گندم اور آٹا عوام کو منہ چڑھانے لگا

پیر 6 اپریل 2020

Mian Mohammad Husnain Kamyana

میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ

گندم دنیا بھر میں اگائی جانے والی تیسری بڑی فصل ہے۔ جو یقیناغذائی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گندم کی پیداوار میں بھی زیادتی ہوتی جارہی ہے ۔ دنیا میں زیادہ گندم پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا 8واں نمبرہے ۔ملکی تاریخ میں جب بھی گندم سر پلس ہوئی ،اسی سال ہی مسئلہ پیدا ہوا، 2008ء ، 2013ء اور اب 2020میں بھی یہی صورتحال ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی یہاں آٹے ،چینی ،ٹماٹر ،پیازکاوغیرہ کا بحران رہتا ہے ۔اس کی وجہ مصلحت وقت، منصوبہ بندی، عاقبت اندیشی اورحکمت ودانائی کی گم گشتگی ہے ۔ذخیرہ اندوزمافیہ ،متعلقہ کرپٹ افسران اور غلط پالیسیوں کے باعث آج پاکستان آٹے کے بحران کا شہکار ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دنوں سے کراچی تا خیبرتک ملک میں گندم اورآٹے کا بحران روزبروز شدت اختیارکر تا جا رہا ہے۔

جس سے عوام کو شدیدمشکلات کا سامناکرنا پڑھ رہا ہے۔پہلے تو غریب آدمی روکھی سوکھی روٹی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر بھی گزارہ کرلیتا تھا۔لیکن اب تو اس کے لیے بھی آٹا میسر نہیں ۔ذرا سوچیے اب غریب بے چارہ کیا کرے،کہاں جائے،کن کے پاس جائے اورکس سے فریاد کرے ۔ جب کہ روٹی بھی انسانی زندگی کی انتہائی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔لیکن جب انسان کے پاس وسائل ہونے کے باوجود بھی یہ بنیادی ضرورت اشیاء ممکن الحصول نہ ہو تو یہ تمام تر ذمہ داری حاکم وقت پر عائد ہوتی ہے ۔

ملکی موجودہ صورت حال اور سب اچھا کا راگ الاپنے والوں کی کارکردگی اوردعووٴں پر یہ سوالیہ نشان ؟نہیں تو اور کیا ہے زراعت کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر زرعی ممالک میں ہوتا ہے۔ جن کی معاشی ترقی کا انحصار بنیادی طور پر زراعت سے منسلک ہے۔ وطن عزیز کی 60فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ 25فیصد ہے۔

پاکستان میں پچھلے 10 سالوں کے دوران گندم کی پیدا وار21 سے25ملین ٹن رہی ہے ۔ زراعت پر منحصر ان صنعتوں میں گندم اور آٹے کی پیداوار اور تقسیم انتہائی کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ اس کے باوجود بھی گندم اور آٹا غریبوں کے لئے ناپیند ہوجاتا ہے ۔اور اس سے بھی زیادہ ایک اور عجیب بات بلکہ دل دہلادینے والی حقیقت یہ ہے۔ کہ ملک میں گندم مطلوبہ مقدار سے بھی زیادہ، یعنی ملکی ضرورت گندم24 ملین ٹن ہے۔

جب کہ ملک میں موجود 27.9ملین ٹن ذخیرہ ہونے کے باوجود بھی آٹے کی ہنگامی صورتحال ہے اور زرعی ملک کو بھی آٹے کی قلت سے دو چار کردیا جاتاہے ۔ دوسری جانب آٹا چکی مالکان ،فلورملوں کو باقاعدگی کے ساتھ ان کی ضرورت کے مطابق بلکہ ان کو ضرورت سے بھی زیادہ گندم دی جارہی ہے اور بلا ناغہ فلورملوں میں گندم کی پسائی کے باوجود بھی آٹا مہنگا ہونا الگ بات ہے۔

عام آدمی ،دوکانداروں کو تو ملنا دور کی بات ہے ۔یہ فلور ملوں سے ہی متعلقہ اداروں،ڈسٹرکٹ فوڈکنٹرولر اور اس کے آفسران وہلکاروں کی ملی بھگت سے آٹا اور گندم غائب ہو کے ذخیرہ اندوزوکے گوداموں میں بوریاں اور ٹھیلے پہنچ جاتے ہیں ۔جب ایسی صورت حال ہوگی تو عام آدمی ،غریب ، محتاج مسکین ،مفلس،اور مجبور عوام کو آٹاکیسے ملے گا ۔جب انھیں آٹا نہیں ملے گا تو یہ اور ان کے معصوم بچے جن کو کرپٹ اورذخیرہ اندوزو کا ادراک ہی نہیں۔

وہ بھوک اور افلاس سے کیسے نہیں بلبلائے گئے ۔ ہر سال کئی افراد اسی بحران کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور کئی خوراک کی کمی کے باعث جسمانی طور پر مفلوج ہو جا تے ہیں۔ جن کے بارے میں نبی آخرالزاماں ،محسن انسانیت ،رحمت العالمین ،حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ مسند رسالت پر جلوہ افروز ہوئے ،تو آپ نے اللہ کے احکامات کی روشنی میں غریب ، محتاج اور مسکین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بارے میں لوگوں کو سخت ترین عذاب کی وعید سنائی اور انھیں پابند کیا کہ وہ اپنے مال کا ایک حصہ ان بے کس لوگوں پر خرچ کریں تاکہ وہ جنت میں بہترین انعام پا سکیں۔

یہ ہی لوگ اللہ اور اس کے پیارے رسول سے فریاد ، اور درندہ صفت ذخیرہ اندوزوں اور کرپشن کی عینک لگائے متعلقہ اداروں کے آفسران وہلکاروں کے لئے بد دعاکرتے ہیں ۔ جو دین اسلام کا سچامسلمان تو ایک طرف بلکہ یہ بضاعت مافیہ انسان اور انسانیت سے ہی بہت دور ہیں۔ ان کرپٹ مافیہ کی کرپشن کی لازوال داستان کی جھلک رقم الحروف نے بچشم بصیرت سے دیکھی اورخود اپنے کانوں سے سنی ۔

جو اہل قلم ،حاکم الوقت ،باب اختیاراور صاحب حیثیت کے پیش نظر ہے کہ مجھے چند آٹے کے تھیلوں کے لئے اوکاڑہ کی مختلف فلور ملوں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ میں نے آٹے کے تھیلوں کا کیا کرنا تھا یہ علحدہ بات ہے کیوں کے بتانے سے نیکی کا ضائع ہو جاتا ہے ۔ لیکن واضع رہے کہ ہمارے ملک پاکستان کے مخیر حضرات ،صاحب حیثیت ،برسراقتدار اوربرسرکار غریب کی مدد اللہ کی رضا کے لئے نہیں کرتے ،بلکہ یہ غریب آدمی کو ساتھ کھڑا کر کے اس کے ہاتھ میں مدد والا سامان پکڑا کر ویڈیو یا تصویربنانے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ٹھیک طرح سے بنانا اور یہ اس فوٹویا کلپ کوشوشل میڈیا ،پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں صرف اور صرف اپنی واہ، واہ کے لیے ۔

حالانکہ مدد کا یہ انداز تو غریب کی غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اور یہ غریب کو اس کی غربت ،لاچاری،اور بے بسی کا کا احساس دلوارہے ہوتے ہیں حالانکہ اس کی تصویر بنانا اس کی عزت نفس سے کھیلنا ہے ۔اس وقت بھی عقل کے اندھوں کو خدا کا خوف نہیں آرہا ہوتا وہ بے دھڑک دکھاوا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک علحدہ بحث ہے ،دوکانوں پر توآٹا مل نہیں رہا تھا اور جس دوکان پر آٹا مل رہا تھا وہ بھی ایک ایک تھیلہ اس نے باہر توریٹ لسٹ 805روپے 20کلو تھیلہ کی لگائی ہوئی تھی لیکن وہ 855روپے کا تھیلہ دے رہا تھااور وہ بھی شناختی کارڈ کی کاپی لے کر پھربھی لوگ لمبی لمبی لائنے لگا کرکھڑے تھے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیونکہ کورونا وائرس کی تباہ کاری تیز رفتاری سے جارہی ہے ۔

حکومت پاکستان کی اس سے بچاو کیلئے احتیاطی تدابیر کو بھی خاطر خواہ نہیں رکھا جا رہا تھا۔کیونکہ شائد بھوک تہذیب بھلا دیتی ہے ۔جب میں حصول آٹاکے لئے ایک مل میں پہنچا ایسے ہی ایک مل سے دوسری مل گیا مجھے آٹا تو نہیں ملا ۔لیکن وہاں پر موجود مل مالکان اور وہاں پر تعینات فوڈ کے آفیسران سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل ہوتا رہا۔ وہاں پر میں نے جھوٹے وعدے ، جھوٹی مذرتیں،فضول بہانوں کا فنی اور عملی مظاہرہ ہوتے خوددیکھا،جو یہ سب اسکا سہارا لے کر تنازعہ اور اعلی حکام سے شکائت سے بچنے کی کوشش کررہے تھے۔

لیکن جھوٹ اتنا بھی بے ضرنہیں یہ ہمیں بیمار اور ہمارے تعلقات کو تباہ کردیتا ہے ۔لیکن اچھے لوگ بھی اس جہاں میں موجود ہیں۔ میری مراد رفیع فلور مل کی نئی انتظامیہ سے ہے ۔جس کا سربراہ حاجی زبیر نامی شخص ہے۔ جس کو میں نے ہر لحاظ سے کافی بہتر پایایعنی جب اس مل میں داخل ہوا تو گیٹ کے اندر چوکیدار کے ہاتھ میں سنٹائیزر تھاجو ہر نئے آنے والے کے ہاتھ پر لگا رہا تھا۔

اندر لائنیں بنی ہوئی تھی اور ہر 6/6 میٹر کے فاصلے پر گول دائروں کے نشان بنے ہوئے تھے جن پرلوگ کھڑے اپنی بار کا انتظار کر رہے تھے ۔ ملز انتظامیہ کا اخلاق تولاجوب تھاجوخود اتنے اچھے ہو گئے ان کی آٹے کی کوالٹی بھی تو یقینا اچھی ہو گی ۔ ان کے تمام تر انتظامات دوسری ملوں سے بہت بہتر تھے۔ ایسے لوگوں کو سراہنا بھی چاہے تا کہ وہ مزید اچھے انداز سے بہترین انتظامات اور آٹے کی کوالٹی بہتر سے بہترین کر سکے میراتو خیال ہے کہ مجھے ان کی عظمت کو سلام کرنا چاہے ۔

کہ یہ ایسے حالات میں بھی آٹے کی قیمت اورترسیل قانون کے قواعدوضوابط کے مطابق کر رہے ہیں۔
ورنہ حکومت کے ریٹ مقرر ہونے کے باوجود بھی ملز انتظامیہ کہتی ہے کہ گندم نہیں مل رہی یا ہمارا کوٹہ کم ہے کا بہانہ بنا کر ضلعی انتظامیہ سے مل کراپنے من پسند لوگوں کو اپنی مرضی کے ریٹ پر آٹا فروخت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ان دوکانداروں نے گاہکوں کو آٹا دینا ہی بند کردیا ہے۔

ہر گاہک کو یہ ہی کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ ہمیں ملوں سے آٹا ہی نہیں مل رہا ۔حالانکہ کہ ان کے گوداموں سے سینکڑوں بوریاں آٹے کی ذخیرہ ملے گی ۔یہ بھی اپنے پسند یدہ لوگوں کو اپنی مرضی کا ریٹ لگا کر آٹا فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔آٹا نہ ملنے کی وجہ سے دیہاڑی دار طبقہ جو روزانہ کی بنیادوں پر آٹا خرید کر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سارا سارا دن حصول آٹا کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔

لیکن پھر بھی ان کو آٹا میسر نہیں ہوتا۔ پاکستان بھر کی فلور مل مالکان جن کو کسی نہ کسی بااثر حکومتی شخصیات ،یا اعلی آفسران کی سرپرستی حاصل ہے ۔انھوں نے محکمہ خوراک کے آفسران و اہلکاروں کی ملی بھگت سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ فلور مل مالکان،دوکاندارو ں اور ڈ سڑکٹ انتظامیہ کا کوئی بھی موٴاقف ہو کوئی بھی بیانیہ ہو، لیکن یہ تمام تو ذمہ دار ہیں مہنگا ئی اور آٹا ،گندم نا یاب کرنے کے۔

اہل علاقہ کے بار بار شکائت کرنے پر بھی پرائس کنٹرول مجسٹریٹس فلور ملوں ،ذخیرہ اندوزوں اور بڑے دوکانداروں کی بجائے چھوٹے دوکانداروں کو جرمانہ کرتے ہیں اور ایسے ہی عوام اور اعلی حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہتے ہیں۔ اس بحرانی کیفیت پر قابو پانے کے لئے حکومت کو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنی ہوگی ۔

حقیقت میں فی الحال کوئی آثاربوجوہ نظر نہیں آتے کیونکہ حکومتی مشینری ان مافیہ کے خلاف مفلوج نظر آتی ہے ۔ہر چند ماہ بعد ایک نیا بحران سر اٹھاتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کی جیبیں بھر کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس بہتی گنگا میں سرکاری آفسران واہلکاربھی ہاتھ دھوکر فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔اور پھر ایک نئے بحران کی پلاننگ شروع کر دی جاتی عوام چیختی ،پکارتی اور دہائیاں دیتی رہتی ہے حکومت وعدوں وعید اور کھو کھلے نعروں سے ان کا پیٹ بھرتی ہے ۔

سزا کسی کو نہیں ملتی اتنے عرصے میں نیا بحران آجاتا ہے ۔ وہ ہی غریبوں کے تنگدستی کے حالات دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں۔ جو انھوں نے مفلسی ،غریبی،فلاکت سے پہلے گزارے ہوتے ہیں۔زندگی بھر ایسے ہی ان کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔بھوک ،افلاس زدہ اور بے ما ئیگی کی چکی پس پس کر یہ مر جاتے ہیں حکومت تماشائی کا کردار ادا کرتی رہتی ہے لیکن ان کے حالات نہیں بدلتے کیونکہ اقتدار والوں نے کبھی ان کے حالات بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔


ایک بات یاد رکھئے گا مذرت کے ساتھ اگر کسی یاداش کمزور ہو تو لکھ لیجئے گا۔ گرین چشمہ لگانے سے ہر طرف گرینری نہیں ہوجاتی ،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی ، بار بار لفظی تبدیلی کہنے سے عملی طور پر تبدیلی نہیںآ سکتی،بنے گا نیا پاکستان ،بدلے گئے نظام ،بدلے گا پاکستان کا نعرہ لگانے سے ۔ نہیں بنے گا نیا پاکستان،کب بدلے گا نظام ،کیسے بدلے گا پاکستان اور کب غریبوں ،بے آسرالوگوں کو ملے گا '' روٹی ،کپڑا،اور مکان"۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :