اسلامی تعلیمات میں اس بات کوبڑی اہمیت دی گئی تھی کہ بندہ مومن جو بھی نیک کام کرے و ہ خالص للہ کے لیے کرے اور اس کا مقصد عمل صالح سے اللہ کی رضا جوئی اورخوشنودی کا حصول ہو نہ کہ نمود و نمائش اور لوگوں میں اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا ہو اور نہ ہی کو ئی دنیاوی فائد ہ حاصل ہو اللہ تعالی بڑا بے نیاز ہے اسے وہ نیکی ہرگز پسند نہیں جس کے کر نے میں بندہ مخلص نہ ہو اللہ کی رضا جوئی چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حا صل کی غرض سے وہ نیکی انجام دی گئی ہو ریاء کاری ، اخلاص کے منافی ہے جو تمام اعمال کو ضائع کرنے کا باعث بن جاتا ہے اخلاص کا مطلب ہے کہ کوئی بھی کام کیا جائے خالص اللہ کی رضا کیلئے کیا جائے اور ریاء کاری کا مطلب ہے کہ جو بھی کام کیا جائے اللہ کی رضا کو مدنظر رکھا کر نہ کیا جائے بلکہ دوسروں کو دکھانے کے لئے کیا جائے تاکہ وہ تعریف کریں عزت افزائی کریں یا ان سے کوئی اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنی نیکی کا چرچاکرے اور لوگوں کو سنائے اور سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں وائرل کرے کہ میں نے فلاں کام کیا اور فلاں نیکی بھی میں نے کی وغیرہ ایسی مذموم اور فاسد نیت سے نہ صرف نیکی ضائع ہو جاتی ہے اور اجر و ثواب سے بھی محروم رہ جاتا ہے بلکہ یہ عمل شدید عذاب الہی کا بھی باعث بنتا ہے اور ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم میں ہے ارشاد باری تعالی ہے کہ اے ایمان والوں اپنے صدقات کو احسان جتا کر تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ پر یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ریاء کاری کو تو منافقین کی خصلت قرار دیا گیا اور فرمایا گیا ہے کہ بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے اور اللہ انھیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے ریاء کاری دراصل کافروں کا شیوہ ہے ۔
(جاری ہے)
اس سے یہ بات بھی واضع ہو چکی ہے کہ ریاء کاری ایک طرح کا شرک ہی ہے خود نمائی ایک روحانی ونفسیاتی بیماری ہے جو اس وقت ڈسٹرکٹ اوکاڑہ میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے ۔ ہمارے ہاں قدیم ریاء کاری سے بھی بڑھ کر اب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ سب کیا جا رہا ہے کہ میں لوگوں کی مدد کر رہا ہوں، راشن ، کپڑے ،یا نقدی دے کر پھر دنیا کو سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض اوقات تو صرف ایک چیک پر بڑ ی رقم بھر کربیسوں لوگوں کو دینے کا تماشہ کر کے فوٹو سیشن کیا جاتا ہے اور پھر ان سے واپس لے کر اپنی جیب میں ڈال لیا جاتا ہے اور ان بے سہارا غریب لاچار لوگوں کو چند روپوں کے ساتھ بہت ساری طفل تسلیاں دی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ بنائی گئی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہے اس بات کا بھی قطعی خیال نہیں کیا جاتا کہ اس بات کے ان بچارے غریبوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو گئے معاشرہ میں ان کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا ان کی غربت کا مذاق اڑایا جائے گا اوران کو پیشہ وار مانگنے والا سمجھا جائے گا پر ان کو توسیاسی ومذہبی سماجی لحاظ سے فائدہ ہونا چاہیے بس لوگوں کو پتہ چلے کہ فلا ں آدمی کتنا بڑا مال دار اور پرہیزگار ہے ،سخاوت کے لحاظ سے تو ساری دنیا اس سے پیچھے ہے واہ جی واہ کمال کا آدمی ہے لیکن یہ ریاء کار لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ اب بد ل چکا ہے لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ اتنے جتن کس لئے کر رہا ہے اور اس کے پیچھے اس کے ذاتی کیا مقاصد ہیں انھیں معلوم ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے لئے نہیں کر رہا بلکہ یہ اپنے آپ کو بڑامعتبر اور جابر ثابت کرنے اور دنیاوی مفادات کے لئے کررہا ہے مگر افسوس کے اس میں ہمارے ڈسٹرکٹ لیول کے آفسران بھی شامل ہیں اور مال داروں نے انھیں یرغمال بنایا ہوا ہے اور یہ بھی اس غلیظ کام میں برابر کے شریک ہیں یہ بھی انسانیت کی تذلیل کروانے کے لئے فوٹو سیشن میں دوسروں سے سبقت لیجانے میں صف اول کے اداکار ہے در حقیقت ایسے خود ساختہ اداکار سمجھتے ہیں کہ ہم دوسروں کو دھوکہ دے رہے پر اصل میں یہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا اورآخرت کو بھی خراب کر رہے ہیں ایسے لوگ معافی کے مستحق نہیں بلکہ یہ اس بات کو بھی فراموش کر رہے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے اور نہ ہی دکھ دیتے ہیں اس کا اجران کے رب کے پاس ہے یعنی خرچ کرنے کے بعد دایاں ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو اس طرح دے کر بھول جائے اگر دے کر احسان جتانا ہے یا فوٹو سیشن کرکے ساری دنیا کو بتانا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ مت دو پھر ایک اچھا بول ہی بول دو کیو نکہ آپ ﷺنے فرمایا تم میں سے وہ بہتر ہے جس کا اخلاق بہتر ہے جس معاشرے میں اخلاق نا پید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا اس میں کبھی اجتماعی روا داری مساوات ، اخوت وباہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا جس معاشرے میں جھوٹ ، بد دیانتی اور ریا کاری عام ہو وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہو سکتا جس معاشر ہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتی ہوں اور جہاں شرم و حیا ء کی بجائے اخلاقی با ختگی اور حیا سوزی کو منتہائے مقصود سمجھا جاتا ہو اس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قومیں ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہیں جبکہ برے اخلاق اور ریاء کارکی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے یہ ایک ناقابل تر دید حقیقت ہے کہ خود نمائی ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکی ہے معاملہ عبادت کا ہو یا معاملات کا ،حقوق و فرئض کا ہو، یاانسانیت کا ثواب کا ہو، یا تعلیم و تربیت ،امانت دیانت، صدق ، عدل ، فرض شنا سی اور ان جیسی اعلی اقدار کا ہم ان سب میں کمال کے ریاء کار ہیں اور اللہ تعالی ایسے قول وفعل کوپسند نہیں فرماتا اللہ پاک چاہتا ہے کہ میرے بندے اچھے کام کرے جس سے دوسرے بندوں کا دل خوش ہو ایسا کام نہ کرے جس سے اس کی مخلوق دکھ اٹھائے اذیت اٹھائے اور انسانیت بھی شرما ئے لیکن افسوس کہ یہی سبق ہمیں یاد نہیں ہم نماز بھی پڑھ لیتے ہیں صدقہ بھی دے لیتے ہیں حج عمرہ بھی کر لیتے ہیں خیرات و زکوة بھی دے لیتے ہیں لیکن کسی انسان کا دل رکھنا نہیں جانتے اگر یہ نیکی ہمارے اندر آجائے اوریہی نیکی دوسری نیکیوں کو محفوظ کرتی ہے ورنہ مال خرچ کرکے دکھ دینا سارے نیک اعمال کو ضائع کرنا ہے اللہ پاک ہم سب کو ریاء کینہ ، خود نمائی اور برئے اخلاق سے بچائے اور اعلی ظرف بننے کی توفیق عطاء فرمائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔