حکومت ، حکمت اور تشدد

منگل 20 اپریل 2021

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک بھر اور خصوصاً لاہور میں پیش آنے والے واقعات انتہائی افسوسناک اور قابل تشویش ہیں کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتاری سے لیکر چوک یتیم خانہ پر ہونے والی پُرتشدد کارروائیوں تک کی صورتحال نے نہ صرف حکومت کی حکمت ، تدبر ، حکمت عملی اور پلاننگ پر کئی سوالات اٹھا دئے ہیں بلکہ یہ تمام صورتحال اس امر کی غماضی بھی کرتی ہے کہ شدت پسندی اور انتہاء پسندی کسی نہ کسی صورت میں ہمارے معاشرے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنے اثرات کے زریعے ہمارے امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز ایک طویل عرصہ تک شدت پسندی اور انتہاء پسندی کا شکار رہا ہے جس کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی نے پاکستان کو جانی اور مالی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پھر مذہب کے نام پر آگ اور خون کی حولی کھیلی جاتی رہی۔

(جاری ہے)

عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دہشت گردی کو کچھ اس انداز سے فروغ دیا گیا کہ اس کا رد عمل پوری دنیا میں دیکھنے کو ملا مگر پاکستان سب سے بڑھ کر ایک طویل عرصہ تک اس لیے دہشت گردی کا شکار رہا کیونکہ پاکستان نے صف اول کے اتحادی کے طور پر اس جنگ میں حصہ لیا اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتا مگر اس دہشت گردانہ سوچ کے خاتمے کے لیے پوری قوم نے متحد ہو کر جدوجہد کی اور بہت حد تک کامیابی حاصل کی۔


مگر اب صورتحال بہت حد تک مختلف ہے معاملہ آقا حضور ﷺ کی ناموس سے وابستہ ہے مسلمان چاہئے کتنے بھی کمزور عقیدے کا کیوں نہ ہو مگر ناموس رسالتﷺ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کر سکتا آج بھی عام لوگوں سے بات کی جائے تو ان کے لہجے میں جہاں ایک طرف عقیدت جھلکتی ہے وہاں دوسری طرف ان کی گفتگو میں غم و غصہ دکھائی دیتا ہے گو کہ یہ تمام معاملہ کئی ماہ پہلے کا ہے مگر حکومت نے اس سنجیدہ معاملے کے حل کے لیے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے نتائج آج پورا ملک بھگت رہا ہے۔


سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جمہوری حکومت میں ایسی نوبت ہی کیوں آئے کہ کسی شہری ، تنظیم یا جماعت کو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا پڑے۔ مگر ایسا ہوتا ہے پوری دنیا میں احتجاج ہوتے ہیں ہمارے ہاں بھی کوئی سیاسی اور مذہبی جماعت ایسی نہیں جس نے احتجاجی کی سیاست نہ کی ہو بلکہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں کسی نہ کسی موقع پر کہیں نہ کہیں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں بھی ملوث  رہی ہیں تاہم سب سے اہم کام حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ احتجاج کی نوبت ہی نہ آنے دے اور پھر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ احتجاج سے کس طرح نمٹا جائے احتجاج کو پر تشدد ہونے سے کیسے روکا جائے ، پر تشدد صورتحال کو کس طرح کنٹرول کیا جائے عوام کے جذبات کو کس طرح نارمل رکھا جائے ہر حکومت کی حکمت عملی تدبر اور پلاننگ پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح حالات کو اپنے قابو میں رکھتی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شروع سے ہی ناکام رہی اور حالات تشدد کی طرف چلے گئے دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم فرانس کو سبق سکھانے کے لیے ایک دوسرے کو سبق سکھاتے رہے  ہم فرانس کو معاشی نقصان پہنچانے کے لیے اپنے رکشے جلاتے رہے ہم فرانس کا ناطقہ بند کرنے کے اپنے راستے بند کرتے رہے یقین کریں یقین نہیں آتا کہ ہم تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والے آقا حضور ﷺ کی ناموس حفاظت کا نام لے کر لوگوں کے لیے زحمت بنتے رہے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہیں۔


دوسری طرف حکومت نے فیض آباد دھرنے کے دوران کئے گئے معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا یقینا" اتنا طویل وقفہ ملنے کے دوران حکومت اس کو پارلیمنٹ میں لاکر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کوئی حکمت عملی طے کر سکتی تھی یا تحریک لبیک کی قیادت سے مزاکرات کر کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پیش رفت کی جاسکتی تھی مگر دونوں کو اپنی طاقت کا زعم تھا دونوں نے ایک دوسرے کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا جس کا نتیجہ تصادم کی صورت  میں نکلا کئی لوگ زخمی اور کی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں یقیناً طاقت کے استعمال سے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ مسائل میں اضافہ ہوتا اور طاقت کا اندھا استمال اس بات کی علامت ہے کہ آپ سوچنے سمجھنے غور کرنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں یعنی طاقت کا اندھا استمال آپ کے اندھے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ بندوق کی گولی سے رٹ قائم ہوسکتی ہے اور نہ ہو ڈنڈے کے زور پر شریعت نافذ ہوسکتی ہے یہ بات جتنی جلدی سمجھ آجائے اتنا ہی فائدہ ہے ورنہ تشدد کا یہ راستہ ملک کو ایک نئی تباہی سے دوچار کر سکتا ہے یہ بات درست ہے کہ کسی جتھے کو یہ حق حاصل نہیں کہ ریاست کو اپنی مرضی سے چلائے مگر ریاست کی بھی تو اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کرے المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی مذہبی جماعتیں استعمال ہوتی ہیں اور کبھی مذہب استعمال ہوتا ہے ماضی میں حکمرانوں کے خلاف مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا گیا اور اج ان کے نتائج کا سامنا پورے ملک کو کرنا پڑ رہا ہے ہم بہت کچھ ضائع کر چکے ہیں مگر بہت کچھ اب بھی باقی ہے مزاکرات کی خبریں آرہی اچھی بات ہے دیر آئد درست آئد کیونکہ یہ مسئلہ طاقت سے  نہیں بلکہ حکمت سے حل ہوگا ہم کب تک سفیروں کو نکالنے کے مطالبے کرتے رہیں گے کیا ہی بہتر ہو کہ حکومت تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مشاورت سے تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لیے عالمی عدالت انصاف میں پٹیشن دائر کرے تاکہ آئندہ آزادی اظہار کے نام پر مقدس ہستیوں کی توہین کی کسی کو جرأت نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :