
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021

مظہر اقبال کھوکھر
(جاری ہے)
پاکستان ایک زرعی ملک ہے بلکہ زراعت وطن عزیز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ملک کی 80 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ملک کے لیے زراعت کی اہمیت اور کسانوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے رہتے ہیں اس کے لیے انھوں نے کسان پورٹل کا اجراء بھی کیا جبکہ چند ماہ قبل ملتان میں کسان کارڈ کی تقسیم کے سلسلے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ملک کا کسان مضبوط ہوگا تو ملک مضبوط ہوگا اور جب کسانوں کی فصلیں خراب ہوتی ہیں تو کسانوں کے حالات خراب ہوتے ہیں اور جب کسانوں کے حالات خراب ہوتے ہیں تو پورے ملک کے حالات خراب ہو جاتے ہیں کسان کارڈ کے زریعے ہم کسانوں کو قرضے دیں گے انھوں نے مزید کہا کہ زراعت کے شعبے کی میں خود نگرانی کروں گا تاکہ کاشتکاروں کا کوئی استحصال نہ کر سکے۔
نہیں معلوم وزیر اعظم شعبہ زراعت کی نگرانی کر رہے ہیں یا ان کا یہ بیان اور اعلان بھی محض انتخابی مہم کے وعدوں اور اعلانات کی طرح تھا مگر صورتحال انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے ایسا لگتا ہے زراعت کا کوئی ولی وارث نہیں کھاد بیج سے لیکر زرعی ادویات تک مڈل مین شوگر مافیا تک اور آڑتھیوں سے محکمہ فوڈ تک ہر جگہ کاشتکاروں کا استحصال اور لوٹ مار ہوتی ہے اور آج کاشتکار کھاد مافیا کے رحم و کرم پر ہے جو دونوں ہاتھوں سے کاشتکاروں کو لوٹ بھی رہا ہے اور اس کی تذلیل بھی کر رہا ہے کیونکہ حکومت نے یوریا کھاد کی قیمتیں تو کم کیں مگر اس کو مارکیٹ میں لانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے یہی وجہ کسان بلیک میں کھاد خریدنے پر مجبور ہیں مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ آج کھاد کا بحران کل گندم کے بحران کا سبب بھی بن سکتا ہے کیونکہ جب پورے ملک کا انحصار گندم کی فصل پر ہو تو ایسے میں تصور کیجئے کہ اس کے بحران کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ باقی تمام بحرانوں سے نمٹنا تو شاید آسان ہو مگر گندم کا بحران تو سانس لینے جوگا بھی نہیں چھوڑے گا مگر افسوس کسی کو بھی اس کا احساس نہیں۔ زراعت اور اس سے وابستہ لوگ آج جس زبوں حالی کا شکار ہیں اور کاشتکاروں کو جس ذلالت کا سامنا ہے اس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔ پاکستان کی اہم ترین فصل گندم کی کاشت جاری ہے مگر اس کی کاشت اور پہلے پانی کے ساتھ استعمال ہونے ولی یوریا کھاد اس وقت پورے پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب سے غائب ہے اور حکومت وقت اس کا نوٹس بھی لے چکی ہے جس کے بعد عام طور پر نوٹس لیے جانے والی چیز کا ہوتا ہے اب حکومت کی بہترین زرعی پالیسی کے نتیجے میں کاشتکاروں کو سرکاری نرخ پر یوریا کھاد خریدنے کے لیے گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے تب جا کر ایک شناختی کارڈ پر کھاد کا ایک بیگ ملتا ہے مگر قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ ایک ایکڑ میں ایک بیگ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں جس کاشتکار نے 5 یا 7 ایکڑ پر گندم کاشت کی ہو اسے تو کئی کئی دن تک لائن میں لگنا پڑے گا جبکہ یہی کھاد بلیک میں 2300 سے 25 سو روپے تک باآسانی دستیاب ہے یعنی ڈیلرز عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں مگر حکومت کسانوں کو لائنوں میں ذلیل کروا کر یہ احسان کر رہی ہے کہ کسانوں کو سستی کھاد فراہم کی جارہی ہے ایسی صورتحال میں جب فصلوں کو بروقت پانی اور کھاد نہیں ملے گی تو آخر ہم کس طرح بہتر پیداوار کی توقع رکھ سکتے ہیں قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال ملک میں گندم کی بہترین پیداوار ہوئی تھی مگر اس کے باوجود ملک میں گندم اور آٹے کے بحران کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس وقت تک لوگ آٹے کے لیے ذلیل ہورہے ہیں ایسے میں اگر کھاد کا بحران اسی طرح برقرار رہا تو اس بات کا خدشہ ہے کہ گندم کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو ہمیں گندم اور آٹے کے بحران کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
ایسی صورتحال میں کسان پورٹل ، کسان کارڈ اور کھاد کی قیمتیں کم کرنے کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں اگر آج گندم کی کاشت کے وقت کسانوں کو بروقت اور ضرورت کے مطابق کھاد نہ مل سکی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت محض اعلانات اور بیانات سے باہر نکلے اور عملی طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرے اور کاشتکاروں کو کھاد کی فراہمی کو یقینی بنائے ورنہ آج کسان کو ایک ایک تھیلے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے اور آنے والے کل ہر شخص گندم اور آٹے کے کے قطار میں کھڑا ہوگا اور حکمران باہر نکلنے کے قابل بھی نہیں ہونگے حکمرانوں کی اپنی کسان کش پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے کیا یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے مطالبات منوانے کے لیے ڈنڈے ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں بند کرے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ حکمران یہ نوبت آنے سے پہلے کسانوں کو در پیش مشکلات کا ازالہ کرے اور اس سے قبل کہ کوئی نیا بحران جنم لے حکومت کو اپنی زرعی اور معاشی پالیسیوں پر غور کرنا کر لینا چاہئے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مظہر اقبال کھوکھر کے کالمز
-
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
جمعرات 3 فروری 2022
-
صوبے کے نام پر سیاست
بدھ 26 جنوری 2022
-
بات تو سچ ہے۔۔۔
جمعرات 20 جنوری 2022
-
اجتماعی بے حسی کا نوحہ
بدھ 12 جنوری 2022
-
خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان
بدھ 5 جنوری 2022
-
ایک اور سال
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
تبدیلی آنے سے پہلے جانے لگی
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021
مظہر اقبال کھوکھر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.