زندگی کو عزت دو

پیر 10 جنوری 2022

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 برصغیر میں مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کی کوشش اس لیے کی تھی کہ وہ ہندو بنیا کی ذہنیت کے دباؤ سے آزاد ہو کر ہر قسم کے سماجی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کے تحت زندگی گزاریں گے جہاں امن ہوگا، عدم ہوگا اور انصاف ہوگا، پاکستان بنانے والی سیاسی قیادت نے بھی عہد کیا کہ پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو قانون کے تابع رہ کر روزگار کمانے اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق ملے گا پھر یہ ضمانت آئین میں پاکستان میں دی گئی، انسان کے جتنے بھی حق کسی مذہب یا معاشرتی قانون میں تسلیم کیے گئے ہیں ان میں زندہ رہنے کا حق سب سے اہم ہے کسی شخص کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کسی دوسرے کو نہ حق زندگی سے محروم کردے، آج اگر ہم اپنے وطن عزیز کے چہرے پر نظردوڑائیں تو ہمیں اس کے چہرے پر بیرونی قرضوں کی جابجا سلوٹیں نظر آتی ہیں، یہ قرض47 ہزار ارب کی حد کو چھو چکا ہے، تحریک انصاف کی حکومت کے اگلے ڈیڑھ سال ابھی باقی ہیں، ساڑھے تین سالوں یہ حکومت 23 ہزار ارب قرض لے چکی ہے، یا اللہ…… یہ قرض کیسے اترے گا؟ اور ایسی قوم جس کے خط غربت کی حالت یہ ہے کہ حکومت پاکستان کا ایک پیغام ہر موبائل فون کال سے پہلے سنائی دے رہا ہے اگر آپ کی آمدنی پچاس ہزار روپے سے کم ہے تو آپ یا آپ کے گھر کا کوئی فرد احساس راشن پروگرام میں خود کو رجسٹرڈ کرائے تاکہ اسے آٹا، دال چاول، گھی کی خریداری پر ایک ہزار روپے کی رعائت مل سکے، یہ پیغام کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ پاکستان میں جس بھی شخص کی ماہانہ آمدنی پچاس ہزار روپے سے کم ہے وہ اب خود کو احساس راشن پروگرام میں رجسٹریشن کے لیے جائے، اندازہ لگائیے کہ پاکستان میں ماہانہ پچاس ہزار روپے سے کم آمدنی والے کتنے شہری ہیں اور کتنے خاندان ہیں، اور جب کہ حکومت نے قومی معیشت کے حساب کتاب کے بعد یہ فیصلہ بجٹ میں دیا ہوا کہ کم از کم آمدنی بیس ہزار روپے ہوگی، اب گویا پچاس ہزار ماہانہ کمانے والے بھی کم از کم اجرت کی سطح پر آگئے ہیں؟ یہ حکومت بر سر اقتدار آئی تو سب سے پہلا وار میڈیا پر کیا اور اس حکومت کے دور میں اب تک ذرائع ابلاغ کے اداروں میں کام کرنے والے سینکڑوں کارکن بے روزگار ہوچکے ہیں، اور میڈیا کی ہی بات کی جائے تو اس شعبہ میں پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ والے ملازمین تو اب احساس پروگرام میں خود کو رجسٹر کرانے پر مجبور نہیں کر دیے گئے؟ جیسا کہ موبائل فون کال سے پہلے جو رنگ ٹون سنائی دیتی ہے وہ تو یہی پیغام دے رہی ہے…… آج کا یہ کالم اور گزارش، پاکستان فیڈرل یونین آف جر نلسٹس کے لیے سوچنے کا مقام ہے…… اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے لیے بھی…… یہ ہے وہ معاشی ترقی جو ہمیں اس حکومت کے دور میں ملی ہے، حد تو ہے کہ اب دفاع کے لیے قرض لینا پڑ رہا ہے، کہا گیا تھا کہ دو سو ارب آئی ایم کے منہ پر مار دیے جائیں گے، اس حکومت نے دو سو ارب کیا پورا اسٹیٹ بنک ہی اس کے حوالے کردیا، ابھی اس حکومت کا ڈیڑھ سال باقی ہے، جہاں تک زندہ رہنے کے حق کی بات ہے، زندہ رہنے کے لیے خوراک بنیادی ضرورت ہے،اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2021ء میں خوراک کی قیمتیں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں اوسطاً 25فیصد بلند ہوکر جنوری 2022ء میں28برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں عالمی ادارے کی رپورٹس ہوں یا ملکی اعداد و شمار ہوں یا معاشی تبصرے اور تجزیے ان سے مہنگائی یا سہولتوں کی سطح کا اندازہ تو ضرور ہوتا ہے مگرحقیقی کرب کا اندازہ کسی کے پیٹ کے اندر جھانکنے سے ہوتا ہے جس سے کوئی شخص دوچار ہوتا ہے عالمی ادارے رپورٹ کا صرف ایک یہی حصہ اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں کی حکومتیں ملک میں خوراک کی فراہمی کے لیے کیا کچھ کر سکتی تھیں اور کیا کیا ہے؟ حال ہی میں قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں جن ”اشیائے تعیش“ کی درآمد پر سترہ فیصد جنرل سیلز عائد کیا گیا ان میں بچوں کے استعمال کا خشک دودھ بھی شامل ہے، بس اتنا ہی کاکہنا کافی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :