لاچار بیوہ

منگل 15 جون 2021

Maria Malik

ماریہ ملک

میں بیوہ ایک بچے کی ماں ہوں۔۔۔۔۔ میری ماں کینسر کی مریض ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن میری بے بسی لاچاری اور مجبوری میں سہارا بننے کےبجائے میرا سب نے مزاق اُڑایا۔۔۔۔۔ جس ادارے میں  بھی اپنا مسئلہ لیکر گئی وہاں مجھے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔۔ میری ساری جمع پونجی میری ماں کے علاج، میرے بچے کی پرورش اور عدالتوں اور مختلف اداروں میں چکر لگانے میں سرف ہوگئی۔

۔۔۔۔ تنِ تنہامیں نے اس کرپٹ سسٹم کے ہر ادارے کے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک چھوٹے سے چھوٹے پولیس افیسر سے لیکر عدالت تکسب کو کرپٹ سسٹم کے ہاتھوں مجبور و مفلوج پایا۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے نیوز چینلز نے میری داستانِ غم سننے اور میری فریاد عوام تکپہنچانے کے بجائے مجھے کُچھ لے دے کر معاملہ نمٹانے کا مشورہ دیا۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہی مکان پر قبضہ کرنے والے SSP زیشان کےبھائی نے میرے ہی مکان کو خالی کرنے کے مجھ سے 8 لاکھ کی ڈیمانڈ کر رکھی ہے۔

۔۔۔۔ میرے ہی مکان پر کرائے دار کے حق میں عدالت نے Stay دے رکھا ہے۔۔۔۔۔ غرضیکہ کِس کِس ادارے کا اس بوسیدہ نظام اور مافیہ کو سپورٹ کرنے کا گلہ کروں۔۔۔۔
قارئین یہ ہے وہ منہ چڑھاتا ہوا کرپٹ نظام جس پر سے عائشہ مظہر نامی ایک پڑھی لکھی، لیکچرار لیکن مجبور خاتون نے نہصرف پردہ ہٹایا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شائد غلط نہ ہو گا کہ قانون، عدل اور معاشرے کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔


ہاں جی یہ وہی عائشہ مظہر ہے جِس نے وزیر اعظم کو لائیو کال کی اور اپنے مکان پر قلعہ گُجر سنگ علاقے کے SSP کےبھائی کے قبضہ کی شکائت کی۔
وزیراعظم کے نوٹس پر یہ معاملہ تو فوری حال ہو گیا لیکن کیا پاکستان میں یہ صرف ایک ہی ایسی مجبور عورت ہو گی ؟؟؟
ہر گز نہی بلکہ اس طرح کے لاتعداد مجبور و لاچار مرد و خواتین ہیں جو اس کرپٹ نظام و قبضہ مافیہ کے ہاتھوں بے بس و لاچار ہیں۔

اُن کی نہ تو کوئی فریاد سننے والا ہے اور نہ کوئی اُن کی پریشانی کا مداوا کرنے والا۔
زیادہ پریشان کر دینے والی بات تو یہ ہے کہ عائشہ مظہر کے گھر پر قبضہ کسی پیشہ وار مجرم، ڈاکو یا چور نے نہی بلکہ قانون کیحفاظت اور نفاذ کے زمہ دار، چوروں ڈاکوؤں کو جرائم سے روکنے والے اور عوام کے مال و جان کے محافظ ایک علاقے کے پولیس افسرکے بھائی نے اپنے اسی پولیس افسر بھائی کی پُشت پناہی سے کررکھا تھا۔


آئے دن بےشمار ایسے واقعات زبان زدِ عام رہتے ہیں جہاں ہمیں ہر طرح کے جرائم میں ملوث پیشہ ور مجرموں کو پولیس کی پُشت پناہیکی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
پاکستان میں پولیس کا نظام جرائم کو نہ صرف روکنے میں ناکام نظر آتا ہے بلکہ پولیس کے محکمے میں ایک تعداد ایسے لوگوں کیبھرتی ہو چُکی ہے جو یا تو بذاتِ خود جرائم میں ملوث ہوتے ہیں یہ ہر طرح کے جرائم میں ملوث مجرموں کی پُشت پناہی کرتے ہیں۔


“ایک نجی چینل کی رپورٹ کے مطابقسال 2013  سے 2017 کے دوران کانسٹیبل سے ڈی ایس پی سطح کے دو لاکھ 98 ہزار 482 پولیس افسران و اہلکار جرائم میں ملوث نکلے۔”
“پنجاب پولیس ڈسپلن برانچ کی 5 سالہ رپورٹ کے مطابق 494 ڈی ایس پی، 9 ہزار 315 انسپکٹرز اور 54 ہزار 313 سب انسپکٹرزمختلف جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔”
“5 سالہ رپورٹ کے مطابق 53 ہزار 645 اسسٹنٹ سب انسپکٹرزجب کہ ایک لاکھ 76 ہزار 850 ہیڈ کانسٹیبلز اور کانسٹبیلز نے مختلفجرائم کیے ہیں۔


اس محکمہ میں اس طرح کے افراد کی بھرتی اور پولیس کی ناکامی میں سب سے بڑا ہاتھ سیاسی بھرتیوں کا ہے۔
پچھلی کئی دھائیوں سے کرپٹ سیاستدانوں نے مال پانی بنانے کے نظام کی تقویت اور اپنے اثر و رسوخ کو طوالت دینے کے لئے اپنےاپنے علاقوں میں کرپٹ و مجرمانہ ذہنیت کے ایسے لوگ شامل کروائے جو اِن کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں کا کھلونا رہیں، اور وقت آنےپر اِن کے لئے اقتدار میں آنے کا زریعہ بن سکیں۔

یوں پولیس کے محکمہ کی موجودہ خرابیاں دھائیوں پر محیط کرپٹ اور بوسیدہ نظامکی دین کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
محکمہ پولیس کو نئے سرے سے مکمل میرٹ پر تعمیر کرنا ہو گا۔ تمام جرائم زہنیت زدہ افسران کو نکال باہر کرنا ہو گا اور ازسرِنوریفارمز کرنا ہونگی۔ تبھی یہ ادارا عوام و ملک کی خدمت اور عوامی جان و مال کی حفاظت کرنے کے اہل ہو سکے گا۔
جرائم میں ملوث افسران کو سخت سے سخت سزائیں دینا ہوں گی۔ میرٹ پر بھرتی، قابل افسران کی حوصلہ افزائی اور جزا و سزا کانظام نافذ کرکے کافی حد تک محکمہ پولیس کو بہتری کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :