صراط مستقیم

ہفتہ 15 جنوری 2022

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 تاریخ میں دستیاب معلومات کے مطابق سن622 کے مہینے ستمبر کی24 تاریخ کو ایک عظیم ترین شخصیتﷺ،جنہیں اللہ نے اپنا محوب قرار دیا، جن کے بعد نبوتﷺ کے تمام دروازے بند کر دیے گئے، جن پر فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں، وہ عظیم اور کامل ہستیﷺ مکہ سے مدینہ کا سفر طے کرکے مدینہ شہر میں داخل ہوئی، تو ریاست مدینہ کے پہلے مرکز کی تعمیر کا فیصلہ بھی کیا گیا، انصار نے آگے بڑھ کر مسجد کی تعمیر کے لیے اراضی دینے کی پر خلوص پیش کش کش کی، فیصلہ ہوا کہ جہاں کسوی بیٹھ جائے گی مسجد اسی جگہ تعمیر کی جائے گی اور تعمیر سے پہلے اس کی اراضی کی قیمت ادا کی جائے گی، جب نبی آخر الزمانﷺ نے مکہ کی وادی میں اللہ کے پیغام کی جانب معاشرے کے اہم اور ہر فرد کو بلایا تو انہیں ایک پیغام کے ذریعے نصیحت کی کہ بس وہ ایک کلمہ ہے،اسے اگر مجھ سے قبول کرلو،تو اس کے ذریعے تم سارے عرب و عجم کو زیر نگیں کرلو گے، یہ دو پیغام اور نصیحت میں ہی بھلائی اور خیر ہے۔

(جاری ہے)


 وزیر اعظم عمران خان نے اعلان فرمایا ہے کہ ان کی حکومت پہلی بار قومی سلامتی کی پالیسی لائی ہے، مسلم معاشرے کے لیے سلامتی کی پالیسی تو آج سے چودہ سو سال قبل کھول کھول کر رکھ دی گئی کہ”بس وہ ایک کلمہ ہے،اسے اگر مجھ سے قبول کرلو،تو اس کے ذریعے تم سارے عرب و عجم کو زیر نگیں کرلو گے، یہ دو پیغام اور نصیحت میں ہی بھلائی اور خیر ہے“ پاکستان اسلامی ملک ہے اسی لیے اس کا آئینی نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی میں بجٹ پاس کیا گیا ہے جسے منی بجٹ کے طور پر ایوان میں پیش کیا گیا، تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اپنی سو سو مبجوریاں گنوائی ہیں کہ منی بجٹ کیوں لانا پڑا؟ وزیر خزانہ نے کھلے بندوں اعتراف کرلیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ہمیں منی بجٹ لانا پڑا ہے وزیر خزانہ اس حکومت کی کابینہ کے اہم کل پرزے ہیں جو ہمیں ”پہلی بار“ قومی سلامتی کی پالیسی دے رہی ہے، غیر ملکی قرض، اور ان پر سود در سود کی ادائیگی، آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنا اور اس کے اشاروں پر بجٹ پیش کرنا اور پاس بھی کرالینا، کیا یہ بھی قومی سلامتی پالیسی ہی سمجھا جائے؟ وزیر اعظم سے گزارش ہے کہ وہ جس طرح کی ریاست مدینہ کا قیام اس ملک میں چاہتے ہیں اس کے قیام کے لیے سب سے اہم نکتہ اور بنیاد یہ ہے کہ وہ اپنی حکومت کے ماہرین کو حکم دیں کہ وہ ریاست مدینہ کی روح کا مطالعہ کریں اور پھر اپنی حکومت کے ان تمام اقدامات کا جائزہ لیں جو انہوں نے ریاست مدینہ کے قیام کا دعوی کرتے ہوئے اب تک انجام دیے ہیں،
 یہ قوم تو ان سے فرق چاہتی تھی، تبدیلی کی خواہش مند تھی، اس قوم نے ہر گز ہر گز یہ توقع نہیں کی تھی کہ تحریک انصاف دن کو رات اور رات کو دن میں بدل دے گی تاہم یہ امید ضرور کی تھی کہ ملمع کاری کے ذریعے قوم کو دھوکہ نہیں دیا جائے گا، آج بھی ملک میں عدل کا وہی نظام ہے جو نواز شریف اور ان سے پہلے کی حکومتیں چھوڑ کر گئی تھیں، ملک میں آج بھی قبضہ مافیا متحرک، فعال، بااثر ہے ، حکومت نے دعوی کیا کہ منی بجٹ عام آدمی کو متاثر نہیں کرے گا، جی ایسا ہی ہوگا اگر حکمران بھی ایک دن کے لیے صرف ایک دن کے لیے عام آدمی بن جائیں تو رات کو سونے کے لیے بستر میسر نہیں ہوگا اور دن میں تارے نظر آجائیں گے۔


 وہ ایک کلمہ ہے جسے حقیقی روح کے ساتھ اپنانے کے بعد دنیا میں ایک ایسا نظام ملتا ہے کہ ”ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا“ او آئی سی کے چھپن ممالک ہیں، کس ملک میں ایسا نظام ہے؟ یہ کلمہ ایک ایسا نظام دیتا ہے کہ جس میں طاقت صرف عدل کو ملتی ہے، ایک ایسی قومی سلامتی پالیسی دیتا ہے جس میں عرب و عجم زیر نگیں ہوتے ہوئے ملتے ہیں اور ایک ایسا قطعہ اراضی ملتا ہے جس کی قیمت ادا کیے بغیر مسجد تعمیر نہیں ہوسکتی، اس صراط مستقیم پر چلنے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :