خودمختار پاکستانی

پیر 21 جون 2021

Maria Malik

ماریہ ملک

امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد اکتوبر 2001 میں امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج نے شدت پسند تنظیم القاعدہ کو ان حملوں کاذمہ دار ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر حملہ کرنے سے قبل اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر پرویز مشرف سے ایک معاہدہ کےتحت پاکستان کو دہشت گردی کی اس جنگ کے خلاف اپنا حلیف بنا لیا۔
امریکہ نے 2004ء سے پاکستان میں متعدد حملے ڈرون ہوائی جہازوں کے استعمال سے کیے۔

یہ حملے امریکی صدر جارج بُش کیحکومت نے شروع کیے۔ باراک اوبامہ کے صدر بننے کے بعد اور پاکستان میں پپلز پارٹی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ان حملوں کےتعدد اور شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا گیا۔ یہ ڈرون حملے، پاکستان کی سالمیت اور  خودمختاری کے خلاف کیے جانے والے امریکیاقدامات میں سر فہرست ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں کثیر تعداد میں افراد ان حملوں میں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔

سال 2010ء میں سب سےزیادہ ڈرون حملے کیے گئے اور حملوں کی ذمہ دار امریکی ایجینسی CIA ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے مطابق صرف2010ء میں 115 امریکی ڈرون حملوں سے 900 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اوبامہ نے 2012ء میں دوبارہ صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد بھی پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھے۔ اوبامہ کے مدمقابل رپبلکنامیدوار نے بھی ڈرون حملے جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔


2013 سے 2018 کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔
حتٰی کہ 2018 کے الیکشن سے کُچھ ہفتے پہلے تک ڈرون حملے جاری رہے۔
واضح رہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہے بالخصوص پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظمعمران خان نے امریکہ کی جانب سے ہونے والے ڈرون حملوں کے شدید مخالفت جاری رکھی۔


عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف نومبر 2013 میں دھرنا دیتے ہوئے افغانستان میں موجوداتحادی فوجوں کو سامان کی ترسیل روک دی تھی۔ خیال رہے کہ اُس وقت پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریکانصاف کی حکومت تھی۔ جہاں سے اتحادی افواج کے لیے سپلائی براستہ پاکستان افغانستان جاتی تھی۔
اس سپلائی کے رُک جانے سے امریکہ کو بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔


اس وقت کے امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو رسد بند کرنے کے نتیجے میں امریکہ کوماہانہ 100 ملین ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑے۔
امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان نے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھایا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے دہشت گردی کے خلافاس جنگ میں  80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت کو بھی اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔


2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد اِن ڈرون حملوں کا سلسلہ بالاخر بند ہوا۔ جیسا کہ ویراعظم عمرانخان نے حکومت میں آنے سے پہلے ایک صحافی کے سوال پر کہا تھا کہ اگر میری حکومت آئی تو میں پاکستان کی سر زمین کو کسیکے لئے استعمال ہونے نہیں دوں گا۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے خواہاں ہیں۔

کیوں کہ افغانستان میں امن پاکستان میںبھی امن کی ضمانت ہے۔
مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ امریکہ، افغان امن معاہدہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔ اس سے نہ صرف خطےمیں دہشت گردی کم ہو گی بلکہ دونوں ملکوں کے لیے ترقی کا سفر بھی تیز ہو سکے گا۔
حال ہی میں امریکہ نے دوبارہ پاکستان سے فوجی ہوائی اڈوں کی درخواست کی ہے لیکن عمران خان حکومت نے امریکہ کو اپنے ہوائیاڈے دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ماضی کی غلطی نہی دہرائے گا اور اپنی سر زمین کو کسی دوسرے کے مفاد کےلئے استعمال نہی ہونے دے گا۔


اس ضمن میں امریکہ کی طرف سے دباؤ ڈالے جانے کے باوجود پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا۔
ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے واشگاف الفاظ میں اپنے موقف کی تجدید کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ہر گز کسی صورت امریکہ کو ہوائی اڈے اور اپنی زمین استعمال کرنے نہی دے گا۔
قارئین قوموں کی زندگی میں یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ملکوں کی خودمختاری کی پہچان ہوتی ہے۔

ماضی میں پاکستان کے حکمرانوںنے امریکہ کی جنگ میں شامل ہو کر نہ صرف بھاری جانی و مالی نقصان اُٹھایا بلکہ اپنی سالمیت و خودمختاری کو بھی نقصانپہنچایا۔
لیکن ایک نڈر بہادر اور محب وطن حکمران کبھی اپنی قوم کو کسی کے آگے نہی جھکنے دیتا۔
عمران خان نے نہ صرف اپنے موقف پر عمل کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہی ہونےدیں گے بلکہ اپنی قوم و ملت کی خود مختاری کی پائیداری اور سالمیت کی دوبارہ سے بنیاد رکھ دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :