یوم دفاع پاکستان اور آج کے حقیقی خطرات

اتوار 6 ستمبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 ہریوم دفاع پاکستان کے موقع پر پوری قوم اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ ہمارا بچہ بچہ ملک کے دفاع کے لیے قربان ہوگا اور کشمیر ہماری شہ رگ اور جان سے زیادہ عزیز ہے اس کے لیے آخری گولی، آخری سپاہی اور آخری حد تک جائیں گے قوم کا یہ اظہار حوصلہ افزا سمجھاجاتا ہے مگر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے بعد اب ہمیں امت مسلمہ کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے فلسطین کی آذادی‘ سلامتی اور خودمختاری کے خطرات کا بھی سامنا ہے اور ہم اپنے تاریخی موقف کی وجہ سے اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی آئین میں تبدیلی کے بعد اب وہاں ایک نئی صورت حال ہے‘ بھارتی فوج کے مظالم بڑھ رہے ہیں اور بھارتی سرکار وہاں قانونس ازی کیے جارہی ہے اب مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم نہیں بلکہ اس کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور اس کے بعد کی جانے والی قانونس ازی کے اثرات کا ہے بھارت سے آزادی ہر کشمیری مانگ رہا ہے جس کے لیے وہ تن، من اور دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں گر امت امسلمہ کہاں ہے؟ حکومت اور پاکستان کے عوام کا یہی سوال ہے جس کا جواب نہیں مل رہا حریت پسند کشمیریوں کے جذبے اور تحریک کو کچلنے کے لیے بھارت وہاں پر جبر اور تشددسے کام لے رہا ہے پاکستان کے لیے مقبوضہ وادی پر بھارتی قبضے کو عملی طور پر تسلیم کرنا ممکن ہی نہیں ہے امت مسلمہ کو پاکستان کے اس موقف اور بیانیے کو سمجھنا ہوگا‘ مشرق وسطی کو سمجھنا ہوگا کہ جنگیں ہتھیاروں یا معیشت سے نہیں بلکہ عزت، غیرت، حب الوطنی، جذبے اور عوام کے اعتماد کے ساتھ لڑی جاتی ہیں ہر پاسکتانی یہ سمجھتا ہے کہ جب یہ بات طے ہوچکی ہے کہ بھارت امن کی زبان سمجھنے پر تیار ہی نہیں ہے تو پھر اس سے اسی کی زبان میں بات کرنے سے کیا امر مانع ہے حکومت کو یہ فیصلہ لینا ہوگا کہ پاکستان کی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے مکمل طور پر بند کردی جائے جس سے بھارت کی ہوابازی کی صنعت زمیں بوس ہوجائے گی اور بھارت کی مصنوعات کے لیے پاکستان سے راہداری کی سہولت ختم کردی جائے تو کی معیشت دفن ہو سکتی ہے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند ہماری طرف دیکھ رہے ہیں آج کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔

(جاری ہے)

مقبوضہ جموں و کشمیر میں آج جو صورتحال ہے، اس سے امت مسلمہ خود کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتی آج پاکستان کا یوم دفاع ہے اسے یوم دفاع کشمیر اور یوم دفاع فلسطین کے طور پر بھی منایا جائے پاکستان پر برصغیر کی تقسیم سے لے کر آج تک ایک قرض ہے یہ قرض کشمیر کی آزادی کا ہے‘ کشمیر ہی وجہ سے پاکستان پر بھارت نے تین جنگیں مسلط کیں‘ ستمبر کی جنگ کی ابتداء بھی اچانک نہیں ہوئی تھی‘ یی چنگاری1947 سے بھی پہلے سلگ رہی تھی‘ جس روز بر صغیر میں پاکستان قائم کرنے کا فیصلہو ہوا اسی روز یہ فیصلہ بھی ہوا کہ کشمیر ہندو کی غلامی میں نہیں رہے گا‘ لہذا پاکستان قائم ہوا تو سری نگر میں بھی ہند سے آزادی کی شمع مذید روشن ہوئی جنگ ستمبر شاید جبرالٹر آپریشن یا س سے بھی کچھ پہلے کے حالات کی وجہ بنی 1962 میں بھارت کو چین کے مقابلے میں شکست ہوئی تھی اسے یہ داغ دھونا تھا پھر اپریل 65 میں رن آف کچھ کا واقعہ ہوگیا‘ بھارت سے یہ برداشت نہیں ہوا‘ ہمارے ہاں کچھ دانشوروں کو میدان سے باہر بیٹھ کر‘ ٹیم میں شامل نہ ہوتے ہوئے بھی گول کرنے کی عادت ہوچکی ہے لہذا کچھ عرصہ سے ایسے ایسے تجزیے سننے کو مل رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ‘ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا‘ اس نے منصوبہ بندی کرکے مشرقی پاکستان الگ کیا‘ مودی نے یہ بات تسلیم کی ہے اور اعتراف کیا ہے مودی کے اعتراف کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے کہ ہم بھارت کو گنجائش دیں‘ بھارت کو ایک سیکنڈ کے کھرب ویں حصے کی بھی گنجائش نہیں دی جاسکتی‘ یہ ملک دنیا کے امن کے لیے مہلک مرض ہے‘ ہمارے دانش ور چند واقعات کو لے کر یک طرفہ رائے دے کر بات کرتے ہیں اور یوں ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں‘ ملکی استحکام، ترقی وخوشحالی کیلئے قومیی یکجہتی لازمی شرط ہے۔

پاکستانی قوم کو تمام تر گروہی اور فروعی اختلافات سے باہر نکال کر انہیں اتحاد و اخوت کے راستہ پر گامزن کرنا ہوگا اور خاص طور پر نوجوانوں کی خداداد صلاحیتیوں میں نکھار لاکر انہیں وطن عزیز کو درپیش مختلف چیلنجز کے اسباب و عوامل سے آگاہ کرکے انہیں قومی تعمیر نو کے عمل میں شریک کرنیکی ضرورت ہے پیغام پاکستان بیانیہ کی روشنی میں پاکستان میں ایک جامع اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور تعمیر نو کیلئے مرتب ہونیوالے منصوبوں کو آگے بڑھانے کیلئے ہونیوالے اقدامات اور مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے پیغام پاکستا بیانیہ موجودہ دور کا اولین تقاضا ہے تعلیمی نصاب میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے متفقہ قومی بیانیہ پیغام پاکستان کو سکول اور کالج کی سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے، معاشرے میں اتحاد ویکجہتی کے فروغ کیلئے مشترکہ ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے، سوشل میڈیا،ریڈیواور ٹی وی چینلز سے بھی پیغام پاکستان بیانیہ کی تشہیر کااہتمام کیا جائے آج کا سچ یہ ہے کہ کارگل پر بھارت کو راستہ نہ ملتا‘ اسے رعائت نہ ملتی تو نتیجکہ آج مختلف ہوتا‘ عالمی برادری کے دباؤ کی وجہ سے بھارت کو کارگل اورا س سے پہلے اکھنور میں رعائت مل چکی ہے اس کے نتیجے میں بھارت آج پھر آنکھیں دکھا رہا ہے‘ اور اس نے کل بھوشن جیسے کرداروں کے ذریعے بھی پاکستان کو کمزور کرنے کی منصوبہ کی ہے‘ پاکستان پر ممبئی‘ پلوامہ واقعات کے الزام لگا کر ہمیں عالمی برادری کی مدد سے ایف اے ٹی ایف جیسے مسائل میں الجھایا ہوا ہے‘ مشرق وسطی میں سوچا جارہا ہے کہ ماضی کو دیکھنے کی بجائے آگے بڑھا جائے‘ مگر آگے بڑھنے کی قیمت کیا ہے؟ قیمت مسلم دنیا میں انتشار کے سوا کچھ نہیں ہے‘ پاکستان کو اس وقت بلوچستان سمیت ملک میں ہر جگہ بھارت‘ اسرائیل اور ان جیسے دیگر کھلے اور چھپے ہوئے دشمنوں کے وار کا سامنا ہے‘ اس غائب دشمن کی وجہ سے ہمارے ہزاروں جوان شہید ہوچکے ہیں‘ آئے روز لائن آف کنٹرول کے علاوہ افغان بارڈر اور بلوچستان اور فاٹا کے علاقے میں شہادتوں کی خبریں ملتی رہتی ہیں‘ کیا ہمارے جوانوں کا کشمیری حریت پسندوں اور فلسطین کا خون بہت سستا ہے؟ اور بھارت کی کھال بہت مہنگی ہے کہ امت مسلمہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے‘ امت مسلمہ کو خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کہ اسے پاکستان جیسا ملک میسر ہے
ملک کی سرحدوں کے دفاع میں شہادت ہرمحافظ ِوطن کی سب سے بڑی خواہش وتمنا ہوتی ہے، اُس کے نزدیک وطن سے مقدم و مقدس کوئی چیزنہیں ہوتی۔

وہ وطن کی خاطراپنی جان کی قربانی کوسب سے بڑافریضہ اور اعزازسمجھتاہے وہ چاہتاہے اُس کاوطن سلامت رہے۔اُس کے ہم وطنوں پرکوئی آنچ نہ آئے۔وہ دُشمن کے شرسے محفو ظ ومامون رہیں اوراُس کی جان کے بدلے، اس کا ساراخاندان ایسی اعلیٰ جنت میں داخل ہوجس کی نعمتیں اورآسائشیں کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ مسلمان تو اللہ کی راہ میں شہادت کواتنا ہی پسندکرتاہے، جتناکافرلوگ دُنیاوی زندگی کی لذتوں اورنعمتوں کو پسندکرتے ہیں۔

ہرانسان جودُنیا میں آیاہے،اُس نے موت کے تکلیف دہ اوراذیت ناک مرحلہ سے گزرنا ہی ہے اور ہرجسم نے مٹی میں مل کربکھرہی جانا ہے۔ہرلاش چاہے کتنے ہی اہتمام عمدہ خوشبو،نفیس ترین کفن میں دفن کی جائے آخرگل سڑہی جاتی ہے۔مگردفاع وطن میں گرا ہواخون انتہائی قیمتی ہوتا ہے اورشہیدکے مقام ومرتبہ اوراعزازکاکیا کہنا۔شہادت کی موت اتنی بڑی نعمت ہے کہ شہید جنت میں جاکربھی اسے نہیں بھولے گا اورخواہش کرے گا کہ اسے پھردُنیا میں بھیجا جائے اورشہیدہو،حتی کہ دس بار اسے دُنیا میں بھیجا جائے توبھی ہربارشہادت ہی اس کی آرزوہوگی۔

سیدالاولین والآخرین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہادت کی تمنا فرمایا کرتے۔
حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں پسندکرتاہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہادکروں اور شہیدکیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھرشہیدکیا جاؤں پھرزندہ کیا جاؤں پھرشہیدکیا جاؤں(بخاری شریف)
زندگی تو ہے ہی اللہ کی امانت، جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے،انسان کی پیدائش اتنی بے بودہ اوربے مقصدنہیں اورنہ زندگی کی نعمت، عقل، حواس اورجسم کے اعضاء انسان کوبے مقصدعطاء کئے گئے ہیں۔

بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے امانت ہیں تاکہ عطاء کی گئی تمام نعمتیں اللہ کی منشاومرضی کے مطابق استعمال کی جائیں۔جب موت کا ایک وقت مقرر ہے تو پھر کیوں نہ شہادت کی موت طلب کی جائے
رگوں میں ہے جنوں میں ہے وطن کا عشق خوں میں ہے
جوبیٹے ہیں وطن تیرے وطن ان کے لہو میں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :