بحرِ بُحران

جمعہ 25 ستمبر 2020

Masood Siddiqui

مسعود صدیقی

کرّہ ارض پر موجود سمندروں پہ مشتمل پانی کے بڑے ذخائر کو بحر کہا جاتا ہے جغرافیائی اعتبار سے زمین پہ موجود چند بڑے بحر کے نام اور تعداد سے تو یقینا ہر پڑھا لکھا شخص ضرور واقف ہوگا جس نے دورِ طالب علمی میں جغرافیہ پڑھی ہو جیسے بحر الکاہل، بحر اوقیانوس، بحرِ منجمد اور دیگر مگر راقم کے نزدیک ان میں ایک اور بحر کا اضافہ کر دینا چاہیے اور وہ ہے بحرِبحرا ن ۔

بلکہ ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب تمام تعلیمی اداروں اور خصوصاً پاکستان کے کالج اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بھی اپنے مضامین میں ردوبدل کرلینا چاہیئے اور خاص طور پہ ان میں پڑھائی جانے والی جغرافیہ میں، کہ دُنیا میں ایک اور بحر دریافت ہوا ہے جس کا نام ہے بحر بحران ، جی ہاں پاکستان کے قابل ترین ہمہ جہت سیاسی محقیقین کی دریافت بحربحران۔

(جاری ہے)


 یہ دنیا کے تمام بڑے سمندروں میں سب سے بڑا گہرا اور خطرناک سمندر ہے جس کا ٪۹۰حصہ پاکستان کی حدود میں آتا ہے چینی آٹا اور بجلی جیسی کئی اہم ضروریاتِ زندگی کے بڑے بڑے ذخائر اس سمندر میں غرق ہوگئے۔تاریخ یہ بتا تی ہے کہ وقتا فوقتا ملکِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان سے نکلنے والے چینی کے بحران ، آٹے کے بحران، بجلی کے بحران ، گیس کے بحران اور سیاسی بحرانوں نے ملکر اس کو دنیا کے نقشے پہ وجود عطا کیا جسے بحر بحران کا نام دیا گیا ہے اور یہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ہی میں پا یا جاتا ہے۔

سیاسی مبصرین اور ناقدینِ سیاست کی تحقیق کے مطابق قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ اس گہرے سمندر سے اُٹھنے والی تلاطم خیز مو جیں نہ صرف اطراف میں بسنے والے انسانوں کو بلکہ پوری سر زمین کو ڈبو سکتی ہیں۔اگر اس طرح کے خطرناک ترین بحر پر بند نہ باندھے گئے اور مناسب حفاظتی تدابیر نہ کی گئیں تو اک دن اس سمندر کی لہریں سونامی سے قدرے کہیں بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

اگر آج ہم نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی تو یہ پاکستان اور اس میں بسنے والی بے بس عوام کی بقا کیلیئے زہرِ قاتل بن جا ئے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بحر کا وجود حقیقی ہے یا مصنوعی اور اس میں دیگر عناصر کا کردار کس حد تک ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بحر بحران میں گرنے والے دھارے کدھر سے ہوتے ہوئے آرہے ہیں اور اِن کی بنیاد کہاں ہے۔ اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم سب سے پہلے ان بحرانوں کے پیدا ہونے کے عوامل کو معلوم کرکے اس کی روک تھام کی پوری کوشش کریں۔


کیا ہمارے حکمرانوں کو اِن بحرا نوں کی فکر ہے یا محض ہر چیز کی قلت کو ایک بحران بنا کر پیش کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔نہ صرف حکمران بلکہ حزبِ اختلاف اور دیگر تمام سیاسی ارکان و نام نہاد رہنما بھی ملک و قوم کو درپیش موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے میں اہم کردار رکھتے ہیں بشرطیکہ کردار ادا کریں ، ضرورت صرف قوم کو پیش آنے والے مسائل پر سنجیدگی سے مل بیٹھ کر کوئی جامع حکمتِ عملی طے کرنے کی ہے،نہ کہ پچھلی حکومتوں کی غلطیوں کا راگ الاپ کر اور موجودہ برسرِاقتدار حکمرانوں کے کاموں میں نکتہ چینیاں کرکے اپنی ذمہ داریوں سے عوام کی توجہ منتشر کرنے سے کچھ ہوگا۔

صرف اُن معاملات پر بحث برائے بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جس سے غریب عوام کو ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑتا ہو ۔کیا ابھی تک کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ان تما م بحرانوں میں سے کسی ایک بحران کے حل کیلیے سنجیدگی سے کوئی کوشش کی گئی ہے ۔ ہر گز نہیں،محض اپنے سیاسی جوڑ توڑ، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے علاوہ کئوئی عوامی فلاح و بہبود کیلیئے مخلصانہ پیش رفت نہیں کی گئی۔


آج اس عوام کو جھو ٹے دعوے کرنے اورمعصوم عوام کے مسائل کی آڑ میں اپنی سیاست چمکانے والے سیاستدان نہیں بلکہ حضرت عمر فاروقجیسے رہنما چاہئیے جس کے دور میں دُور اُفتادہ علاقے میں رہنے والی ایک بیوہ عورت بھی اپنے بچوں سمیت بھوکی نہ سوئے اور اپنی دائرہ سلطنت میں مرنے والے ایک کتے کیلیئے بھی وہ اتنا ہی پشیمان ہو گویا ایک قتل ، اور جوابدہی اور ذمہ داری کی اعلی مثال ہو۔

مگر افسوس آج پاکستانی عوام جن نام نہاد سیاسی رہنماوٴں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے اورکسی ایندھن کی طرح سیاست کے الاوٴ میں استعمال ہورہی ہے ، ان سے کسی خیر خواہی کی توقع کرنا عبث ہے۔یہ مظلوم بے بس و بے کس عوام کسی کے سر پر تاجِ شاہی تو سجا سکتی ہے اور اُس کی معمولی سی زندگی کو عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی میں تو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے مگر صد افسوس کہ اپنے ہی سر پہ منڈلانے والے مسائل کی گھٹاوٴں اور ان کے گھپ اندھیرے سے خود کو نہیں بچا سکتی۔

اب لوگ ہر نئے آنے والے دن کو کسی بہتری کی اُمید سے تو نہیں البتہ اِس خوف سے ضرور شروع کرتے ہیں کہ اب نجانے کون سا نیا بحران نازل ہونے کو ہے۔اب عوام کا یہ نحیف و لاغر وجود شاید کسی نئے بحران کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور مزید کوئی نیا بحران جنم لے توشاید یہ ملک و قوم کی آخری ہچکی ثابت ہو۔
اگر اس کے اہم عناصر اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کا سد باب نہ کیا گیا تو یہ وطن عزیرکہیں صفحہ ہستی سے نہ مٹ جائے کیونکہ وقت کا دھارا کبھی رُکتا نہیں ہے، نہ کسی کا انتظار کرتا ہے۔

ایسا نہ ہو کہ خود غرضی ، بے حسی ، اور کسی مدد گار کے انتظار میں یہ پانی سر سے اُونچا ہوجائے پھر کسی کی مدد بھی اس ملک و قوم کو بچانے میں کار گر نہیں ہوگی اور اس بحر بحران میں اس دھرتی کا وجود ایسا غرقاب ہو جائے گا کہ دنیا کے نقشے پر اس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ ہوگا۔ شاید صرف تاریخ کے اوراق پر اک یادِماضی کی طرح کسی مورخ کے مطالعے کا ساماں ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :