چوہدری ظہور الہی ایک عظیم سیاست دان

منگل 28 ستمبر 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے گجرات شہر سے تھوڑا آگے بڑی سڑک سے موضوع گورالی کو جانے والی ایک چھوٹی سی سڑک نکلتی ہے‘ یہاں سے ایک میل مشرق میں دریائے چناب کے کنارے نت نامی ایک گاؤں ہے‘ اس گاؤں کو اللہ نے ایک ممتاز مقام فضیلت دی کہ یہاں پیدا ہونے والی شخصیت نے پاکستان اور اسلام کی عظمت کے لیے کام کیا‘ اس گاؤں کا وہ قدیم مکان دریا برد ہوچکا ہے جہاں7 مارچ 1920 کو چوہدری سردار خان کے گھر ان کے سب سے چھوٹے صاحب زادے ظہور الہی پیدا ہوئے‘ چوہدری سردار خان ان زمینداروں میں شامل تھے جنہیں انگریز دور میں مالیہ کی ادائیگی کی بنیاد پر مرکزی اسمبلی کے لیے ووٹ دینے کا حق حاصل تھا چوہدری ظہور الہی کے دادا حیات خان صاحب دل‘ درویش صفت انسان اور ادبی شخصیت تھے اور ان کے گھر کا دستر خوان انہی کے زمانے سے آج تک آباد اور وسیع ہے، وسیع دستر خوان کی روائت سردار خان نے بھی نبھائی‘ ان کے بعد چوہدری ظہور الہی اور پھر آج تک چوہدری شجاعت حسین بھی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں چوہدری ظہور الہی ایک سیاسی رہنماء ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی شخصیت بھی تھے اور پنجابی ادب سے انہیں بہت لگاؤ تھا1950 جب سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر دریا برد ہوا تھا اس کے نتیجے میں پنجابی ادب کا بہت سا لٹریچر بھی ضائع ہوا 25 ستمبر1981 چوہدری ظہور الہی کا یوم شہادت ہے اس روز انہیں دن دہاڑے فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا تھا آج اس واقعہ کو کم و بیش سینتیس اڑتیس سال گزر چکے ہیں چوہدری صاحب کے ایک دوست بشیر چیمہ‘ (ایم این اے طارق بشیر چیمہ کے والد) نے گھر آکر ملاقات کی اور انہیں اطلاع دی تھی کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے اور دھمکی آمیز ٹیلی فون انہیں کیا گیا ہے اور اسی روز انہیں قتل کردیا گیا، آج اگرچہ حالات تبدیل ہوچکے ہیں، اور سیاست میں مصلحت غالب آچکی ہے، مفاہمت کا دور ہے اور لوگ زخم بھول چکے ہیں اور بھول جانا چاہتے ہیں مگر تاریخ یہی بتاتی ہے اور چوہدری ظہور الہی اپنے پاکستان کی بے پناہ ترقی اور اسے ہر لحاظ سے اندر اور باہر سے محفوظ بنانے کے غیر متزلزل سیاسی عزم کے باعث ایک تنظیم الذولفقار کے کارندوں کا نشانہ بنے تھے چوہدری ظہور الہی صرف اور صرف پاکستان کے لیے سوچتے تھے اور یہی ان کا قصور تھا حملے کے وقت چوہدری صاحب کے ساتھ کار میں سوار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس(ر) مولوی مشتاق حسین بھی زخمی ہوئے تاہم ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایم اے رحمن باالکل محفوظ رہے‘ یہ تینوں اپنے ایک تاجر دوست محمد امین کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کرکے واپس آرہے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں ان پر فائرنگ کی گئی چوہدری ظہور الہی کی شہادت پر پورا ملک سوگوار تھا اور گجرات کی تاریخ میں آج تک ان سے بڑا جنازہ کسی شخصیت کا نہیں ہوا‘ مرحوم کو ان کی والدہ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا جنرل ضیاء الحق سمیت ملک کی تمام سیاسی صحافتی شخصیات نے رنج و غم کا اظہار کیااور جسارت سمیت ملک کے تمام اخبارات نے اداریے لکھے جسارت نے انہیں ایک محب وطن کا قتل قرار دیا بلاشبہ چوہدری ظہور الہی ایک محب وطن سیاسی رہنماء تھے‘ وہ خداترس انسان تھے‘ روایت پسند شخصیت تھے ان کی شہادت کے بعد ایک طویل عرصے تک چوہدری شجاعت خاندان کا پیپلزپارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور چوہدری ظہور الہی کے قتل کے پس منظر سے واقف ہر سیاسی کارکن کو پختہ یقین تھا کہ چوہدری خاندان اس جماعت سے تعلق پیدا ہونے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا دونوں ایک دوسرے کے لیے شجر ممنوعہ تھے لیکن جب وقت بدلتا ہے تو پرانے نشان مٹ جاتے ہیں پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چوہدری ظہور الہی کے بھتیجے جناب چوہدری پرویز الہی پیپلزپارٹی کی حکومت میں اتحادی جماعت کے نمائندے کے طور پر وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے ساتھ نائب وزیر اعظم بنے‘ یہ فیصلہ چوہدری خاندان نے کیوں کیا؟ اور دل پر پتھر کیسے رکھا یہ بات آج تک راز ہے اور ہم بھی اسے تاریخ کے حوالے کرکے تاریخ کا جبر سمجھ لیتے ہیں اور چوہدری شجاعت حسین ہوں یا چوہدری پرویز الہی دونوں نہائت شری النفس سیاست دان ہیں اور وہ یہ راز آج تک مٹھی میں بند کیے بیٹھے ہیں قرآن کے الفاظ ہیں کہ اللہ مال اور اولاد سے انسان کو آزماتا ہے، چوہدری ظہور الہی کو اللہ نے نیک اولاد عطاء کی، ہمارے سامنے نواز شریف کی مثال بھی ہے، وہ کیسے
 اپنی اولاد کے ہاتھوں مجبور ہوئے اور آج ملکی سیاست سے ہی بے دخل ہوچکے ہیں چوہدری خاندان کیوں اس قدر روادار ہیں یہ راز ظہور پیلس کی مٹھی میں بند ہے، بے شمار زخم اور راز ان کے سینے میں ہیں، اس خاندان کے ہر فرد کے لیے پاکستان کے لیے سوچنے والوں کے لیے بہت قدر ہے، چوہدری شجاعت حسین، اپنے والد محترم سے تعلق کے باعث ہی جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کو 2003 میں سینیٹ میں لائے تھے، پیپلزپارٹی سے ان کی گاڑھی چھنتی رہی، چوہدری ظہور الہی کی شہادت کے بعد چوہدری شجاعت حسین کے الفاظ یہی تھے کہ ”مسٹر بھٹو کی فاشسٹ پارٹی کے کارندے انہیں اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے“ ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلزپارٹی بنائی تو چوہدری ظہور الہی نے اس پارٹی کے فلسفہ کی مخالفت کی وہ سمجھتے تھے کہ اس پارٹی کے قیام سے پاکستان کے بنیادی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچ رہا ہے انہوں نے پارٹی کے نعرہ روٹی کپڑا اورمکان کو نظریاتی طور پر چیلنج کیا بھٹو اس چیلنج سے بہت پریشان تھے 1970 کے عام انتخابات میں پنجاب میں راولپنڈی سے ملتان تک چوہدری ظہور الہی مسلم لیگ کے دوسرے امیدوار تھے جو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کامیاب ہوئے قومی اسمبلی میں پہنچے تو انہوں نے 1973 کے آئین کی تشکیل سے لے ختم نبوت سے متعلق آئینی ترمیم تک نہائت متحرک کردار ادا کیا‘ اسمبلی میں بلوچستان کی آواز اٹھائی‘ بلوچستان کا مقدمہ اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وہ ہر بار اسمبلی میں روئے‘ ستر سالہ ایک بوڑھیا کا واقعہ بیان کیا جو جیل میں اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے آئی تھی اور اس کے ہاتھ میں بیٹے کے لیے روٹی کے دوخشک ٹکڑے اور دو گاجریں تھیں‘ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ بلوچستان کا مسلئہ سیاسی نہیں اقتصادی ہے جس صوبے کے سردار فرانس سے بنے ہوئے کپڑے پہنتے ہوں اور چار سو ڈالر مالیت کے پرفیوم استعمال کریں وہاں کے مسائل کا حل بھی انہی کے ہاتھ میں ہے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بلوچ کو اپنا بھائی سمجھو اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرو‘ پوری سیاسی زندگی میں پاکستان کے لیے متحرک رہے‘ کبھی پیسے کے پیچھے نہیں بھاگے آج ملک میں ان جیسا زیرک اور جرائت مند رہنماء نہیں ہے وہ یو ڈی ایف اور بعد ازاں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے بھی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے سرگرم عمل رہے قومی اسمبلی میں ان کی کی جانے والی تقاریر اگر مسلم لیگ (ق) کی قیادت اپنے کارکنوں میں تقسیم کرے تو یہ ان کی سیاسی تربیت کا بہترین سامان ہوگا لیکن ایسا کرنے سے کارکن مسلم لیگ (ق) کی حالیہ سیاسی ترجیحات سے متعلق سوالات کے انبار اپنی قیادت کے سامنے لگا سکتے ہیں حرف آخر یہ ہے کہ آج ملک میں سیاست بھی ہے اور مسلم لیگ(ق) بھی مگر چوہدری ظہور الہی جیسی سیاسی بصیرت کہیں نظر نہیں آرہی کاش چوہدری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) ملک کے اس قیمتی اثاثے کو آگے بڑھانے کے لیے نوجوان سیاست دانوں کی رہنمائی کرے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :