مخلوط ملازمتیں ترقی یا استحصال

ہفتہ 12 فروری 2022

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

لفظ عورت ؛، کا لغوی معنی پردہ ،پوشیدگی ،گھر کی چاردیواری کی زینت ۔عورت حیا اور صبروبرداشت کا دوسرا نام ہے ۔ عورت بیٹی کے روپ میں پیار کی اوربیٹیوں کی پرورش پر جنت کی حقدار ٹھہرادی گئی۔بیوی ہے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت فرمادی گئی ،بہن کے روپ میں عزت کے قابل ، ماں بنی تو نیک برتاوٴ کا حکم دیا گیا کیونکہ ماں ایسی شفیق ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔

باپ ،بھائی،خاوند،چچا،ماموں نانا،دادا،سسر،یہ سب سر پرست بنادیئے تاکہ عورت کی رکھوالی ہو ۔بیٹی ہے تو کفالت والدین کی ذمہ داری ، بیوی ہے تو خاوند کی ذمہ داری اوراگر بہن ہے تو بھائی اس کی نگہداشت کرے ۔
دین اسلام نے عورت کو جو مقام عطاء کیا ہے جس کا دوسرے مذاہب وادیان میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

قران و سنت کی نورانی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور دوسرے مذاہب کا بھی بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہو جا تا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ جس حسن سلوک کا درس دیا ، دوسرے مذاہب اس سے قاصر ہیں۔

آمد اسلام سے قبل بچیوں کو زندہ درگور کرنے کے بھیانک اور رلادینے والے حیرت انگیز واقعات تاریخ کے سینے پر پیوست ہیں ۔جن سے باخوبی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ عورت کا معاشرے میں کیا مقام تھا اور اس کو کس نگا ہ سے دیکھا جاتا تھا ۔زمانہ جاہلیت میں عورت کے ساتھ ظلم و ستم ،بد سلوکی ،بد اخلاقی کو روا سمجھا جاتا تھا ۔اس کے حقوق پامال کیے جاتے تھے ۔

اس کو جانوروں سے بھی بد تر سمجھا جاتا تھا ۔منفی امتیاز کا یہ عالم تھا کہ لڑکے کی پیدائش پر گھر بھر میں چراغاں کیا جاتا جبکہ لڑکی کی پیدائش پر صف ماتم کیا جاتا تھا ۔اس کا مال مرد اپنا مال سمجھتے تھے ،ترکہ اور واراثت میں بھی کچھ حصہ نہیں دیا جاتا تھا شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد اس کو اجازت نہیں تھی کہ وہ دوسرا نکاح کرسکے ۔دوسرے سامان وحیوانات کی طرح وہ بھی منتقل ہوتی رہتی تھی ۔

مرد تو اپنا پورا حق وصول کر لیتے تھے لیکن عورت اپنے حقوق سے محروم رہتی تھی ۔نکاح و طلاق کا واضح قانون نہ تھا مرد جتنی عورتوں سے چاہتا شادی کر لیتا اور جب چاہتا انھیں طلاق دے دیتا اور مختلف طبقات میں عورتوں کو اس سے بھی کم تر وابتر سمجھا جاتا تھا ۔ آج کے معاشرے کو دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ آزادیٴ نسواں کے کھوکھلے نعروں نے عورت کو گمراہی کی اس ڈگر پر ڈالا ہے کہ عریانیت وکم لباس مخلوط ماحول کو ہی اپنی ترقی سمجھ رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ بھیانک مذاق کررہی ہے ۔

کیا بے پردگی،بے حیائی اور اپنی نمائش کرنے کا نام ترقی ہے ؟ درحقیقت یہاں بھی مردوں نے غیرمحسوس طور پر عورت کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے عورتیں جتنی زیادہ فطری اصولوں سے بغاوت کرکے آ زادانہ روش اختیار کرتی جارہی ہیں اتنی ہی وہ مردوں کی غلام بنتی جارہی ہے ۔عورت کو بطور کاروبار استعمال کیاجانے لگا ہے ۔کسی بھی کمپنی کا کوئی بھی اشتہار ایسا نہیں ہوگا ،جس میں عورت کو غیرضرروری طور پر نمایاں نہ کیا گیا ہو۔

یہ غلام نہیں تو اور کیا ہے۔ کہ چند سکوں کے عوض عورت نسوانیت کو داوٴ پر لگا کر مردوں کے اشاروں پر ناچنے لگی ہیں۔بہت ساری عورتیں جاب کے نام پر دفتروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ماحول کو رونق بخشتی ہیں اور کسی کی پرائیویٹ سیکرٹری ،اسٹینو ،ٹائپسٹ،سیلز گرل،ایئر ہوسٹس اور ماڈل گرل بننے سے ترقی نہیں کی جاسکتی۔ بعض لوگ حضرت خدیجہ کی تجارتی سرگرمیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ آپ  رضی اللہ عنہ بھی تو تجارت کرتی تھیں۔

یہ درست ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا اپنا کاروبار تھا لیکن اسلام نے بھی خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنا کاروبار یاجاب نہیں کر سکتی ہیں ۔لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے اعمال شریعت کی حدود میں ہو،جیسے نامحرم کے ساتھ خلوت میں نہ رہنا ۔ان سے اختلاط ہونا مناسب لباس سے نہ نکلنا خاندان سے غافل نہ ہونا ،اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا اور اپنے اہل خانہ کی مرضی کے خلاف نوکری نہ کرنا وغیرہ ایک فرق یہ بھی تھا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ بذات خودآج کی طرح اپنے کاروبار کے لیے محلے ،گاوٴں،اور شہروں میں نہیں جایا کرتی تھیں اور نہ ہی آفس میں آزادانہ مردوں سے گفتگو کرتیں بلکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے نبوت سے پہلے حضرت محمدﷺکی خدمات حاصل کی تھیں ۔

جس کا سیرت کی کتاب کے مطالعے سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اخلاقی قواعدو ضوابط نظر آتے ہیں ۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات خواتین کا ملازمت کرنا معاشرے کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے مثلاََ امراض نسواں و ولادت کی ڈاکٹر ، معلمات جو لڑکیوں کے لیے بہترین نظام تعلیم کو قائم کرسکیں ،لیکن بعض وہ عورتیں بھی ہیں جو حالت مجبوری میں گھر سے نکلتی ہیں مثلا جن کا سر پرست یا ولی نہیں ہوتا یا بیوہ ہوتی ہیں ۔

اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انھیں کام کرنا پڑتا ہے چاہیے ۔اس کے لیے اس کو لوگوں کے گھروں ،دفتروں یا بنکوں میں ملازمت کرنی پڑے۔عورت سب کچھ کرتی ہیں ۔اسلام نے جہاں عورت کو معاش کی ذمہ داری سے بڑی حد تک بے نیاز رکھا ہے وہیں اس مجبوری میں معاشی جدوجہد کرنے سے ہر گزنہیں روکا۔لیکن کچھ خواتین مہنگائی کی وجہ سے مجبور ہیں محنت مزدوری اختیار کرنے پریا آمادہ ہے صرف اس وجہ سے کہ ایک مرد دس افراد پر مشتمل کنبہ کو پالتا ہے ۔

اگرچے اس سے گھر کی آسائشات تو درکنار ضرورت زندگی کی دستیابی بھی مشکل ہے ۔ چنانچہ اکثر گھر میں عورتیں پڑھی لکھی ہو،یا کوئی ہنر جانتی ہو،تو ان کو مردوں کے لیے Helping hand بننا پڑتاہے ۔خوشحال بیوی تنگ دست شوہر کی مدد کرسکے تویہ اعلی اخلاق کا ثبوت ہوگا۔ ایک پرائیویٹ سروے کے مطابق 93% خواتین نے بتایا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد ان کے Bossانھیں پریشان کرتے ہیں ذاتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں Demond پوری نہ کرنے پر نوکری ختم کردینے کی دھمکی دیتے ہیں۔

جس کا اظہار گھورنے ،پریشان کرنے ،تعاقب، کرنے،غیر شائستہ اشارے ،غیر اخلاقی گفتگو اور نہ مناسب جملوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔جس کے باعث خواتین ذہنی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں اور ساتھ ہی اپنااعتماد بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ اسی حوالہ سے رقم الحرف کے دوست چوہدری ذیشان احمد جوپیشہ کے لحاظ سے سنیارہ ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اکثر ملازمت پیشہ خواتین ایسی بھی آتی ہیں جو فیشن اور روشن خیالی کے نام پراپنی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ اپنے لباس کی تیاری میک اپ ٹرانسپورٹ اور آنے جانے کے بندو بست پر خرچ کر تیں ہیں ۔

علاوہ ازیں دفاترمیں ان کو مردوں کی غیر اخلاقی حرکات اور گھر میں عدم سکون اور بد نظمی کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے ۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ آج کی عورت فیکٹریوں دفتروں ،ہسپتالوں،بنکوں انشورنس کمپنیوں اور ہر قسم کے نجی اداروں حتی کہ دوکانوں ، پٹرول پمپوں ،اور سٹرکوں پر پولیس وردی میں نظر آتی ہیں ۔جو جتنی زیادہ مخلوط ماحول میں آتی ہے وہ اس قدر اذیت کا شکار ہوجاتی ہیں ۔

مثلا لڑکیوں کو چھڑنا ،تنگ کرنا، مختلف نازیباآوازیں کسنا،اور جنسی طور پر ہراساں کرنا۔ حکومت نے ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قومی اسمبلی میں بل تو پاس کروالیا لیکن برائی اور ان مسائل کی جڑ کو نہیں دیکھا کہ ایسا کیوں ہے اصل وجہ کیا ہے ۔بات تو یہ تھی کہ اس مسئلہ پر غور کیا جاتا کہ خواتین کو ملازمت کے دوران جو مسائل ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ خواتین کا مخلوط ماحول میں ملازمت کرنا ہے مخلوط اداروں نے ہی ان مسائل کو جنم دیا ہے المیہ یہ بھی ہے کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی کچھ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ۔

اگر حکومت وقت حقیقی معنوں میں ان مسائل کا حل چاہتی ہے تو اس مقصد کے لئے حکم نافذکرے کہ اسلامی مملکت پاکستان جس کی بنیاد لاالہ لااللہ پر رکھی گئی ، وہیں خواتین مخلوط اداروں میں کام کرنے پر مجبور ہو،تویہ اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنا ہی ہے ۔۔۔اللہ سے کھلی جنگ کرنا اوراپنے آپ کو تباہی کے دہانے پر رکھنا ہے ۔ عذاب الہی اوراس کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔

حکومت کو چاہے کہ سب سے پہلے مرد وخواتین کے لئے الگ الگ روز گار کے ادارے قائم کرے جب مخلوط ماحول ہوگاہی نہیں تو مسائل خود بخود ختم ہوجائے گئے، عورت کا تحفظ یقینی ہوگا۔راستے پرامن بنائے اوراس کے لئے ضروری اقدامات کیے جائے ۔اسلام کے نظام کفالت کو متعارف کروایا جائے ۔بے سہارا خواتین کی کفالت کے لئے چھوٹے منصوبوں کی تیاری کا ادارہ بنایا جائے جو انھیں چھوٹی سطح کے کاروبار میں مہارت فراہم کرسکے ۔

اسلامی روایات اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع سے ہی مردوں کے دلوں میں عورتوں کی تقدیس کا جذبہ اجاگرکیا جائے اور خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنی تقدیس کو خود پامال نہ کریں اور اسلامی روایات کو اپنائے اور شرعی حدود کو مدنظررکھتے ہوئے اپنے مقام کو پہچانیں۔اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انھیں دنیا اور آخرت کی کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتااور اجروثواب بھی الگ یاد رکھیں کہ اسلامی تعلیمات ہی ہمارے لئے مشعل را ہ ہے ،دوسرا کوئی نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :