ماں کا کان نوچ ڈالا (اولاد کی تربیت)

ہفتہ 16 اکتوبر 2021

Maria Malik

ماریہ ملک

ایک موت کی سزا کا مجرم تختہ دار پر لٹکایا جانے والا تھا۔ جب اس سے اسکی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنیماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کی یہ خواہش پوری کردی گئی۔ جب ماں اس کے سامنے آئی تو وہ اپنی ماں کے قریب گیا اور دیکھتے ہیدیکھتے اس کا کان نوچ ڈالا ۔ وہاں پر موجود لوگوں نے اس کی  سرزنش کی کہ نامعقول ابھی جبکہ تو پھانسی کی سزا پانے والا ہےتونے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے پھانسی کے اس تختے تک پہنچانے والی یہی میری ماں ہے کیونکہ میں بچپنمیں کسی کے کچھ پیسے چُرا کر لایا تھا تو اس نے مجھے ڈانٹنے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اوریوں میں جرائم کی دنیا میںآگے بڑھتا چلاگیا اور انجام کار آج مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔


اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار سب سے زیادہ اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر والدین بچپن ہی سے اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصیتوجہ دیں اولاد کو حلال و حرام، حقوق و فرائض اور معاشرتی بھلائی و بُرائی کی اچھے سے پہچان کروائیں اور تمام برائیوں سے بچنےکی تلقین کرتےرہیں تو یقیناً وہ اولاد کل کو ایک مثبت کردار والی اچھائی کی چلتی پھرتی تصویرثابت ہو گی۔


موجودہ حالات میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ نیکیاں کرنا بے حد دُشوار اوراِرتکابِ گناہ بہت آسانہوچکاہے ، ٹی۔وی سینما ، ڈش انٹینا ، انٹر نیٹ اور کیبل کاغلط استعمال کرنے والوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے، تکمیلِضروریات وحصولِ سہولیات کی جائز و ناجائز ذریعے سے جد وجہدنے انسان کو فکرِ آخرت و انسانی اقدار سے یکسرغافل کردیا ہے،یہی وجہ ہے دنیاوی شان و شوکت اورظاہری آن بان مسلمانوں کے دلوں کو اپنا گرویدہ بناچکی ہے۔

ان نامساعد حالات کا ایک بڑا سببوالدین کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت سے غافل ہونا بھی ہے کیونکہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے تو جب فرد کی تربیتصحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ۔جبوالدین کا مقصدِ حیات، حصولِ دولت ، آرام طلبی ، وقت گزاری اور عیش کوشی بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اورجب تربیت ِاولاد سے بے اعتناعی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو یہی والدین ہر کس وناکس کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رونا روتےدکھائی دیتے ہیں ۔


ایسے والدین کو غورکرنا چاہئیے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کاکتنا  ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بچے کو دنیا میںایک مالدار اور بڑا عہددار بننا تو سکھایا لیکن بنیادی اخلاقیات کی تربیت نہی دی۔ مغربی فیشن، بول چال، اور تہزیب تو سکھائیلیکن اسلامی اقدار، مذہبی تہذیب، اور اطوار نہ سکھائے، جنرل نالج (معلوماتِ عامہ)کی اہمیت پر اس کے سامنے گھنٹوں کلام کیا مگرفرض دینی علوم کے حصول کی رغبت نہ دلائی ، ارتکابِ گناہ کی مادر پدر آزادی اور لہوولعب کے طرح طرح کے آلات کا بلاروک ٹوکاستعمال ، کیبل ، سینما کی کارستانیاں ، رقص وسرود کی محفلوں میں انہماک اوربگڑا ہوا گھریلوماحول ، یہ سب کچھ بچے کیطبیعت میں شیطانیت ونفسانیت کو اتنا قد آور کردیتا ہے کہ اس سے پاکیزہ کردار کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی، جیسے گندے نالےمیں ڈبکی لگانے والے کے جسم کی طہارت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔


آج کل کے بننے والے ڈرامے اور فلمیں نسلوں کی رہی سہی اخلاقیات کو بھی تباہ کرنے پر تُلی ہیں۔ اور پھر اگر  اس پر والدین بھیاپنی اولاد پر خصوصی توجہ دینا چھوڑ دیں گے تو اُن کو دنیاوی و اُخروی تباہی سے کون روک پائے گا؟
اولاد کے بگڑنے کا ذ مہ دار کون؟
قارئین!
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولادکے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیںمگریاد رکھئے اولاد کی تربیت صرف ماں یامحض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اللہ   تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ(۶)
(پ ۲۸، تحریم : ۶)
ترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والو اپنی جانوں اوراپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤجس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سختکرّے(طاقتور)فرشتے مقرر ہیں جو  اللہ  کاحکم نہیں ٹالتے اورجوانہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں ۔


حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے :
’’تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ نگران ہے ، اس سے اس کیرعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

عورتاپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔‘‘
والدین کی ایک تعدادہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے ، تھوڑا بڑا ہوجائے تو اس کی اخلاقیتربیت شروع کریں گے ۔   
 ایسے والدین کو چاہئیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کےلئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جاسکتی ہے ۔

جو کچھ بچہاپنے بچپن میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل ِ موم ہوتا ہے اسے جس سانچےمیں ڈھالنا چاہیں ڈھالا جا سکتا ہے ، … بچے کی یاداشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے اس پر جو لکھا جائے گا ساری عمر کےلئے محفوظ ہوجائے گا، … بچے کاذہن خالی کھیت کی مثل ہے اس میں جیسا بیج بوئیں گے اسی معیارکی فصل حاصل ہوگی ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر اسے بچپن ہی سے سلام کرنے میں پہل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ عمر بھر اس عادت کونہیں چھوڑتا ، اگراُ سےسچ بولنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ ساری عمر جھوٹ سے بیزاررہتا ہے، اگر اُسے بچپن ہی سے رشوت، حرام کمائی، ناپ تول میںکمی، شراب نوشی، زنا، کسی کے مال پر قبضہ کرنے، مسلماں کی حق تلفی و دیگر قبیح قسم کی برائیوں سے نفرت دلائی جائے تو وہساری زندگی ان برائیوں کا شکار ہونےسے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
آئیے عہد کرتے ہیں کہ بطور ولدین ہم اس پر خصوصی توجہ دے کر اپنی زمہ داری پوری کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اورپھیلتی معاشرتی بُرائیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :