کوئی ایسی آزمائش سے گزرنےکا تصور بھی کر سکتا تھا۔
جب حضرت اسمٰعیل کی عمر 13 سال ہوئی تو ایک رات خواب میں حضرت سَیِّدُنا ابراہیم خَلیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ تَبارَکَ وَتَعالٰی کیطرف سے اپنے بیٹے حضرت سیدنا اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ کی رضا کے لئے قربان کرنے کا حکم ہوا۔

یہ ذی الحج کی 8 تاریخ تھیحضرت ابراہیم نے رات کو خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے ۔
’’بیشک اللہ تعالٰی تمہیں بیٹا ذَبْح کرنے کا حکم دیتا ہے”آپ نے صبح اس پر تَفَکُّر (غوروفکر) کیا اور کچھ تَرَدُّد (شک) میں رہے کہ کیا یہاللہ تعالٰی کا ہی حکم ہے؟ یا خواب فقط خیال تو نہیں، اسی وجہ سے آٹھ ذی الحج    کا نام یَوْمُ التَّرْوِیَہ ( سوچ بچار کا دن ) رکھا گیا
آٹھ تاریخ کا دن گزر جانے پر رات پھر خواب دیکھا، صبح یقین کرلیا کہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہی حکم ہے اسی نو ذُوالْحِجَّہ کو یومِعرفہ (پہچاننے کا دن) کہا جاتا ہے، اس کے بعد آنے والی رات کو پھر خواب دیکھنے پر صبح اس پر عمل کرنے کا مُصَمَّمْ  ارادہ کرلیا ۔

اسی وجہ سے دس ذُوالْحِجَّہ کو یَوْم ُالنَّحْر (ذبح کا دن) کہا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر)(تذکرۃ الانبیاء)
اس خواب کے بعدحضرت سَیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام حکمِ خُداوندی کی تعمیل کیلئے تیار ہوگئے اوراپنے بیٹے کے سامنے یہ مُعاملہ رکھاتاکہ بیٹا بھی خُوش دِلی سے اس عمل میں شریک ہو۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتاہے ۔
یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-
ترجَمۂ کنز الایمان:
اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا  میں تجھے ذبح کرتا ہوں ،اب تُو دیکھ تیری کیا رائے ہے۔


(پ ۲۳،الصّٰفٰت:۱۰۲)
 حضرت سَیِّدُنا اسماعیل عَلٰی عَلَیْہِ السَّلَام نے بھی رِضائے الٰہی پرفدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے کہا:
یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (۱۰۲)
ترجَمۂ کنز الایمان :
اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔

(پ ۲۳،الصّٰفٰت:۱۰۲)
اِن آیات سے کتنا واضح ایمان افروز سبق ملتا ہے کہ جو اللہ کے اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں وہ رب کا حکم پانے پر کسی قسم کی ترددیا وسوسوں کا شکار نہی رہتے بلکہ اپنے سر کو رب کی رضا و خوشنودی میں جھکا کر گویا عرض گزار ہوتے ہیں کہ اے ہمارے ربہماری زندگی اور تمام نعمتیں تمھاری ہی دی ہوئی ہیں اور اگر اِن کے ضائع ہو جانے یا کھو جانے میں ہی تیری رضا ہے تو اے ہمارےاللہ ہم تو تیرے ہی بندے ہیں تیرے رضا میں راضی و خوش ہیں بلکہ  تیرا ہمیں آزمائش کے قابل سمجھنے پر ہم تیرے شاکر ہیں۔


شیطان کی ناکامی :
جب حضرت سَیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام  حضرت سَیِّدُنا اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام کو ذَبْح کرنے کیلئے  لیجانے لگے تو راستے میںشیطان نے اس رِضائے الٰہی والے کام سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔
چنانچہ ’’تفسیر طَبَری‘‘ میں ہے:
جب شیطان باپ بیٹے کو بہکانے میں ناکام ہوا تو ’’جَمرے‘‘ کے پاس آیا توحضرت سَیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے اُسے ’’سات کنکریاں‘‘ ماریں، کنکریاں مارنے پر شیطان آپ کے راستے سے ہٹ گیا۔

یہاں سے ناکام ہو کر شیطان ’’دوسرے جمرے‘‘ پر گیا، فِرِشتے نے دوبارہحضرت سَیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا :
’’ اِسے مارئیے‘‘  آپ نے اسے سات کنکریاں مارِیں تو اُس نے راستہ چھوڑ دیا ۔ اب شیطان’’ تیسرے جَمرے ‘‘کے پاس پہنچا ،حضرتسَیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فِرِشتے کے کہنے پر ایک بار پھر سات کنکریاں ماریں تو شیطان نے راستہ چھوڑ دیا۔

 
(تفسیرِ طَبَری  ج۱۰ص۵۰۹، ۵۱۶)
پتہ چلا کہ رب کی رضا والے کام سے روکنا بلاشبہ ابلیس لعین و مردود کا کام ہے اور وہ ہر گز نہی چاہتا کہ ہم اللہ کی فرمانبرداری واطاعت کر کے اُس کے برگزیدہ بندے بن کر جنت میں داخل ہو جائیں اور وہ مردود رب کی نافرمانی کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنمکا طوق گلے میں پہنے والا رہے۔ جیسا کے شیطان لعین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس عظیم قربانی سے روکنے کی کوشش کیبظاہر آج اُسی شیطان کے چیلے مسلمانوں کو ایسی عبادات و اطاعتِ خداوندی سے روکنے اور اہنے اللہ سے دور کرنے کی کوشش میںہیں۔

لیکن جیسے اُس وقت حضرت ابراہیم نے کنکریاں مار کر شیطان کو بھگایا اور اہنے مصمم ارادے پر قائم رہے بلکل اُسی طرح آجکے مسلمان شیطان کے چیلوں کی پرواہ کیئے بغیر اپنی دینی اور اسلامی ذمہ داری کو بنھاتے اور شیطان کو جلاتے رہیں گے۔
جب ذَبْح کرنے کے مقام پر پہنچ گئے تو حضرت سَیِّدُنا اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے والدِ مُحْترم سے کہا: اے میرے اباجان ذبح سےپہلے مجھے باندھ دینا تاکہ میں تڑپوں نہیں ،اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچاکر رکھنا تاکہ آپ کے کپڑے میرے خون سے آلُودہ نہ ہوجائیںاور میری والدہ انہیں دیکھ کر پریشان نہ ہوں ،میرے حلق پر چُھری جلدی جلدی چلانا تاکہ مجھ پر موت آسانی سے واقع ہوجائے ،جبمیری والدہ کے پاس جانا تو ان سے میرا سَلام کہنا ۔


پھر حضرت سَیِّدُناابراہیم خلیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام  نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کیلئے ماتھے کے بَل لِٹا دیا۔ ماتھے کے بَل لٹانےمیں بھی حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام  کامَشْورہ ہی تھا کہ کہیں مَحبَّتِ پدری (باپ کی مَحَبَّت) کی وجہ سے چُھری چلانے میں معمولیسی بھی کوتاہی نہ ہو۔ جب آپ  عَلَیْہِ السَّلَام  نے حکمِ خُداوَنْدی پر عمل کرنے کیلئے اپنے بیٹے کی گردن پر چُھری چلائی توحضرتسَیِّدُنا جبریل امین  عَلَیْہِ السَّلام نے آکر اس کا رُخ بدل دیا، پھر ایک ندا آئی
چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتاہے:
وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴)قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵)اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ(۱۰۶)وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(۱۰۷)
ترجَمۂ کنز الایمان:
“اور ہم نے اسے نِدا فرمائی کہ اے ابراہیم بیشک تو نے خواب سچ کر دکھایا”
ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،بیشک یہ روشن جانچ تھی اور ہم نے ایک بڑا  ذَبِیْحَہ اس کے فِدیہ میں دے کر اسے بچالیا۔


(پ ۲۳،الصّٰفٰت۱۰۴تا ۱۰۷)
اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی طرف سے ایک موٹا تازہ سینگوں والا سفید سیاہی مائل دنبہ حضرت سَیِّدُنا اسماعیل ذبیحُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کافِدیہ دے دیا گیا اور آپ کو ذبح سے بچاکر بھی ذبح ہوجانے کا ثواب عطا کیا گیا اور تاقیامت آپ کو ذَبیحُ اللہ (اللہ کی رضا کیلئے ذبحہونے والے)کے لقب سے مُتَّصِف کر دیا گیا۔


(تذکرۃ الانبیاء)
انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کےخواب سچے ہوتے ہیں انہیں اپنے خَواب پر عمل کرنا لازِم ہوتا ہے
سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اعلانِ نَبُوَّت سے قَبل اہلِ عَرَب کا دین یوں تو دینِ ابراہیمی عَلَیْہِ السَّلَام تھا مگر اس کی اصلصورت بِالکل بدل دی گئی تھی۔ توحید کی جگہ شرک نے لے لی تھی۔

مگر جب سرورِ کائنات ،مَنْبعِ اَنوار وتجلّیات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِواٰلہٖ وسلَّم کا ظُہور ہوا تو کُفْر و شِرک کی ساری ظلمتیں کافُور ہوگئیں ،چہار سُو مذہبِ اسلام سے روشنی ہوگئی اورلوگ شرک کرنے،بیٹیوں کو زندہ درگور کرنےاور بتوں پر چڑھاوے کے نام پر جانور ذَبْح کرنے جیسی خرافات  کو چھوڑ کر دامن ِاسلام سے وابستہ ہوگئے۔

قرآنِ پاک میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنی رضا کیلئے نماز پڑھنے اور قُربانی کرنے کا حکمدیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲)
ترجَمۂ کنز الایمان:
“توتم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو  اور قربانی کرو۔”(پ۳۰،الکوثر:۲)
حضرت سَیِّدُنا سعید بن جُبَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس آیتِ مُبارکہ کا شانِ نُزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
“یہ آیت حُدیبیہ کے دن نازل ہوئی، حضرت جبریل ِامین عَلَیْہِ السَّلَام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس تشریف لائے اور  کہا :
“آپ نحر کیجئے اور واپس تشریف لے جائیے ۔

تو نبیِّ کریم ، روفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھے اورقربانی سے مُتعلِّق خُطْبہارشاد فرمایا اور دو رَکْعت نماز ادا فرما کر قُربانی کے اُونٹوں کی جانب مُتوجّہ ہوئے اور اُنہیں نَحر کیا۔
حضرت سَیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں:
“اس آیتِ مبارکہ  سے مراد فرض نماز  اور عیدُ الْاَضْحٰی کے دن جانور ذَبْح کرنا ہے۔


(تفسیر در منثور ،ج۸، ص۶۵۱)
محترم قارئین غور کریں کہ قرآن پاک میں کتنے واضح احکام ہیں قربانی کرنے کے۔ اب کوئی مسلمان قرآن کے احکامات کے خلاف جانےکا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ احکامات خداوندی پر عمل نہ کرنا مسمان کو صرف گناہگار کرتا ہے جبکہ اِناحکامات کی فرضیت کا انکار کرنا اور اپنی منطق سے اس کے خلاف دلائل دینا یا آواز اُٹھانا گمراہی اور کفر ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے رب ونبی کریم ‎ﷺ کے تمام احکامات پر مکمل صدقِ دل سے یقین کرنا اور ایمان لانا ہی ذیب دیتا ہے۔ اور ہر قسم کے سازشی ٹولہ کےوساوس سے دور دور اور دور رہنا ہے۔ ورنہ شیطان کے پیروکار بن کر عذاب نار کے حقدار ٹھہریں گے۔
اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں اس پُر فتن دور میں دینِ حق پرقائم و دائم فرمائے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :