خواجہ سراء

اتوار 29 اگست 2021

Maria Malik

ماریہ ملک

تیسری جنس کے افراد یعنی مخنث (خواجہ سراء) بھی اللہ عزوجل کی پیدا کی گئی مخلوق ہیں. اللہ تعالیٰ خالق ، مالک اور قادر مطلق  ہے جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کرے گا عدل و انصاف ہے، ظلم سے پاک و صاف ہے۔ اس کے افعال میںہزار ہا حکمتیں ہوتی ہیں خواہ ہم اُن حکمتوں کو احاطہ ادراک میں لا سکیں یا مکمل طور پر نا سمجھ رہیں بہر حال الله پاک کی تخلیقکردہ کوئی بھی چیز حکمت و افادیت سے مبرا نہیں۔

مسلمان کے لیے ضروری ہے اللہ عزوجل کے لازم کردہ احکام کو بجا لائے اورنافرمانی سے اپنے آپ کو محٖفوظ رکھے۔
خواجہ سراء بھی ایک ایسی ہی جنس ہے جس کو ہمارے رب نے پیدا کیا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے نے مخنث (خواجہسراء) کو باعث شرمندگی و ذلت جیسے القابات سے نوازا ہے جن کا پیدا ہونا رحمت نہیں زحمت سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ سمجھا جاتا ہے کہاِس جنس کو عزت دینے کے لیے ہمیں اپنے دوسرے رشتوں میں کمپرومائز کرنا پڑے گا۔

حتٰی کہ وہ والدین جو اِن کی پیدائش کا سبببنتے ہیں وہ بھی اِن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
دیگر مخلوقات کی طرح خواجہ سراء بھی اللّٰه عزوجل کی ایسی مخلوق ہیں جِن میں کئی طرح کی خصوصیات و کمالات پیدا کیے گئےہیں، اِن میں ایسی صلاحیات رکھی گئی ہیں کہ انہیں کسی کا محتاج ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم جیسی غیور اور غیرت مندعوام انہیں گلی سڑکوں پر خوار ہوتے دیکھ کے مذاق اڑانے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتی۔

انسانیت سے دور کہیں ہم بھی چپچاپ الله کی اس مخلوق کی تزلیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اس احساس سے کوسوں دور ہوتے ہیں کہ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺍﺫﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﯿﮟﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺐ ﻭ ﺭﻭﺯ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺰﺍﺭ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮨﮯ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ آئی ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺣﺪﺗﮏ کوئی ﻗﺼﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ، ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻃﮯ ﺑﮭﯽ ہم ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ کہ اہمارے اسہتک آمیز رویوں سے اِن کو کتنی تکلیف پہنچتی ہو گی۔

غالباً ہمارے نزدیک غیرت، ہمیت اور انسانیت کے معیارات مختلف طے کر دیےگئے ہیں۔ اور اس کی ایک وجہ دین کی سمجھ بھوج کی کمی، خوف خدا سے دوری اور حقوق العباد کے ادراک سے دوری ہے۔
کسی حد تک مخنثین کی اس حالت کی ذمہ داری اِن کے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ وہ والدین جنہیں الله پاک نے عظیم مقام و مرتبہعطا کیا ہے، ماں کے پاؤں تلے جنت قرار دی ہے پھر وہ اپنے گھر ایسی اولاد کے پیدا ہونے پر اِسے شرمندگی کا باعث اور اپنی غیرت کامسئلہ کیوں بنا لیتے ہیں۔

اور لوگوں کی کڑوی اور تکلیف دینے والی باتوں کے ڈر سے انہیں گھر سے نکال دیتے ہیں اور ایسی جگہوںپر چھوڑ آتے ہیں جہاں ان کے ہم جنس افراد بستے ہوں۔
ایسوں کے والدین کے لیے ضروری ہے کہ دیگر اولاد کی طرح ان کی پرورش کریں اور ان کی دینی و اخلاقی تربیت کریں۔ دیگر لوگوںکے ہاتھ میں دینا جو انہیں گناہوں کے راستے پر چلائیں اور خود دستبردار ہونا شرعاً جائز نہیں۔

قرآنِ پاک میں اللہ عزوجل نےایمانوالوں کے لیے  اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیا اور احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں جہنم کی آگ سے بچانےسےیہی مراد  ہے کہ انہیں اللہ عزوجل کی لازم کردہ چیزوں کا حکم دینا اور ممنوعات سے روکنا۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی یہ ذمہ داری ہرشخص پر اپنے اہل و عیال کے متعلق عائد کی گئی ہے  اور ان امور کا لحاظ نہ کرنے پر قیامت میں گرفت کا بیان کیا گیا ہے۔

چنانچہاس طرح اس جنس کی اولاد سے دستبردار ہو کر وہ الله کے قائم کیے فرائض و مناصب سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ اگر ولدین نے اسمیں کوتاہی کی تو یقیناً کل قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے۔
ہمیں بطور معاشرہ بھی خواجہ سراؤں کی عزت و اہمیت کو سمجھنا اور اُن کے مقام کو بحال کرنا ہو گا۔
ایسے تمام عوامل کو بروئے کار لانا ہو گا کہ وہ عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔

مِن حیث القوم یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہاپنے معاشرے کے اس طبقے کو بھی عزت والا مقام دلائیں۔ ان کے حقوق کے لئے آواز اُٹھائیں اور اُن تمام عناصر وعوامل کی حوصلہشکنی کریں جِن سے انکی تکالیف و ذلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انتہائی کرب و تکلیف میں مبتلا، بوجھل دل، ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭙﮑﭙﺎﮨﭧ اور بطور اس معاشرہ کا حصہ ہونے کے ناطے انتہائی شرمندگی سےبات یہ بات زیرِ تحریر لا رہی ہوں کہ آج ہمارا معاشرہ کس قدر پستی کا شکار ہو چکا ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایک تعداد اِن کونفسانی ﮨﻮﺱ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎنے میں کوئی عار، اخلاقی گراوٹ اور خدا کوفی محسوس نہیں کرتی۔


اپنے زعمِ فاسد میں وہ مکمل کہلانے والے افراد اِن کو جنہیں وہ (نامکمل) سمجھتے ہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے حیوانیت کیتمام حدیں عبور کر کہ بھی اپنے آپ کو اِن سے بہتر سمجھتے ہیں۔ انسان جسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا گیا وہ آج نفس و شیطانکی پیروی میں کس قدر ذلت و رسوائی کے عمیق گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کو اس طرح کے غیر انسانی،غیر مذہبی اور غیر اخلاقی افعال کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اِس فعل کی روک تھام کے لئے اقدام کرنا ہوں گے۔

حکومتی سطح پربھی ایسے قبیح افعال میں ملوث افراد کے لئے سخت سزا و جزا کے قوانین نافذ کرنا ہوں گے۔ ورنہ لازم ہے کہ ملوث افراد کے ساتھساتھ روکنے پر قدرت رکھنے والے افراد و حکمران قہر خدا وندی سے بچ نہ پائیں گے۔ اگر اس دنیا میں عذابِ الٰہی سے بچ بھی گئے توقیامت میں یقیناً سزاوار ہوں گے۔
میں آپ سب سے پُر درد اپیل کرتی ہوں کہ اس طبقے کو  ﻋﺰﺕ ﺩﯾﮟ اِن سے ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻧﮧ ﭼﮭﯿﻨیں۔

کہیں ہماری یہ غیر انسانی حرکاتکل بروز قیامت ہمارے لئے باعثِ ناکامی اور ٹھکانۂ جہنم نہ بن جائے
ﺟﺐ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ، ﺷﺎﮨﺮﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺳﺮﺍ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ذﻟﯿﻞ ﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ ، ﮐچھ ﺩﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ تو ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮨﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺰﺕﺟﻮ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺣﻖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔


ہمارا میڈیا جِس کی ذمہ داری ہی عوام و خواص کو شعور و آگاہی دینا تھی اور ہمارے وہ سیاستدان جو ایوانوں میں کھڑے ہو کے بڑےبڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن خواجہ سراؤں کی ذمہ داری لینا تو دور اِن سے نظریں چراتے نظر آتے ہیں، اِن کے حقوق کے لیے آوازاُٹھانے اور اِن کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اگر زیادہ ﮐچھ نہی تو ایسے ﺍﺩﺍﺭے ہی بنا دیے جائیں جہاں یہتعلیم و تربیت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہُنر و کاریگری سیکھ سکیں تاکہ ان کے لئے زندگی گزارنا آسان ہو سکے۔


اسکے ساتھ ساتھ میں خواجہ سرا طبقے سے بھی گزارش کرنا چاہوں گی کہ آپ لوگ بھی ایسے تمام افعال و حرکات سے بچیں جوالله پاک کی ناراضگی اور معاشرے میں آپکے لئے زلت کا سبب بنیں۔
آپنے آپ کو کسی سے کم تر نہ سمجھتے ہوئے ہر معاملے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ تعلیم و ہنر حاصل کریں اور زندگی کے ہرشعبے میں اپنی اہمیت کو سمجھیں۔ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہوئے عمومی رائج افعال و کردار کو چھوڑ کر تعلیم و ہنر کے زریعےبہتر زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ ہر اُس کام سے بچیں جو الله کوناراض کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت پر منفی اثراتمرتب کرتا ہو۔ مثبت کردار سے ملک و قوم اور ولدین کے لئے عزت کا باعث بنیں۔ الله پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :